Wednesday 27 March 2013

دنیائے وفا کا کوئی در باز کریں کیا

دنیائے وفا کا کوئی در باز کریں کیا
منزل ہی نہیں جب، سفر آغاز کریں کیا
اڑتے ہوئے جاتے تھے ستاروں سے بھی آگے
دل ٹوٹ کے گر جائے تو پرواز کریں کیا
کیا شہرِ مراتب میں ہوں مہمان کسی کے
آئے جو کوئی، دعوتِ شیراز کریں کیا
آنکھوں سے کسی خواب کی دوری پہ ہے دنیا
اس دشتِ فراموشی میں آواز کریں کیا
جب اتنی کفایت سے ملے تیری توجہ
کیا خرچ کریں اور پس انداز کریں کیا
تجھ سا جو کوئی ہو تو اسے ڈھونڈنے نکلیں
ایسا نہ ہو کوئی تو تگ و تاز کریں کیا
ناکام تمناؤں پہ محجوب سا اک دل
سرمایۂ جاں یہ ہے تو پھر ناز کریں کیا
تجھ ایسا ہو قاتل تو کوئی جاں سے نہ کیوں جائے
ہوں لاکھ مسیحا بھی تو اعجاز کریں کیا
افشائے محبت بھی قیامت سے نہیں کم
اب فاش تِری چشم کا ہر راز کریں کیا 

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment