Sunday 21 April 2013

جاگے ہیں بسرے درد ہوا پھر آئی ہے

جاگے ہیں بِسرے درد، ہَوا پھر آئی ہے
جاناں کی گلی سے سرد ہَوا پھر آئی ہے
جب گرد و بلا میں گلیوں سے گُلزاروں تک
سب منظر ہو گئے زرد، ہَوا پھر آئی ہے
کیا مسجد، کیا بازار، لہو کا موسم ہے
کس قریہ سے بے درد، ہَوا پھر آئی ہے

تھک گیا جو بھی یہ طے راہگزر کرتا ہے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بحضور امامِ عالی مقام

تھک گیا، جو بھی یہ طے راہگزر کرتا ہے
کون تیری طرح نیزے پہ سفر کرتا ہے
آج بھی میرے تعاقب میں ہے اک ایسا یزید
پانی مانگوں تو بدن خون سے تر کرتا ہے
کربلا اپنے تقدس کو سنبھالے رکھنا
خون ایسا ھے کہ ذرات کو زَر کرتا ہے

سودا ہے کوئی سر میں نہ سودائی کا ڈر ہے

سودا ہے کوئی سر میں نہ سودائی کا ڈر ہے
اس بار مجھے خُود سے شناسائی کا ڈر ہے
لے آیا مِرا عشق مجھے ایسی گلی میں
آوازہ لگاتا ہوں تو رُسوائی کا ڈر ہے
دُشمن سے لڑائی کوئی آسان نہیں ہے
وہ ساتھ نہ آئے جسے پسپائی کا ڈر ہے

ہم کو تو وہ ملا ہے جو تیری عطا نہیں

ہم کو تو وہ مِلا ہے جو تیری عطا نہیں
پتّے ادھر اڑے ہیں جدھر کی ہَوا نہیں
ہم لوگ تو ہیں قید میں ایسے مکان کی
جس کا کوئی کواڑ گلی میں کھلا نہیں
پہلے تو شاخ شاخ پر تھے آشیاں بہت
اب حال یہ ہے پیڑ پہ پتّا رپا نہیں

یوں سرسری نہ غم سے گزرنے کی بات کر

یوں سرسری نہ غم سے گزرنے کی بات کر
اے پھول! اپنے رنگ بکھرنے کی بات کر
بے برگ و بار دھوپ سے جھلسا ہوا ہوں میں
سائے سمیت مجھ میں اترنے کی بات کر
سورج شکار کرنے کی عادت نہیں مجھے
مجھ سے نہ دھوپ چھاؤں کترنے کی بات کر

مرے مزاج کا غصہ گیا نہیں مجھ سے

مِرے مزاج کا غصہ گیا نہیں مجھ سے
کہ یہ الاؤ کسی دن بُجھا نہیں مجھ سے
تماشا دیکھنے والوں سے شرمسار ہوں میں
بنا رہا تھا تماشا، بنا نہیں مجھ سے
میں تیری خاک کے سب بھید بھاؤ جانتا ہوں
یہ چاک اور یہ کوزہ نیا نہیں مجھ سے

Saturday 20 April 2013

ارض و سما کو ساغر و پیمانہ کر دیا

ارض و سما کو ساغر و پیمانہ کر دیا
رندوں نے کائنات کو مے خانہ کر دیا
اے حُسن! داد دے کہ تمنائے عشق نے
تیری حیا کو عشوۂ تُرکانہ کر دیا
قُرباں ترے کہ اک نگہِ التفات نے
دل کی جھِجک کو جرأتِ رندانہ کر دیا

ردائے زخم ہر گل پیرہن پہنے ہوئے ہے

ردائے زخم ہر گل پیرہن پہنے ہوئے ہے
جسے دیکھو وہی چُپ کا کفن پہنے ہوئے ہے
وہی سچ بولنے والا ہمارا دوست دیکھو
گلے میں طوق پاؤں میں رَسَن پہنے ہوئے ہے
اندھیری اور اکیلی رات اور دل اور یادیں
یہ جنگل جگنوؤں کا پیرہن پہنے ہوئے ہے

کس شان کے پیوند ہیں کیا چاکِ قبا ہیں

کِس شان کے پیوند ہیں، کیا چاکِ قبا ہیں
صحرا کے بگوُلے تِری گلیوں میں گدا ہیں
تارے بھی ہمیں راہ سجھانے سے ہیں قاصر
ہم لوگ عجب دشت نوردانِ اَنا ہیں
فاقے ہیں، ہمیں گھر سے نکلنا نہیں آتا
آنسو ہیں، مگر ہم پسِ دیوار رِثا ہیں

Thursday 18 April 2013

غبارِ راہ بنی میں رہ غبار میں ہوں

غبارِ راہ بنی میں رہِ غبار میں ہوں
نہ جانے کون ہے میں جسکے انتظار میں ہوں
وہ مجھ سے ملنے پلٹ کر ضرور آئے گا
بہت زمانے سے امید کے حصار میں ہوں
یہ جبر و قدر کا چکر ازل سے چلتا ہے
کبھی یہ سوچا نہیں کس کے اختیار میں ہوں

یہ مت سمجھ کہ فقط انتباہ کر دوں گا

یہ مت سمجھ، کہ فقط انتباہ کر دوں گا
میں جل اٹھا تو سبھی کچھ سیاہ کر دوں گا
کسی طرح تو نبھانا ہے منصبِ یاری
جو آنکھ نَم نہ ہوئی، صرف آہ کر دوں گا
سفر کے شوق میں آگے قدم بڑھا لیے تھے
گمان ہی نہ تھا منزل کو راہ کر دوں گا

کنارے ہیں کہ تہ آب کم ہی جانتے ہیں

کنارے ہیں کہ تہِ آب کم ہی جانتے ہیں
ہوا کی چال کو گرداب کم ہی جانتے ہیں
پگھل رہا ہے بدن، روح کی حرارت سے
یہ آگ وہ ہے کہ اعصاب کم ہی جانتے ہیں
 دُکھے ہوئے ہیں، اسیرانِ وعدۂ فردا
سو تیری بزم کے آداب کم ہی جانتے ہیں

وقت سے کہیو ذرا کم کم چلے

وقت سے کہیو ذرا کم کم چلے 
کون یاد آیا ہے، آنسو تھم چلے 
دم بخود کیوں ہے خزاں کی سلطنت 
کوئی جھونکا، کوئی موجِ غم چلے 
چار سُو باجیں پَلوں کی پائلیں 
اس طرح رقاصۂ عالم چلے 

دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا

دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا
جب تک رہا میں ساتھ مرے یہ ہُنر رہا
صبحِ سفر کی رات تھی، تارے تھے اور ہوا
سایہ سا ایک دیر تلک بام پر رہا
میری صدا ہوا میں بہت دُور تک گئی
پر میں بُلا رہا تھا جِسے، بے خبر رہا

کیسی ہے رہگزار وہ دیکھیں گے جا کے اب اسے

کیسی ہے رہگزار وہ دیکھیں گے جا کے اب اسے
بِیت گئے برس بہت، دیکھا تھا ہم نے جب اسے
جاگے گا خواب ہجر سے، آئے گا لوٹ کر یہیں
دیکھیں گے خوف و شوق سے روزن و در سے سب اسے 
صحرا نہیں یہ شہر ہے، اور بھی لوگ ہیں یہاں
چاروں طرف مکان ہیں، اتنا ہے ہوش کب اسے

آئینہ بن کر کبھی ان کو بھی حیراں دیکھیے

آئینہ بن کر کبھی ان کو بھی حیراں دیکھئے
اپنے غم کو ان کی صُورت سے نمایاں دیکھئے
اس دیارِ چشم و لب میں دل کی یہ تنہائیاں
ان بھرے شہروں میں بھی شامِ غریباں دیکھئے
عمر گزری دل کے بُجھنے کا تماشا کر چکے
کس نظر سے بام و در کا یہ چراغاں دیکھئے

جس نے مرے دل کو درد دیا

جس نے مِرے دل کو درد دیا
اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
اک رات کسی برکھا رُت کی
کبھی دل سے ہمارے مٹ نہ سکی
بادل میں جو چاہ کا پھول کھلا
وہ دھوپ میں بھی کملایا نہیں
جس نے مرے دل کو درد دیا

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا

بے چین بہت پھرنا، گھبرائے ہوئے رہنا
اِک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا، شرمائے ہوئے رہنا

Sunday 14 April 2013

وقت مقتل سے مری لاش اٹھا لایا تھا

وقت مقتل سے مِری لاش اٹھا لایا تھا
لوگو! میں اپنی گواہی میں خدا لایا تھا
اب یہ موسم مِری پہچان طلب کرتے ہیں
میں جب آیا تھا یہاں تازہ ہوا لایا تھا
لے اڑی بادِ کم اثر، سرِ دشت کہیں
میں تو صحرا سے تِرے گھر کا پتا لایا تھا

