Sunday 31 March 2013

ہر قدم گریزاں تھا ہر نظر میں وحشت تھی

ہر قدم گریزاں تھا، ہر نظر میں وحشت تھی
مصلحت پرستوں کی رہبری قیامت تھی
منزل تمنّا تک کون ساتھ دیتا ہے
گردِ سعئ لاحاصل ہر سفر کی قسمت تھی
آپ ہی بگڑتا تھا، آپ من بھی جاتا ہے
اس گریز پہلو کی یہ عجیب عادت تھی
اُس نے حال پوچھا تو یاد ہی نہ آتا تھا
کِس کو کِس سے شکوہ تھا، کس سے کیا شکایت تھی
دشت میں ہواؤں کی بے رُخی نے مارا ہے
شہر میں زمانے کی پوچھ گچھ سے وحشت تھی
یوں تو دن دہاڑے بھی لوگ لُوٹ لیتے ہیں
لیکن اُن نگاہوں کی اور ہی سیاست تھی
ہجر کا زمانہ بھی کیا غضب زمانہ تھا
آنکھ میں سمندر تھا، دھیان میں وہ صورت تھی

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment