Saturday 30 March 2013

یوں تو صدائے زخم بہت دور تک گئی

یوں تو صدائے زخم بہت دُور تک گئی
اِک چارہ گر کے شہر میں جا کر بھٹک گئی
خوشبو گرفتِ عکس میں لایا اور اس کے بعد
میں دیکھتا رہا تِری تصویر تھک گئی
گل کو برہنہ دیکھ کر جھونکا نسِیم کا
جگنو بجھا رہا تھا کہ تِتلی چمک گئی
میں نے پڑھا تھا چاند کو انجیل کی طرح
اور چاندنی صلِیب پر آ کر لٹک گئی
روتی رہی لِپٹ کے ہر اِک سنگِ مِیل سے
مجبور ہو کے شہر کے اندر سڑک گئی
قاتل کو آج صاحبِ اعجاز مان کر
دیوارِ عدل اپنی جگہ سے سرک گئی

غلام محمد قاصر

No comments:

Post a Comment