اب سماعت ہی کہاں شعر سنائیں کیسے

اب سماعت ہی کہاں شعر سنائیں کیسے
تختۂ زنگ پہ ہم رنگ جمائیں کیسے
تُو گیا ہے تو تری یاد سے لگ بیٹھا ہے
دل کو ہم کارِ زمانہ میں لگائیں کیسے
دونوں اک شمع محبت تو جلا بیٹھے ہیں
سوچنا یہ ہے کہ روکیں گے ہوائیں کیسے

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب، یہ کیسے ہو، یہ کیونکر ہو
یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں، اک درد کا پھوڑا الہڑ سا
نہ گپت رہے، نہ پھوٹ بہے، کوئی مرہم ہو، کوئی نشتر ہو
ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں، تم چڑھتی رات کی چندرما
ہم جاتے ہیں، تم آتے ہو، پھر میل کی صورت کیونکر ہو

مجھے خبر تھی مرے بعد وہ بکھر جاتا

مجھے خبر تھی مِرے بعد وہ بکھر جاتا
سو اس کو کس کے بھروسے پہ چھوڑ کر جاتا
وہ خوشبوؤں میں گھرا تھا کہ مثل سایۂ ابر
میان صحن چمن میں ادھر اّدھر جاتا
وہ کوئی نشہ نہیں تھا کہ ٹوٹتا مجھ میں
وہ سانحہ بھی نہیں تھا کہ جو گزر جاتا

مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم

مِل کر جُدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم 
اِک دوسرے کی یاد میں رویا کریں گے ہم 
آنسو چھلک چھلک کے ستائیں گے رات بھر 
موتی پلک پلک میں پِرویا کریں گے ہم
جب دُوریوں کی آگ دلوں کو جلائے گی
جسموں کو چاندنی میں بِھگویا کریں گے ہم

Sunday 7 April 2013

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شُکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل ہے اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں، جاں دے آئیں
دل والو! کوچۂ جاناں میں‌، کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے

ترے غم کو جاں کی تلاش تھی، ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے، شبِ انتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرنے غمگسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں، نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے

آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بامِ مینا سے ماہتاب اُترے
دستِ ساقی میں، آفتاب آئے
ہر رگِ خُوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی

کب ٹھہرے گا درد اے دل! کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہو گی
کب جان لہو ہو گی، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی، اے دیدۂ تر ہو گی
کب مہکے گی فصلِ گُل، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہو گی، کب شامِ نظر ہو گی

نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا
مِرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دُشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چُکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، مِرے قاتلوں کو گُماں نہ ہو
کہ غرُورِ عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا

کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں

کسی گُماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں
پھر آج کُوئے بُتاں کا ارادہ رکھتے ہیں
بہار آئے گی جب آئے گی، یہ شرط نہیں
کہ تشنہ کام رہیں، گرچہ بادہ رکھتے ہیں
تری نظر کا گِلہ کیا، جو ہے گِلہ دل کا
تو ہم سے ہے، کہ تمنّا زیادہ رکھتے ہیں

شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی

شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شُکر ہے، زندگی تباہ نہ کی
تُجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے
تُجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی
تیرے دستِ سِتم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی

شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی

شامِ فراق، اب نہ پوچھ، آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
بزمِ خیال میں ترے حُسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بُجھ گیا، ہِجر کی رات ڈھل گئی
جب تُجھے یاد کر لیا، صُبح مہک مہک اٹھی
جب ترا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی

عشق منت کش قرار نہیں

عشق منّت کشِ قرار نہیں
حُسن مجبورِ انتظار نہیں
تیری رنجش کی انتہا معلوم
حسرتوں کا مری شمار نہیں
اپنی نظریں بکھیر دے ساقی
مے باندازۂ خمار نہیں

پھر آئینۂ عالم شاید کہ نکھر جائے

پھر آئینۂ عالم شاید کہ نِکھر جائے
پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے
صحرا پہ لگے پہرے اور قُفل پڑے بَن پر
اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے؟
خاکِ رہِ جاناں پر کچھ خوں تھا گِرو اپنا
اس فصل میں مُمکن ہے یہ قرض اتر جائے

