Friday 29 March 2013

جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں

جو دن گزر گئے ہیں ترے اِلتفات میں
میں ان کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں
کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی مرے واقعات میں
میرا تو جرم تذکرۂ عام ہے مگر
کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہاتھ میں
آخر تمام عمر کی وسعت سما گئی 
اک لمحۂ گزشتہ کی چھوٹی سے بات میں
اے دل ذرا سی جرأتِ رِندی سے کام لے
کتنے چراغ ٹوٹ گئے احتیاط میں

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment