Thursday 28 March 2013

دل میں چھپی ہوئی تھی جو زینت بام ہو گئی

دل میں چھپی ہوئی تھی جو، زینتِ بام ہو گئی
آنکھ اُٹھی تو ساری بات برسرِ عام ہو گئی
ایک رفیق تھا سو دل اب تِرا دوست ہو گیا
جو بھی متاعِ خواب تھی سب تِرے نام ہو گئی
دیکھا نہیں ہے آفتاب، نصفِ نہار پر کبھی
عرصۂ زندگی میں بس صبح سے شام ہو گئی
خواہشِ ِ ناتمام کو پیشِ زمانہ جب کِیا
رَم ہی کبھی کِیا نہ تھا، اِس طرح رام ہو گئی
شام کے راستے پہ تھا ایک خیال ہمرکاب
پھر تو ہَوا بھی ساتھ ساتھ محوِ خرام ہو گئی
کیسی اڑان کی ہمیں تجھ سے امید تھی مگر
زندگی! تُو بھی طالبِ دانہ و دام ہو گئی
کلفتِ جاں سے ایک ہی ساعتِ خوش بچائی تھی
اور وہ نذرِ گردشِ ساغر و جام ہو گئی
میں نہ جھپک سکی پلک مجھ پہ جھکا تھا جب فلک
حد سے بڑھی تو خامشی، خود ہی کلام ہو گئی
شہر میں ان کے نام کے چند چراغ جل اٹھے
راہروانِ شوق کو دشت میں شام ہو گئی

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment