Wednesday 27 March 2013

شام کو ہو کے بے قرار یاد نہیں کِیا تجھے

شام کو ہو کے بے قرار یاد نہیں کِیا تجھے
کب یہ ہوا کہ بار بار، یاد نہیں کِیا تجھے
خواب سجا کے جی لیے دل سےلگا کے جی لیے
رشتۂ دردِ استوار، یاد نہیں کِیا تجھے
دانشِ خاص ہم نہیں یوں تو جُنوں میں کم نہیں
دل پہ ہے اتنا اختیار، یاد نہیں کِیا تجھے
فصلِ بہار پھر خزاں، رنگِ بہار پھر خزاں
آئی ہے پھر سے اب بہار یاد نہیں کِیا تجھے
اشک جو ختم ہو گئے خود سے لِپٹ کےسو گئے
کوئی نہیں تھا غمگسار، یاد نہیں کِیا تجھے
کتنی کہانیاں کہیں، کتنے فسانے بُن لیے
بن گئے داستاں نگار، یاد نہیں کِیا تجھے
سخت اداس تھا نگر،سہمے ہوئے تھے بام و در
دور تھے سارے رازدار، یاد نہیں کِیا تجھے
ایک چراغ راہ میں دیر تلک جلا کِیا
بجھ گئی چشمِ سوگوار یاد نہیں کِیا تجھے
ڈھونڈ لیا ترا بدل کہتے ہی کہتے اک غزل
سوئے ہیں اہلِ انتظار، یاد نہیں کِیا تجھے

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment