Thursday 28 March 2013

شاید کہ موج عشق جنوں خیز ہے ابھی

شاید کہ موجِ عشق جنوں خیز ہے ابھی
دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی
ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم
اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی
پھر آبِ سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے
گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی
اک نونہالِ خواب ہے دنیا کی زد پر آج
اِس غم کی خیر ہو کہ یہ نوخیز ہے ابھی
سب ذرّہ ہائے نیلم و الماس، گردِ راہ
میرے لیے وہ چشم گہر ریز ہے ابھی
کیا جانئے رہے گا کہاں تک یہ دل اسیر
کیا کیجئے وہ شکل دلآویز ہے ابھی
دیکھا نہیں ہے کوئی بھی منظر نظر کے پاس
رہوارِ عمر، طالبِ مہمیز ہے ابھی

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment