Saturday 9 March 2013

کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جان جہاں غماز کیا

کس حرف پہ تُونے گوشۂ لب اے جانِ جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
سو پیکاں تھے پیوستِ گلو، جب چھیڑی شوق کی لے ہم نے
سو تیر ترازو تھے دل میں، جب ہم نے رقص آغاز کیا
بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر، اس ہاتھ پہ سر، اُس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقتِ سفر، نظارۂ بام ناز کیا
جس خاک میں مل کر خاک ہوئے، وہ سُرمۂچشمِ خلق بنی
جس خار پہ ہم نے خُوں چھڑکا، ہمرنگ گل طناز کیا
لو وصل کی ساعت آپہنچی، پھر حکمِ حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کئے، اور سینے کا در باز کیا

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment