Thursday 31 January 2013

زندہ ہوں اس طرح کہ غم زندگی نہیں

فلمی گیت

 زندہ ہوں اِس طرح کہ غمِ زندگی نہیں
جلتا ہوا دِیا ہوں، مگر روشنی نہیں
وہ مُدتیں ہوئی ہیں کسی سے جُدا ہوئے
لیکن یہ دل کی آگ ابھی تک بجھی نہیں
آنے کو آ چکا تھا کنارا بھی سامنے
خود اس کے پاس ہی میری نیّا گئی نہیں

یہ چرچے یہ صحبت یہ عالم کہاں

یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں؟
خدا جانے، کل تم کہاں، ہم کہاں؟
جو خُورشید ہو تم، تو شبنم ہیں ہم
ہوئے جلوہ گر تم، تو پھر ہم کہاں؟
حسِیں قاف میں گوکہ پریاں بھی ہیں
مگر اِن حسینوں کا عالم کہاں؟

اے ضبط دیکھ عشق کی ان کو خبر نہ ہو

اے ضبط! دیکھ عشق کی ان کو خبر نہ ہو
دل میں ہزار درد اُٹھے، آنکھ تر نہ ہو
مدّت میں شامِ وصل ہوئی ہے مجھے نصیب
دو چار سو برس تو الہٰی! سحر نہ ہو
اِک پھول ہے گلاب کا آج اُنکے ہاتھ میں
دھڑکا مجھے یہ ہے کہ کسی کا جگر نہ ہو

Friday 25 January 2013

بے ضمیر لوگوں کے ظلم کم نہیں ہوتے

بے ضمیر لوگوں کے ظلم کم نہیں ہوتے
پگڑیاں اچھلتی ہیں،سر تو خم نہیں ہوتے
جسم پر دُکھوں کی لَو، کر گئی اثر کیسا؟
پَیرہن بدل کر بھی رنج کم نہیں ہوتے
دن کی روشنی ہو یا رات کا اندھیرا ہو
سر انا پرستوں کے کب قلم نہیں ہوتے

اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صبحوں کے حوالے کرنا ہے

اِس اپنی کِرن کو، آتی ہوئی صُبحوں کے حوالے کرنا ہے
کانٹوں سے اُلجھ کر جینا ہے، پُھولوں سے لِپٹ کر مرنا ہے
شاید وہ زمانہ لوٹ آئے، شاید وہ پلٹ کر دیکھ بھی لیں
اِن اُجڑی اُجڑی نظروں میں پھر کوئی فسانہ بھرنا ہے
یہ سوزِ درُوں، یہ اشکِ رواں، یہ کاوشِ ہستی کیا کہیے
مرتے ہیں کہ کچھ جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے، رِندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ہے خُوئے ایازی ہی سزاوارِ ملامت
محمود کو کیوں طعنۂ اِکرام دیا جائے

اسی سے جان گیا میں کہ بخت ڈھلنے لگے

اسی سے جان گیا میں کہ بخت ڈھلنے لگے
میں تھک کے چھاؤں میں بیٹھا تو پیڑ چلنے لگے
میں دے رہا تھا سہارے تو اک ہجوم میں تھا
جو گر پڑا تو سبھی راستہ بدلنے لگے
نہ مارتے ہیں مُجھے اور نہ جینے دیتے ہیں
یہ کیسے سانپ میری آستیں میں پلنے لگے

یہ بت پھر اب کے بہت سر اٹھا کے بیٹھے ہیں

یہ بت پھر اب کے بہت سر اٹھا کے بیٹھے ہیں
خدا کے بندوں کو اپنا بنا کے بیٹھے ہیں
ہمارے سامنے جب بھی وہ آ کے بیٹھے ہیں
تو مسکرا کے، نگاہیں چرا کے بیٹھے ہیں
کلیجا ہو گیا زخمی فراقِ جاناں میں
ہزاروں تِیرِ ستم دل پہ کھا کے بیٹھے ہیں

نقش کچھ اور سرِ خاک ابھارا جائے

نقش کچھ اور سرِ خاک اُبھارا جائے
آسمانوں سے ستاروں کو اُتارا جائے
آ مجھے تُو ہی بتا، وقت ٹھہر جائے تو
دشت تنہائی میں کس طرح گزارا جائے
کشتیاں ڈُوب چکیں اور وہ اس سوچ میں ہے
اب سمندر ہی کنارے پہ اُتارا جائے

Thursday 10 January 2013

کسی حال میں نہیں ہوں کوئی حال اب نہیں ہے

کسی حال میں نہیں ہوں کوئی حال اب نہیں ہے
جو گئی پلک تلک تھا، وہ خیال اب نہیں ہے
میں سکون پا سکوں گا یہ گماں بھی کیوں کیا تھا
ہے یہی ملال کیا کم، کہ ملال اب نہیں ہے
نہ رہے اب اس کے دل میں خلشِ شکستِ وعدہ
کہ یہاں کوئی حسابِ مہ و سال اب نہیں ہے

Saturday 5 January 2013

آپ اپنی آرزو سے بیگانے ہو گئے ہیں

آپ اپنی آرزو سے بے گانے ہو گئے ہیں
ہم شوقِ جستجو میں، دیوانے ہو گئے ہیں
فرقت میں جن کو، اپنا کہہ کہہ کر دن گزارے
وہ جب سے مل گئے ہیں بے گانے ہو گئے ہیں
کہتے ہیں قصۂ غم، ہر انجمن میں جا کر
ہم اہلِ دل بھی کیسے دیوانے ہو گئے ہیں

آئے تھے ان کے ساتھ نظارے چلے گئے

آئے تھے ان کے ساتھ نظارے چلے گئے
وہ شب، وہ چاندنی، وہ ستارے چلے گئے
شاید تمہارے ساتھ بھی واپس نہ آ سکیں
وہ ولولے، جو ساتھ تمہارے چلے گئے
ہر آستاں اگرچہ ترا آستاں نہ تھا
ہر آستاں پہ تجھ کو پکارے چلے گئے

Tuesday 1 January 2013

اے مسافر آرزو کا راستہ کیسا لگا

اے مسافر! آرزو کا راستہ کیسا لگا
زیرِ پائے شوق، پہلا آبلہ کیسا لگا
اڑتے بادل کے تعاقب کا نتیجہ کیا رہا
عشق میں دیوانگی کا تجربہ کیسا لگا
دو جہاں دامن میں بھر لینے کی خواہش کیا ہوئی
اپنی بانہوں کا سِمٹتا دائرہ کیسا لگا

زمیں پہ چاند اترتا ہے میں نے دیکھا ہے

زمیں پہ چاند اترتا ہے، میں نے دیکھا ہے
مِری گلی سے گزرتا ہے، میں نے دیکھا ہے
نظر کلام بھی کرتی ہے آنکھ والوں سے
پیام دل میں اُترتا ہے، میں نے دیکھا ہے
ہوائیں گیت بھی گاتی ہیں، تم سنو تو سہی
سحاب رقص بھی کرتا ہے، میں نے دیکھا ہے

بڑے غرور سے جو سر اٹھائے پھرتا ہے

بڑے غرور سے جو سر اٹھائے پھرتا ہے
بلا کا بوجھ بدن پر اٹھائے پھرتا ہے
وہ جس کے دیدہ و دل روشنی کے مُنکر ہیں
وہ مہر و ماہِ منور اٹھائے پھرتا ہے
ہجومِ تشنہ لباں مشتعل نہ ہو جائے
کہ شیخ شیشہ و ساغر اٹھائے پھرتا ہے

نغمۂ شوق مرا جنبشِ لب تک پہنچا

نغمۂ شوق مِرا، جُنبشِ لب تک پہنچا
سلسلہ تیری تمنّا کا طلب تک پہنچا
ایک خُوشبو سی مِرے سنگ سفر پر نکلی
ایک سایہ سا دبے پاؤں عقب تک پہنچا
موسمِ گُل نے مہکنے کی اجازت چاہی
موجۂ بادِ صبا، غنچۂ لب تک پہنچا

لہو جلا کے اجالے لٹا رہا ہے چراغ

لہو جلا کے اجالے لٹا رہا ہے چراغ
کہ زندگی کا سلیقہ سکھا رہا ہے چراغ
وفورِ شوق میں لیلائے شب کے چہرے سے
نقابِ زلفِ پریشاں اٹھا رہا ہے چراغ
ہمارے ساتھ پرانے شریکِ غم کی طرح
عذابِ ہجر کے صدمے اٹھا رہا ہے چراغ

نہ گھر کے لوگ سلامت نہ گھر سلامت ہیں

نہ گھر کے لوگ سلامت، نہ گھر سلامت ہیں
یہ اور بات کہ دیوار و در سلامت ہیں
نہ چادریں ہی سلامت رہیں، نہ دستاریں
جئیں تو کیسے جئیں جن کے سر سلامت ہیں
زمیں کے چاند ستاروں کو بھوک چاٹ گئی
فلک ہے شاد کہ شمس و قمر سلامت ہیں

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے
اب نئے سال کی مہلت نہیں ملنے والی
آ چکے اب تو شب و روز عذابوں والے
اب تو سب دشنہ و خنجر کی زباں بولتے ہیں
اب کہاں لوگ محبت کے نصابوں والے

وہی عشق جو تھا کبھی جنوں اسے روزگار بنا دیا

وہی عشق جو تھا کبھی جنوں اسے روزگار بنا دیا
کہیں‌زخم بیچ میں‌ آ گئے کہیں ‌شعر کوئی سنا دیا
وہی ہم کہ جن کو عزیز تھی درِ آبرو کی چمک دمک
یہی ہم کہ روزِ سیاہ میں‌ زرِ داغِ دل بھی لٹا دیا
کبھی یوں‌ بھی تھا کہ ہزار تیر جگر میں‌ تھے تو دکھی نہ تھے
مگر اب یہ ہے کسی مہرباں کے تپاک نے بھی رلا دیا

ہم اپنے آپ میں گم تھے ہمیں خبر کیا تھی

ہم اپنے آپ میں گم تھے ہمیں خبر کیا تھی
کہ ماورائے غمِ جاں بھی ایک دنیا تھی
وفا پہ سخت گراں ہے ترا وصالِ دوام
کہ تجھ سے مل کے بچھڑنا مری تمنا تھی
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد اب معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

دشت افسردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں

دشتِ افسُردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں
وہ کسی خوابِ گریزاں میں مِلا ہے سو کہاں
ہم نے مدت سے کوئی ہجو نہ واسوخت کہی
وہ سمجھتے ہیں ہمیں اُن سے گلہ ہے سو کہاں
ہم تیری بزم سے اُٹھے بھی تو خالی دامن
لوگ کہتے ہیں کہ ہر دُکھ کا صلہ ہے سو کہاں

ہوئے جاتے ہیں کیوں غمخوار قاتل

ہوئے جاتے ہیں کیوں غمخوار قاتل
نہ تھے اتنے بھی دلآزار قاتل
مسیحاؤں کو جب آواز دی ہے
پلٹ کر آ گئے ہر بار قاتل
ہمیشہ سے ہلاک اک دوسرے کے
مِرا سر اور تِری تلوار قاتل

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعۂ فال مِرے نام کا اکثر نکلا
تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا
میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول مِری شاخ ہنر پر نکلا

وہ شکل وہ لالے کی سی کیاری نہیں بھولے

وہ شکل وہ لالے کی سی کیاری نہیں بھولے
اگبور میں جو شام گزاری نہیں بھولے
صورت تھی کہ ہم جیسے صنم ساز بھی گم تھے
مورت تھی کہ ہم جیسے پجاری نہیں‌ بھولے
اب اس کا تغافل بھی گوارا کہ ابھی تک
ہم ترکِ ملاقات کی خواری نہیں بھولے

کہا تھا کس نے تجھے آبرو گنوانے جا

کہا تھا کس نے تجھے آبرو گنوانے جا
فرازؔ! اور اسے حال دل سنانے جا
کل اک فقیر نے کس سادگی سے مجھ سے کہا
تری جبیں کو بھی ترسیں گے آستانے جا
اسے بھی ہم نے گنوایا تری خوشی کے لئے
تجھے بھی دیکھ لیا ہے ارے زمانے جا

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے
یہ کن نظروں سے تُو نے آج دیکھا
کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے
ہمیشہ کے لئے مجھ سے بچھڑ جا
یہ منظر بارہا دیکھا نہ جائے

ہم سے کہیں کچھ دوست ہمارے مت لکھو

ہم سے کہیں کچھ دوست ہمارے مت لکھو
جان اگر پیاری ہے پیارے مت لکھو
حاکم کی تلوار مقدس ہوتی ہے
حاکم کی تلوار کے بارے مت لکھو
کہتے ہیں یہ دار و رسن کا موسم ہے
جو بھی جس کی گردن مارے، مت لکھو

جو محفل سے ان کی نکالے ہوئے ہیں

جو محفل سے اُن کی نکالے ہوئے ہیں
غمِ دو جہاں کے حوالے ہوئے ہیں
ذرا تیرے گیسُو جو بکھرے ہیں رُخ پر
اندھیرے ہوئے ہیں، اُجالے ہوئے ہیں
یہ کون آ رہا ہے، کہ سب اہلِ محفل
متاعِ دل و جاں سنبھالے ہوئے ہیں

ٹکڑے ٹکڑے عمروں کی مسکان پڑی تھی

ٹکڑے ٹکڑے عمروں کی مسکان پڑی تھی
جان بدن سے دور کہیں انجان پڑی تھی
کسی کی آنکھوں میں پتھرائی حیرانی تھی
کہیں کہیں کوئی آنکھ بہت سنسان پڑی تھی
ایک طرف اک پرس پڑا تھا گڑیا کا
ایک طرف اک گڈے کی بنیان پڑی تھی

کب تک دل کی خیر منائیں کب تک رہ دکھلاؤ گے

کب تک دل کی خیر منائیں، کب تک رہ دکھلاؤ گے
کب تک چین کی مہلت دو گے، کب تک یاد نہ آؤ گے
بیتا دید اُمید کا موسم، خاک اُڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل، کب برکھا برساؤ گے
عہدِ وفا یا ترکِ محبت، جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے، ہم سے کیا منواؤ گے

کیا سوچتے رہتے ہو سدا رات گئے تک

کیا سوچتے رہتے ہو سدا، رات گئے تک
کس قرض کو کرتے ہو ادا، رات گئے تک
تھک ہار کے آ بیٹھا ہے، دہلیز پہ تیری
دیدار کا محسنؔ ہے گدا، رات گئے تک
یہ کون ہے یوسفؑ سا حسِیں ڈھونڈ رہا ہے
یعقوبؑ کوئی محوِ ندا، رات گئے تک

زخم دبے تو اک نیا تیر چلا دیا کرو

زخم دبے تو اِک نیا تیر چلا دیا کرو
دوستو! اپنا لطفِ خاص یاد دلا دیا کرو
شہر کرے طلب اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو، آگ🔥 لگا دیا کرو
ایک علاجِ دائمی ہے تو برائے تشنگی
پہلے ہی گھونٹ میں اگر زہر ملا دیا کرو

وہ کہکشاں، وہ رہ رقص رنگ ہی نہ رہی

وہ کہکشاں، وہ رہِ رقصِ رنگ ہی نہ رہی
ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی
تمہارے بعد کوئی خاص فرق تو نہ ہوا
جز ایں قدر وہ پہلی سی زندگی نہ رہی
یہ ذکر کیا کہ خرد میں بہت تصنع ہے
ستم یہ ہے جنوں میں بھی سادگی نہ رہی

جاؤ قرار بے دلاں شام بخیر شب بخیر

جاؤ قرار بے دلاں! شام بخیر شب بخیر
صحن ہوا دھواں دھواں! شام بخیر شب بخیر 
شام وصال ہے قریب، صبح کمال ہے قریب
پھر نہ رہیں گے سرگراں، شام بخیر شب بخیر
وجد کرے گی زندگی جسم بہ جسم، جاں بہ جاں 
جسم بہ جسم، جاں بہ جاں، شام بخیر شب بخیر

تیرے وعدے کو بت حیلہ جو نہ قرار ہے نہ قیام ہے

تیرے وعدے کو بتِ حیلہ جو نہ قرار ہے نہ قیام ہے
کبھی شام ہے، کبھی صبح ہے، کبھی شام ہے
مرا ذکر ان سے جو آ گیا کہ جہاں میں اک ہے باوفا
تو کہا گیا کہ میں نہیں جانتا مِرا دور ہی سے سلام ہے
رہیں کوئی دم جو لڑائیاں یونہی ان نگاہوں سے درمیان
تو ہمارے دل کا بھی مہربان کوئی پل میں قصہ تمام ہے

گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا

گرمی سے میں تو آتشِ غم کی پگھل گیا
راتوں کو روتے روتے ہی جوں شمع گل گیا
ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی نازک مزاج تر
تیوری چڑھائی تُو نے کہ یاں جی نکل گیا
گرمئ عشق مانعِ نشو و نما ہوئی
میں وہ نہال تھا کہ اُگا اور جل گیا

بزرگ وقت کسی شے کو لازوال بھی کر

بزرگِ وقت، کسی شے کو لازوال بھی کر
تُو  کیسا شعبدہ گر ہے، کوئی کمال بھی کر
درخت ہوں، تو کبھی بیٹھ میرے سائے میں
میں سبزہ ہوں تو کبھی مجھ کو پائمال بھی کر
یہ تمکنت کہیں پتھر بنا نہ دے مجھ کو
تُو آدمی ہے، خوشی بھی دکھا، ملال بھی کر

بتوں کے در سے کسی کو کبھی خدا نہ ملا

بتوں کے در سے کسی کو کبھی خدا نہ ملا
ملا جسے بھی رگِ جاں سے ماورا نہ ملا
حریمِ دل سے جو آتی ہے کن فیکن کی صدا
سنی ہے جس نے اسے خود کا پھر پتہ نہ ملا
خدا کو ڈھونڈ لیا ہم نے میکدے میں مگر
صنم کدوں سے تمہیں کوئی ناخدا نہ ملا

چل اے دل سوئے شہرِ جانانہ چل

چل اے دل

چل اے دل! سوئے شہرِ جانانہ چل
بصد شب رَوی ہائے مستانہ چل
یہی ہے تمنائے خواب و خمار
سوئے ارضِ افسون و افسانہ چل
یہی ہے تقاضائے شعر و شباب
سوئے شہرِ مہتاب و مے خانہ چل

تمہاری یاد کی خوشبو، کمال کرتی ہے

تمہاری یاد کی خوشبو، کمال کرتی ہے
خلوصِ دل سے مری دیکھ بھال کرتی ہے
مجھے یہ جوڑ کے رکھتی ہے ہجر میں تجھ سے
یہ زندگی مرا کتنا خیال کرتی ہے
اکیلا گھومنے نکلوں تو راستے کی ہوا
تمہارے بارے میں مجھ سے سوال کرتی ہے