Friday 29 March 2013

زیرِ گرداب نہ بالائے مکاں بولتی ہے

زیرِ گرداب، نہ بالائے مکاں بولتی ہے
خامشی آ کے سرِ خلوتِ جاں بولتی ہے
یہ مرا وہم ہے یا مجھ کو بلاتے ہیں وہ لوگ
کان بجتے ہیں کہ موجِ گزراں بولتی ہے
لو سوالِ دہنِ بستہ کا آتا ہے جواب
تیر سرگوشیاں کرتے ہیں، کماں بولتی ہے
ایک میں ہوں کہ اس آشوبِ نوا میں چپ ہوں
ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے
ہُو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیرِ گراں بولتی ہے
درد کے باب میں تمثال گر ہے خاموش
بن بھی جاتی ہے تو تصویر کہاں بولتی ہے

عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment