Sunday 31 March 2013

کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے

کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرہ نہیں ہے
یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے
جہاں پر تھے تِری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایہ نہیں ہے
زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشا
یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے
ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اُس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے
یہ کیسے خواب سے جاگی ہیں آنکھیں
کسی منظر پہ دل جمتا نہیں ہے
جو دیکھو تو ہر اِک جانب سمندر
مگر پینے کو اِک قطرہ نہیں ہے
مثال چوبِ نم خوردہ، یہ سینہ
سلگتا ہے، مگر جلتا نہیں ہے
خدا کی ہے یہی پہچان شاید
کہ کوئی اور اُس جیسا نہیں ہے

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment