Sunday 31 March 2013

ہوا کے شور کو رکھنا اسیر جنگل میں

ہوا کے شور کو رکھنا اسیر جنگل میں
میں سن رہی ہوں قلم کی صریر جنگل میں
ہتھیلیوں پہ ہوا سنسناتی پھرتی ہے
میں اسکی چاہ کی ڈھونڈوں لکیر جنگل میں
خیال رکھنا ہے پیڑوں کا خشک سالی میں
نکالنی ہے مجھے جوئے شیر جنگل میں
دیارِ جاں میں پھرے رات دندناتی ہوئے
ادھر ہے قید سحر کا سفیر جنگل میں
عجیب لوگ ہیں دل کے شکار پر نکلی
کمان شہر میں رکھتے ہیں تیر جنگل میں
طلب کے شہر میں تھا جو سدا قیام پزیر
سنا ہے رہتا ہے اب وہ فقیر جنگل میں
کبھی جو چھو کے گزر جائے نرم سا جھونکا
یہ زلف لے کر اڑائے شریر جنگل میں
بڑے سکون سے رہتے ہیں لوگ بستی کی
رکھی ہے دشت میں غیرت، ضمیر جنگل میں
ہوا میں آج بھی روتی ہے بانسری نیناںؔ
اداس پھرتی ہے صدیوں سے ہیر جنگل میں

فرزانہ نیناں

No comments:

Post a Comment