Friday 29 March 2013

اِک اجاڑ بستی کا اِک اداس جادہ تھا

اِک اجاڑ بستی کا اِک اداس جادہ تھا
اور بادیہ پیما ایک مستِ بادہ تھا
حسنِ کم نگاہی پر عمر بھر نہ کھل پایا
دل کی بند مٹھی میں ایک حرفِ سادہ تھا
عمر بھر کے غم لے کے چشمِ نم اُمڈ آئے
وجہِ گرم بازاری اک غلام زادہ تھا
ہر محل پہ سایہ تھا کچھ دراز پلکوں کا
خواب خواب آنکھوں میں ایک شاہزادہ تھا
بادشاہ کے گھر تک آنچ کس طرح آتی
اس بساط پر باقی اب تک اِک پیادہ تھا
صبر کا علم اب تک سربلند تھا لیکن
شہرِ گنگ میں چرچا جبر کا زیادہ تھا
قافلے ہواؤں کے دل بہ کف گداؤں کے
دشت میں نکل آئے، شہر کا ارادہ تھا
شاخ شاخ تھی جس کی، کل بہار پیرایہ
وہ ہزار پیراہن آج بے لبادہ تھا
ایک دن تو دھلنا تھے داغ نارسائی کے
ہم بھی جانتے تھے یہ قتل بے ارادہ تھا
شکوہ کج ادائی کا، رنج نارسائی کا
اور پارسائی کا، ہر سخن اعادہ تھا
شہرِ ہجر میں خالدؔ دوست دو ہمارے تھے
اِک چراغِ جادہ تھا، اِک رُخِ کشادہ تھا
رات کی سیاہی بھی پڑ رہی تھی کم خالدؔ
اِک چراغ زادہ تھا، اِک چراغِ جادہ تھا

خالد احمد

No comments:

Post a Comment