غم بہ دل شکر بہ لب مست و غزل خواں چلیے

غم بہ دل، شُکر بہ لب، مست و غزل خواں چلیے
جب تلک ساتھ ترے عمرِ گُریزاں چلیے
رحمتِ حق سے جو اس سَمت کبھی راہ مِلے
سُوئے جنّت بھی براہِ رہِ جاناں چلیے
نذر مانگے جو گُلستاں سے خداوندِ جہاں
ساغرِ مے میں لیے خونِ بہاراں چلیے

کل جنہیں زندگی تھی راس بہت

کل جنہیں زندگی تھی راس بہت
آج دیکھا انہیں ‌اُداس بہت
رفتگاں کا نشاں نہیں مِلتا
اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت
کیوں نہ روؤں تری جُدائی میں
دن گزرتے ہیں تیرے پاس بہت

اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں

اب اپنی رُوح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں
بُتوں سےمجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے
تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں
میں کروٹوں کے نئے زاویے لکھوں شب بھر
یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں

چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشا چاند

چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشاؔ چاند
چاند کو اُترے دیکھا ہم نے، چاند بھی کیسا، پورا چاند
انشاؔ جی ان چاہنے والی، دیکھنے والی آنکھوں نے
ملکوں ملکوں، شہروں شہروں، کیسا کیسا دیکھا چاند
ہر اک چاند کی اپنی دھج تھی، ہر اک چاند کا اپنا رُوپ
لیکن ایسا روشن روشن، ہنستا باتیں کرتا چاند؟

سخن حق کو فضیلت نہیں ملنے والی

سخنِ حق کو فضیلت نہیں ملنے والی
صبر پر دادِ شجاعت نہیں ملنے والی
وقت معلوم کی دہشت سے لرزتا ہوا دل
ڈُوبا جاتا ہے کہ مہلت نہیں ملنے والی
زندگی نذر گزاری تو ملی چادرِ خاک
اس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں ملنے والی

جاہ و جلال دام و درم اور کتنی دیر

جاہ و جلال، دام و درم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبارِ عہدِ ستم اور کتنی دیر
حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان
یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر

جنوں کم جستجو کم تشنگی کم

جنوں کم، جستجو کم، تشنگی کم
نظر آئے نہ کیوں دریا بھی شبنم
بحمد اللہ! تُو ہے جس کا ہمدم
کہاں اس قلب میں گنجائشِ غم؟
توجہ بے نہایت اور نظر کم
خوشا یہ التفاتِ حسنِ برہم

کسی صورت نمود سوز پہچانی نہیں جاتی

کسی صورت نمودِ سوز پہچانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہيں جاتی
صداقت ہو تو دل سينے سے کھنچنے لگتے ہيں واعظ
حقيقت خود کو منوا ليتی ہے، مانی نہيں جاتی
جلے جاتے ہيں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہيں گر گر کر
حضورِ شمع، پروانوں کی نادانی نہيں جاتی

نکال اب تیر سینے سے کہ جان پر الم نکلے

نکال اب تیر سینے سے کہ جانِ پُر الم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
تمنا وصل کی اک رات میں کیا اے صنم نکلے
قیامت تک یہ نکلے گر نہائت کم سے کم نکلے
نہ اُٹھےمر کے بھی ایسے تیرے کوچے میں ہم بیٹھے
محبت میں اگر نکلے، تو ہم ثابت قدم نکلے

نالۂ صبا تنہا پھول کی ہنسی تنہا

نالۂ صبا تنہا، پھول کی ہنسی تنہا
اس چمن کی دنیا میں، ہے کلی کلی تنہا
رات دن کے ہنگامے، ایک مہیب تنہائی
صبحِ زیست بھی تنہا، شامِ زیست بھی تنہا
کون کس کا غم کھائے، کون کس کو بہلائے
تیری بے کسی تنہا، میری بے بسی تنہا

یہ نگاہِ شرم جھکی جھکی یہ جبین ناز دھواں دھواں

یہ نگاہِ شرم جھکی جھکی، یہ جبینِ ناز دھواں دھواں
مِرے بس کی اب نہیں داستاں، مِرا کانپتا ہے رواں رواں
یہ تخیلات کی زندگی، یہ تصورات کی بندگی
فقط اِک فریبِ خیال پر، مِری زندگی ہے رواں دواں
مِرے دل پہ نقش ہیں آج تک، وہ با احتیاط نوازشیں
وہ غرور و ضبط عیاں عیاں، وہ خلوصِ ربط نِہاں نِہاں

میں غزل کہوں میں غزل پڑھوں


میں غزل کہوں میں غزل پڑھوں، مجھے دے تو حسنِ خیال دے
ترا غم ہے میری تربیت، مجھے دے تو رنج و ملال دے
سبھی چار دن کی چاندنی، یہ امارتیں، یہ وزارتیں
مجھے اس فقیر کی شان دے کہ زمانہ جس کی مثال دے
مری صبح تیرے سلام سے، مری شام ہے ترے نام سے
ترے در کو چھوڑ کے جاؤں گا، یہ خیال دل سے نکال دے

ہاں کا انداز تھا نہیں جیسا

ہاں کا انداز تھا نہیں جیسا
پھر بھی احساس تھا یقیں جیسا
اِک تِرے غم کو لے کے بیٹھا ہے
کون ہو گا دلِ حزیں جیسا
ایک پل کا رفیق تھا، لیکن
وہ مُسافر ہوا مکیں جیسا

جسے حیات سے نفرت بہت زیادہ تھی

جسے حیات سے نفرت بہت زیادہ تھی
ہمیں اسی کی ضرورت بہت زیادہ تھی
اب ایک لمحۂ مفقُود کو ترستے ہیں
وہ دن بھی تھے، ہمیں فُرصت بہت زیادہ تھی
ہمارے گھر کی تباہی کا یہ سبب ٹھہرا
ہمارے گھر میں سیاست بہت زیادہ تھی

تجھ بن مری حیات میں کچھ بھی نہیں رہا

تجھ بِن مری حیات میں کچھ بھی نہیں رہا
ڈُوبا ہے چاند، رات میں کچھ بھی نہیں رہا
تیری صدا نہیں ہے تو ہم کان کیوں دَھریں
اب تو کِسی کی بات میں کچھ بھی نہیں رہا
پلکوں پہ ضوفشاں جو سِتارے تھے، گِر گئے
پھر اس کے بعد رات میں کچھ بھی نہیں رہا

حسرت ہی رہی ہے اسے ارماں ہی رہا ہے

حسرت ہی رہی ہے اسے ارماں ہی رہا ہے
یہ دل تو ہمیشہ سے پریشاں ہی رہا ہے
رہنے نہ دیا اس کو ہواؤں نے کہیں کا
خوشبو کی طرح سب سے گریزاں ہی رہا ہے
ہم نے بھی کبھی اس کے رفو کا نہیں سوچا
ویسے بھی سدا چاک گریباں ہی رہا ہے

Saturday 6 April 2013

تو کیا یہ طے ہے کہ اب عمر بھر نہیں ملنا

تو کیا یہ طے ہے، کہ اب عمر بھر نہیں ملنا
تو پھر یہ عمر بھی کیوں، تم سے گر نہیں ملنا
یہ کون چُپکے سے تنہائیوں میں کہتا ہے
تِرے بغیر سُکوں عُمر بھر نہیں ملنا
چلو زمانے کی خاطر یہ جبر بھی سہہ لیں
کہ اب مِلے تو کبھی ٹوٹ کر نہیں ملنا

یہ ہم نے دیکھا تھا خواب پیارے ندی کنارے

یہ ہم نے دیکھا تھا خواب پیارے، ندی کنارے 
زمیں پہ اترے تھے دو ستارے، ندی کنارے 
نجانے گزرے ہیں کتنے ساون، اس آرزو میں
کبھی تو کوئی، ہمیں پکارے، ندی کنارے 
وہی شجر ہیں ، وہی ہیں سائے، مگر پرائے 
ہیں اپنی بستی کے رنگ سارے، ندی کنارے 

ہر اک قدم پہ یہ خدشہ مری نگاہ میں ہے

ہر اک قدم پہ یہ خدشہ مری نگاہ میں ہے
کہ دشتِ شامِ غریباں سحر کی راہ میں ہے 
ابھی کچھ بھڑک اے چراغِ تنہائی 
ترا وجود غنیمت شبِ سیاہ میں ہے 
اتر رہا ہے ترا درد دل میں یا سرِ شام 
ورودِ موسمِ گُل دشتِ بے گیاہ میں ہے 

چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کی بندی خانے میں

چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کی بندی خانے میں
لیکن میں آزاد ہوں ساقی چھوٹے سے پیمانے میں
عمر ہے فانی، عمر ہے باقی، اسکی کچھ پروا ہی نہیں
تو یہ کہہ دے، وقت لگے گا کتنا آنے جانے میں
تجھ سے دُوری دُوری کب تھی، پاس اور دُور تو دھوکا ہیں
فرق نہیں انمول رتن کو کھو کر پھر سے پانے میں

