Wednesday 27 March 2013

کب چراغوں کی ضرورت ہے ملاقاتوں میں

کب چراغوں کی ضرورت ہے ملاقاتوں میں
روشنی ہوتی ہے کچھ اور ہی ان راتوں میں
سر پہ جھکتا ہوا بادل ہے کہ اک یاد کوئی
اور بھی گہری ہوئی جاتی ہے برساتوں میں
ایک خوشبو سی کسی موسمِ نادیدہ کی
آخری چیز بچی عشق کی سوغاتوں میں
یہ جو بنتا ہے اجڑتا ہے کسی خواب کے ساتھ
ہم نے اک شہر بسا رکھا ہے ان ہاتھوں میں
نقش کچھ اور بنائے گئے سب چہروں پر
بھید کچھ اور چھپائے گئے سب ذاتوں میں
شاعری، خواب، محبت، ہیں پرانے قصے
کس لیے دل کو لگائے کوئی ان باتوں میں
ہفت خواں یوں تو ملے عشق کے اس رستے پر
ہجر ہی منزلِ مقصود ہوئی، ساتوں میں
دست بردار ہوئے ہم تو تمناؤں سے
عمر گزری چلی جاتی تھی مناجاتوں میں

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment