Thursday 31 October 2013

ريت سے بھی ديوار اٹھانی پڑ جاتی ہے

ريت سے بھی ديوار اٹھانی پڑ جاتی ہے
دشمن سے بھی آس لگانی پڑ جاتی ہے
سچ پوچھو تو منہ مٹی سے بھر جاتا ہے
گری ہوئی جب بات اٹھانی پڑ جاتی ہے
بات زباں کے بس سے باہر ہو جائے تو
آنکھوں سے آواز لگانی پڑ جاتی ہے

سنگ زن ساری خدائی ہے خدا جانتا ہے

سنگ زن ساری خدائی ہے، خدا جانتا ہے
ہم نے کس طرح نبھائی ہے، خدا جانتا ہے
یہ جو مصرع میں چمکتا ہے نمک آنسوؤں کا
زندگی بھر کی کمائی ہے، خدا جانتا ہے
شورِ کم ظرف سے سہمے ہوئے سنّاٹے میں
کس طرح بات بنائی ہے، خدا جانتا ہے

وہ حور نہ تھی بصرہ و بغداد سے آئی

وہ حور نہ تھی بصرہ و بغداد سے آئی
اِک ہجر زدہ یاد تھی، جو یاد سے آئی
یہ شور نہیں نوحہ و ماتم کی صدا ہے
لگتا ہے ہوا قریۂ برباد سے آئی
بھیگی ہوئی آنکھیں ہیں درود اس کے لبوں پر
لگتا ہے ابھی اٹھ کے وہ میلاد سے آئی

اذل کی شاخوں سے رنگ لاکھوں جھڑے ہوئے تھے

اذل کی شاخوں سے رنگ لاکھوں جھڑے ہوئے تھے
ہماری آنکھوں میں دشت و صحرا گڑے ہوئے تھے
نجانے کس کا ظہور پانی سے ہو رہا تھا
عجیب ساعت تھی سب زمانے کھڑے ہوئے تھے
ہماری باتوں میں زہر کتنا گھلا ہوا تھا
ہماری سوچوں کو سانپ کتنے لڑے ہوئے تھے

ترمیم خال و خد کا وسیلہ نہیں رہا

ترمیمِ خال و خد کا وسیلہ نہیں رہا
کوزہ اتر کے چاک سے گیلا نہیں رہا
سائے کو رونے والے مسافر کو کیا خبر
پھل بھی اب اس شجر کا رسیلا نہیں رہا
اب تو ہمارے نام سے پہچانیے ہمیں
اب تو ہمارا کوئی قبیلہ نہیں رہا

پھر مرے بام و در سجانے سے

پھر مِرے بام و در سجانے سے
کون روکے گا غم کو آنے سے
سانس رک جائے تو سکوں آئے
درد تھم جائے اِس بہانے سے
رنگ، خوشبو، سحاب، سب آئے
تم نہ آئے مِرے بلانے سے

اسی قبا میں بسر اک زمانہ کر دیا ہے

اسی قبا میں بسر اک زمانہ کر دیا ہے
بدن کو ہم نے پہن کر پرانا کر دیا ہے
یہ دشتِ دل ہے، یہاں کوئی بھی نہیں آتا
سو ہم نے دفن یہیں سب خزانہ کر دیا ہے
افق کے پار یہ سورج سے جا ملے شاید
چراغ آبِ رواں پر روانہ کر دیا ہے

Wednesday 30 October 2013

جہان مرگ صدا میں اک اور سلسلہ ختم ہو گیا ہے

جہان مرگ صدا میں اک اور سلسلہ ختم ہو گیا ہے
کلام، یعنی خدا کا ہم سے مکالمہ ختم ہو گیا ہے
ہمیں تو بس یہ پتا چلا تھا کہ اونٹوں والے چلے گئے ہیں
کسی کو اس کی خبر نہیں جو معاملہ ختم ہو گیا ہے
نہ تتلیوں جیسی دوپہر ہے نہ اب وہ سورج گلاب جیسا
جسے محبت کہا گیا، وہ مغالطہ ختم ہو گیا ہے

یہ بادلوں میں ستارے ابھرتے جاتے ہیں

یہ بادلوں میں ستارے ابھرتے جاتے ہیں
کہ آسماں کو پرندے کترتے جاتے ہیں
تمہارے شہر میں تہمت ہے زندہ رہنا بھی
جنہیں عزیز تھیں جانیں وہ مرتے جاتے ہیں
نہ جانے کب تمہیں فرصت ملے گی آنے کو
تمہارے آنے کے دن گزرتے جاتے ہیں

دکھوں کا دشت آنکھوں کا سمندر چھوڑ آیا ہوں

دکھوں کا دشت آنکھوں کا سمندر چھوڑ آیا ہوں
جو گھر میں لا نہ سکا تھا وہ باہر چھوڑ آیا ہوں
تم اگلی بارشوں کے بعد جا کر دیکھنا پیارے
تمہارا نام دیواروں پہ لکھ کر چھوڑ آیا ہوں
محبت کی ہے اس گھر میں، رہائش تو نہیں کی ہے
ابھی تو صرف دروازے پہ بستر چھوڑ آیا ہوں

Saturday 26 October 2013

موجد کا حسن اپنی ہی ایجاد کھا گئی

مؤجد کا حُسن اپنی ہی ایجاد کھا گئی
ماں کا شباب، کثرتِ اولاد کھا گئی
دیہات کے وجود کو قصبہ نِگل گیا
قصبے کا جسم شہر کی بُنیاد کھا گئی
اک عمر جس کے واسطے دفتر کئے سیاہ
اس مرکزی خیال کو روداد کھا گئی

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشِیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے
ایمان و کفر اور نہ دنیا و دِیں رہے
اے عشق! شادباش کہ تنہا ہمِیں رہے
یارب! کسی کے رازِ محبت کی خیر ہو
دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے

دیدۂ یار بھی پرنم ہے خدا خیر کرے

دیدۂ یار بھی پرنم ہے، خُدا خیر کرے
آج کچھ اور ہی عالم ہے، خدا خیر کرے
اس طرف غیرتِ خورشیدِ جمال اور اِدھر​
زعم خوددارئ شبنم ہے، خدا خیر کرے
دل ہے پہلو میں کہ مچلا ہی چلا جاتا ہے​
اور خود سے بھی وہ برہم ہے، خدا خیر کرے

طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے

طبیعت ان دنوں بے گانۂ غم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
قیامت کیا یہ، اے حُسنِ دو عالم! ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دلکشی کم ہوتی جاتی ہے
وہی میخانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نوشا نوش مدھم ہوتی جاتی ہے

شکست کس کی

 شکست کس کی؟


عجیب منظر ہے

دشتِ کرب و بلا میں

خیموں کی ایک بستی نے

کاخِ شاہی گِرا دیا ہے

زمانہ دیکھےکہ بے ردائی نے

سچ کے نیزے سے

Sunday 13 October 2013

لہو کی موج سفینوں کے سنگ لے آئے

 لہُو کی موج سفینوں کے سنگ لے آئے

بنامِ امن، وہ ساحل پہ جنگ لے آئے

جنہیں کتاب، دلائل، فنون بھیجے تھے

ہمارے واسطے تیر و تفنگ لے آئے

جب آنے والا ہی دشنہ بدست آیا ہو

تو کوئی کیسے مقابل میں چنگ لے آئے

موجۂ سیلاب غم عزم جوانی لے گیا

موجۂ سیلابِ غم عزمِ جوانی لے گیا
آنکھ میں جو خواب تھے نمکین پانی لے گیا
خود فراموشی کا ریلا پہلے بھی آیا مگر
اب کے جو آیا تو سب یادیں پرانی لے گیا
تیرے میرے درمیاں جو مدّتوں حائل رہی
ایک ہی آنسو بہا کر بدگمانی لے گیا

شام سے ہجر کے آزار میں کھو جاتے ہیں

شام سے ہجر کے آزار میں کھو جاتے ہیں
دل کو پاتے ہیں تو دِلدار میں کھو جاتے ہیں
نام ہی گرمئ بازار کا بدنام ہوا
خواب تو چشمِ خریدار میں کھو جاتے ہیں
ہم سے اس خوگرِ اقرار کی حالت مت پوچھ
ہم تو خود لذّت انکار میں کھو جاتے ہیں

جبیں پہ رکھے بصد شان لے کے چلتے ہیں

جبیں پہ رکھے بصد شان لے کے چلتے ہیں
عجیب لوگ ہیں بہتان لے کے چلتے ہیں
متاعِ عشق جہان والے کب کے چھوڑ گئے
ہم اہلِ درد یہ سامان لے کے چلتے ہیں
ہمیں تُم عدل کا مفہوم کیا بتاؤ گے
ہم اپنے دوش پہ میزان لے کے چلتے ہیں

ساکن عہد رواں جانا گیا

ساکنِ عہدِ رواں جانا گیا
میں کہاں تھا اور کہاں جانا گیا
جان بیٹھے ہیں جہاں کو ہم مگر
تُو نہیں جانِ جہاں جانا گیا
میں زمیں کا وہ نہالِ کم نصیب
جس کو نخلِ آسماں جانا گیا

Friday 11 October 2013

کونین میں یوں جلوہ نما کوئی نہیں ہے

نعتِ رسولِ مقبولﷺ 

 کونین میں یوں جلوہ نما کوئی نہیں ہے
 اللہ کے بعد اُنؐ سے بڑا کوئی نہیں ہے
 مانگو تو ذرا اُنؐ کے توسط سے کبھی کچھ
 مقبول نہ ہو ایسی دُعا کوئی نہیں ہے
 کام آئی سرِ حشر، محمدؐ کی شفاعت
 سب کہتے ہیں جا تیری خطا کوئی نہیں ہے

گنو نہ زخم نہ دل سے اذیتیں پوچھو

گِنو نہ زخم، نہ دل سے اذیتیں پوچھو
 جو ہو سکے تو حریفوں کی نیتیں پوچھو
 ہوا کی سَمت نہ دیکھو، اُسے تو آنا ہے
 چراغِ آخرِ شب سے وصیتیں پوچھو
 اُجڑ چکے ہو تو اب خُود پہ سوچنا کیسا
 کہا تھا کس نے کہ اسکی مشیتیں پوچھو

چلو وہ کہنہ روایت خرید لاتے ہیں

چلو، وہ کُہنہ روایت خرید لاتے ہیں
 بنامِ عشق، اذیّت خرید لاتے ہیں
 یہ جنس بِکتی ہے بازارِ آدمیّت میں
 امیر لوگ محبت خرید لاتے ہیں
 فقیہِ شہر عقیدے فروخت کرتا ہے
 غریب لوگ، ہدایت خرید لاتے ہیں