پھر وہی رنج ندامت ہے پریشانی ہے

پھر وہی رنجِ نِدامت ہے، پریشانی ہے 
پھر وہی شعبدہ بازوں کی فراوانی ہے 
پھر وہی بدلے ہوئے چہرے مرے سامنے ہیں
پھر سرِ آئینہ پھیلی ہوئی حیرانی ہے
جو بھی حاکم ہوا میرا ہوا غیروں کاغلام 
یہی جمہور ہے اپنا، یہی سلطانی ہے 

Friday 5 April 2013

یہ اضافہ بھی ہوا ماں باپ کے آزار میں

یہ اضافہ بھی ہوا ماں باپ کے آزار میں
مشتہر کرتے ہیں جنسِ دُختراں اخبار میں
آبلہ پائی نے کر دی ہے مسافت یوں تمام
پیر چِپکے رہ گئے ہیں جادۂ پُرخار میں
تن بدن سے کھال تک جیسے اُدھڑ جانے لگے
جیب ہی ہلکی نہیں ہوتی ہے اب بازار میں

ریا کی زد پہ ہے کب سے اسے سنبھلنے دو

ریا کی زد پہ ہے کب سے اسے سنبھلنے دو
رگوں سے شہر کی، فاسد لہو نکلنے دو
جو اُنکے جسم پہ سج بھی سکے مہک بھی سکے
رُتوں کو ایسا لبادہ کوئی بدلنے دو
کسی بھی بام پہ اب لَو کسی دِئیے کی نہیں
چراغِ چشم بچا ہے، اسے تو جلنے دو

کبھی اس سبک رو ندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو

پاداش
کبھی اس سبک رو ندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو
تمہیں کیا خبر ہے
وہاں ان گنت کھردرے پتھروں کو
سجل پانیوں نے
ملائم، رسیلے، مدھر گیت گا کر
امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے

کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا

کیا رُوپ دوستی کا، کیا رنگ دُشمنی کا
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا
اک تنکہ آشیانہ، اک راگنی اثاثہ
اک موسمِ بہاراں مہمان دو گھڑی کا
آخر کوئی کنارہ اس سیلِ بے کراں کا
آخر کوئی مداوا اس دردِ زندگی کا

Thursday 4 April 2013

رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے

رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے
اور اک چیز بڑی بیش بہا مانگی ہے
اور وہ چیز نہ دولت، نہ مکاں ہے، نہ محل
تاج مانگا ہے، نہ دستار و قبا مانگی ہے
نہ تو قدموں کے تلے فرشِ گہر مانگا ہے
اور نہ سر پر کلہِ بالِ ہما مانگی ہے

عکس جاناں ہم شہید جلوہ جانانہ ہم

عکسِ جاناں ہم، شہیدِ جلوہٴ جانانہ ہم
آشنا سے آشنا، بے گانہ سے بے گانہ ہم
تجھ کو کیا معلوم گزری کس طرح فرقت کی رات
کہہ پِھرے اِک اِک ستارے سے تِرا افسانہ ہم
بند ہیں شیشوں میں لاکھوں بجلیاں پگھلی ہوئیں
کب ہیں محتاجِ شرابِ مجلسِ مے خانہ ہم

کم سخن ہیں پس اظہار ملے ہیں تجھ سے

کم سخن ہیں پسِ اظہار ملے ہیں تجھ سے
ملنا یہ ہے تو کئی بار ملے ہیں تجھ سے
جانتے ہیں کہ نہیں سہل محبت کرنا
یہ تو اک ضد میں مرے یار ملے ہیں تجھ سے
تیز رفتارئ دنیا کہاں مہلت دے گی
ہم سرِ گرمئ بازار ملے ہیں تجھ سے

تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے

تمہاری انجمن سے اُٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے

یہ فلک یہ ماہ و انجم یہ زمین یہ زمانہ

یہ فلک یہ ماہ و انجم، یہ زمین یہ زمانہ
تِرے حُسن کی حکایت، مِرے عشق کا فسانہ
یہ ہے عشق کی کرامت، یہ کمالِ شاعرانہ
ابھی مُنہ سے بات نکلی، ابھی ہو گئی فسانہ
یہ علیل سی فضائیں، یہ مریض سا زمانہ
تِری پاک تر جوانی، تِرا حُسنِ معجزانہ