Wednesday 27 March 2013

موسم زرد کا ٹوٹا ہے حصار آخر کار

موسمِ زرد کا ٹوٹا ہے حصار آخرِ کار
چشمِ خوں رنگ نے دکھلائی بہار آخرِ کار
کس طرح لوگ مگر منزلِ جاں پاتے ہیں
ہم ہوئے رستۂ ہستی کا غبار آخرِ کار
عکس آئینے پہ آئینہ ہوا عکس پہ دنگ
ایک سے لگنے لگے نقش و نگار آخرِ کار
خواب، مہتاب، ستارہ کہ مرے دل کی صدا
کون اترے گا تری رات کے پار آخرِ کار
راہ کے دونوں طرف پیڑ کھڑے تھے حیراں
سامنے تھا وہ تمنا کا دیار آخرِ کار
گاہے گاہے ہی سہی اٹھنے لگی چشمِ کرم
رفتہ رفتہ ملا اس جاں کو قرار آخرِ کار
زرد ہونے سے ذرا قبل کھلا شاخ پہ پھول
گلشنِ جاں میں چلی بادِ بہار آخرِ کار
دوستوں کا یہی احساں ہے یہی مجھ پہ ستم
جان لی تو نے مری حالتِ زار آخرِ کار
دن کے ساتھ آئے گا تلخابِ غمِ دوراں بھی
ٹوٹ ہی جائے گا اس شب کا خمار آخرِ کار
ہم نے پتھر کی طرح آنکھ میں رکھے آنسو
بے حسی، تجھ پہ ہے اب دار و مدار آخرِ کار
کچھ ضروری تو نہیں منزلِ مقصود ملے
ختم ہو جائے اگر راہگزار آخرِ کار
موج کے ساتھ کوئی عکس بہا جاتا ہے
چشمِ حیراں بھی چلی جائے گی پار آخرِ کار
بے دلی، دل سے لپٹ جاتی ہے پہلے آ کر
بنتا جاتا ہے مرے گِرد حصار آخرِ کار
صبح کو بھول گئے جیسے ستاروں کا حساب
ترک کر دینا ہے زخموں کا شمار آخرِ کار
عندلیبِ چمنِ عشق جو ٹھہرا تھا یہ دل
اک فسانے سے بنے ایک ہزار آخرِ کار
اس قدر محو رکھا چشمِ محبت نے کہ بس
ہم بھی کہلانے لگے خواب نگار، آخرِ کار

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment