Thursday 28 March 2013

شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی

شاعری جھوٹ سہی، عشق فسانہ ہی سہی
زندہ رہنے کے لیے کوئی بہانہ ہی سہی
ایک نظر ادھر دیکھ تماشہ ہی سہی
تیرا پردہ، تیری دوری حالات کا تقاضہ ہی سہی
نظر بھر دیکھ لینے سے بھلا کیا ہو گا
ہاں تم معصوم سہی اور ہم رسوا ہی سہی
ہم تیرے در پہ صدا دیتے ہوئے آئیں گے
نہ ملا طرز فقیری تو دید کا کاسہ ہی سہی
وہ میرے درد سے اکثر انجان بنا رہتا ہے
وہ میرا محسن ہی سہی، درد شناسا ہی سہی
اتنی تو خیر اپنی بھی برداشت ہے کہ جدائی سہہ لیں
ہم بھی کچھ پندار دل رکھتے ہیں چلو تھوڑا ہی سہی
ہم تیرے عشق میں آخر کار موسیٰ تو بنے
معجزہ طور نہیں وہ تیرا جلوہ ہی سہی
تیر جو مجھ کو لگے وہ بھی عنایت ہیں تیری
تو نے ہمیں سوچا نفرت میں پنہاں ہی سہی
چلو کوئی بات تو بہانہ عبادت ٹھہری
خوف محشر نہ سہی وہ غم جاناں ہی سہی

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment