Saturday 30 March 2013

ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا

ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا
میں چپ ہوا تو زخم مِرے بولنے لگے
سب کچھ زبانِ حال سے لب بستہ کہہ دیا
خورشیدِ صبحِ نو کو شکایت ہے دوستو
کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا
چلتا رہا تو دشت نوردی کا طنز تھا
ٹھہرا ذرا تو آپ نے پابستہ کہہ دیا
دیکھا تو ایک آگ کا دریا تھا موجزن
اس دورِ ناسزا نے جسے رستہ کہہ دیا
دیکھی گئی نہ آپ کی آزردہ خاطری
کانٹے مِلے تو ان کو بھی گُلدستہ کہہ دیا

مرتضیٰ برلاس

No comments:

Post a Comment