Wednesday 27 March 2013

پھول روش روش پہ تھے رستہ صد چراغ تھا

پھول روش روش پہ تھے، رستہ صد چراغ تھا
کون کہے گا اِس جگہ دشت نہیں تھا، باغ تھا
اِس طرح درد سے بھرے اِس طرح ٹوٹ کر گرے
جیسے کہ چشم تھی سبو جیسے کہ دل ایاغ تھا
جب سے نگاہ ہو گئی اخترِ شام کی اسیر
شب کی نہ کچھ خبر ملی دن کا نہ کچھ سراغ تھا
ہم نے بھی خود کو حجرۂ خواب میں رکھ لیا کہیں
کوئی جو کم نگاہ تھا کوئی جو کم فراغ تھا
وصلِ زمین و آسماں دیکھ چکی تھی ایک بار
چہرۂ شامِ انتظار اس لیے باغ باغ تھا
اس میں تو کوئی شک نہیں ہم میں چمک دمک نہیں
آئینۂ نگاہِ دوست آپ بھی داغ داغ تھا
سیرِ جہاں کے باب میں دونوں ہی سَیر چشم تھے
ایک کو صدِ راہ دل، اک کے لیے دماغ تھا
صبح ہوئی تو سامنے چہرۂ شہرِ بے تپاک
رات ہوئی تو منتظر خانۂ بے چراغ تھا

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment