Friday 29 March 2013

غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن

غمِ دوراں نے بھی سیکھے غمِ جاناں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن
وہی اقرار میں انکار کے لاکھوں پہلو
وہی ہونٹوں پہ تبسم وہی ابرو پہ شکن
کس کو دیکھا ہے کہ پندارِ نظر کے باوصف
ایک لمحے کے لئے رک گئی دل کی دھڑکن
کونسی فصل میں اس بار ملے ہیں تجھ سے
ہم کو پرواۓ گریباں ہے نہ فکرِ دامن
اب تو چبھتی ہے ہوا برف کے میدانوں کی
ان دنوں جسم کے احساس سے جلتا تھا بدن
ایسی سونی تو کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
دل بجھے جاتے ہیں اے تیرگئ صبحِ وطن

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment