Saturday 30 March 2013

گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے

گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے، گھر کا سناٹا کہتا ہے
اِس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے
اِک خواب نما بیداری میں جاتے ہوئے اس کو دیکھا تھا
اِحساس کی لہروں میں اب تک حیرت کا سفینہ بہتا ہے
پھر جسم کے منظرنامے میں سوئے ہوئے رنگ نہ جاگ اٹھیں
اِس خوف سے وہ پوشاک نہیں، بس خواب بدلتا رہتا ہے
چھ دن تو بڑی سچائی سے سانسوں نے پیام رسانی کی
آرام کا دن ہے کس سے کہیں دل آج جو صدمے سہتا ہے
ہر عہد نے زندہ غزلوں کے کتنے ہی جہاں آباد کیے
پر تجھ کو دیکھ کے سوچتا ہوں اِک شعر ابھی تک رہتا ہے

غلام محمد قاصر

No comments:

Post a Comment