Friday 29 March 2013

دل نے چاہا تھا کہ ہو آبلہ پائی رخصت

دل نے چاہا تھا کہ ہو آبلہ پائی رخصت
زندگی دے کے ہوئی شعلہ فشانی رخصت
تم نے جب شمع بجھائی تو سمجھ میں آیا
ایک موہوم سا رشتہ تھا سو وہ بھی رخصت
میں اداسی سر بازار بھی لاؤں ایسے
جیسے پانی کی تمنا میں ہو کشتی رخصت
میرے اصرار پہ موجود تھا گھر پہ، لیکن
اس نے خاموش لباسی میں لکھی تھی رخصت
تیری تائید کی تصویر سے جی اٹھے تھے
نہیں معلوم تھا یہ ریت ہے پانی رخصت
میں حوالہ تِری تحریر کا کس نام سے دوں
مجھ سے تو مانگ چکا حرفِ تعلی رخصت 

کشور ناہید

No comments:

Post a Comment