Friday 29 March 2013

یہ نہیں کہ سارے جہان میں مجھے ہمسفر ہی نہیں ملا

یہ نہیں کہ سارے جہان میں مجھے ہمسفر ہی نہیں مِلا
سبھی اعتبار کے ساتھ تھے، کوئی معتبر ہی نہیں مِلا
مِری نبض چُھو کے تو دیکھتا کہ شکستہ دل کی صدا ہے کیا
مِرا لا علاج مَرض نہ تھا، کوئی چارہ گر ہی نہیں مِلا
کبھی شہر چھان لئے گئے، کہیں خیمے تان لئے گئے
جسے دیکھتا تھا میں خواب میں، مجھے وہ نگر ہی نہیں مِلا
مجھے وہ مکِیں ہی نہیں مِلے، جنہیں میری ذات سے پیار ہو
جسے اپنا گھر میں سمجھ سکوں، مجھے ایسا گھر ہی نہیں مِلا
رہا مضطرب مِرا شوق بھی، مِرا سجدہ کرنے کا ذوق بھی
مجھے سنگِ رہ تو بہت مِلے، ترا سنگِ در ہی نہیں مِلا
سبھی اپنے اپنے گروہ کے، غمِ آرزو کا شکار تھے
کسے میں دِکھاتا یہ زخمِ دل، کوئی دیدہ ور ہی نہیں مِلا

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment