Friday 29 November 2013

کسی صبح سویر سا چہرہ تھا کوئی سورج سی پیشانی تھی

کسی صبح سویر سا چہرہ تھا کوئی سورج سی پیشانی تھی
دو روشن روشن آنکھیں تھیں صدیوں جیسی حیرانی تھی
آثار بتاتے ہیں مجھ کو تجھ نام کی آہٹ ہونے تک
اک صحن تھا دل کے قصبے میں جس میں بیحد ویرانی تھی
میں اپنے باپ کا شہزادہ اس شہر کی دھول میں دھول ہوا
جس شہر میں جوبن بیت گیا ہر شکل مگر انجانی تھی

لبوں سے لفظ جھڑیں آنکھ سے نمی نکلے

لبوں سے لفظ جھڑیں آنکھ سے نمی نکلے
کسی طرح تو میرے دل سے بے دلی نکلے
میں چاہتا ہوں پرندے رہا کیے جائیں
میں چاہتا ہوں تیرے ہونٹ سے ہنسی نکلے
میں چاہتا ہوں کوئی مجھ سے بات کرتا رہے
میں چاہتا ہوں کہ اندر کی خامشی نکلے

خود پہ جب دشت کی وحشت کو مسلط کروں گا

خود پہ جب دشت کی وحشت کو مسلط کروں گا
اس قدر خاک اڑاؤں گا، قیامت کروں گا
ہجر کی رات مِری جان کو آئی ہوئی ہے
بچ گیا تو میں محبت کی مذمت کروں گا
تیری یادوں نے اگر ہاتھ بٹایا میرا
اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی مرمت کروں گا

پانی پر بھی زاد سفر میں پیاس تو لیتے ہیں

پانی پر بھی زادِ سفر میں پیاس تو لیتے ہیں
 چاہنے والے ایک دفعہ بَن باس تو لیتے ہیں
 ایک ہی شہر میں رہ کر جن کو اذنِ دِید نہ ہو
 یہی بہت ہے، ایک ہوا میں سانس تو لیتے ہیں
رَستہ کتنا دیکھا ہوا ہو، پھر بھی شاہسوار
 ایڑ لگا کر اپنے ہاتھ میں راس تو لیتے ہیں

پھر چاک زندگی کو رفوگر ملا کہاں

 پھر چاکِ زندگی کو رفوگر ملا کہاں
 جو زخم ایک بار کھلا پھر سِلا کہاں
 کل رات ایک گھر میں بڑی روشنی رہی
 تارا مِرے نصیب کا تھا اور کھلا کہاں
اتری ہے میری آنکھ میں خوابوں کی موتیا
 ٹوٹے گا روشنی کا بھلا سلسلہ کہاں

چراغ مانگتے رہنے کا کچھ سبب بھی نہیں

چراغ مانگتے رہنے کا کچھ سبب بھی نہیں
 اندھیرا کیسے بتائیں کہ اب تو شب بھی نہیں
 میں اپنے زعم میں اِک بازیافت پر خوش ہوں
 یہ واقعہ ہے کہ مجھ کو ملا وہ اب بھی نہیں
جو میرے شعر میں مجھ سے زیادہ بولتا ہے
 میں اُس کی بزم میں اِک حرفِ زیرِلب بھی نہیں

کسے خبر ہے کہ کیا رنج و غم اٹھاتے ہیں

کسے خبر ہے کہ کیا رنج و غم اٹھاتے ہیں
 تراش کر جو زباں کو قلم اٹھاتے ہیں
 قراردادِ محبت تو کب کی فسخ ہوئی
 فریق آج یہ کیسی قسم اٹھاتے ہیں
 زمیں کی پُشت تحمّل سے دہری ہو جائے
 اگر وہ بوجھ اٹھائے جو ہم اٹھاتے ہیں

شام آئی تری یادوں کے ستارے نکلے

شام آئی، تِری یادوں کے ستارے نکلے
 رنگ ہی غم کے نہیں، نقش بھی پیارے نکلے
 ایک موہوم تمنا کے سہارے نکلے
 چاند کے ساتھ تِرے ہجر کے مارے نکلے
 کوئی موسم ہو مگر شانِ خم و پیچ وہی
 رات کی طرح کوئی زلف سنوارے نکلے

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
 لفظ میرے، مِرے ہونے کی گواہی دیں گے
 لوگ تھرّا گئے جس وقت منادی آئی
 آج پیغام نیا ظلِّ الہیٰ♚ دیں گے
جھونکے کچھ ایسے تھپکتے ہیں گلوں کے رخسار
 جیسے اس بار تو پت جھڑ سے بچا ہی دیں گے

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
 مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
 ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا
 کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
 وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پِھرتا ہے
 ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گزر جائے گا

پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو

پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو
 بُھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو
 رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
 اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو
 اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہو گئی
 کیوں کر مٹاؤں دل سے ترے غم کی چھاپ کو

جب ہوا عرفاں تو غم آرام جاں بنتا گیا

جب ہُوا عرفاں تو غم آرامِ جاں بنتا گیا
 سوزِ جاناں دل میں سوز دیگراں بنتا گیا
 رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسمِ چمن
 دھیرے دھیرے نغمۂ دل بھی فغاں بنتا گیا
 میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
 لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

اب حرف تمنا کو سماعت نہ ملے گی

اب حرفِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی
 بیچو گے اگر خواب تو قیمت نہ ملے گی
 تشہیر کے بازار میں اے تازہ خریدار
 زیبائشیں مل جائیں گی، قامت نہ ملے گی
 لمحوں کے تعاقب میں گزر جائیں گی صدیاں
 یوں وقت تو مل جائے گا مہلت نہ ملے گی

چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

چراغِ طور جلاؤ، بڑا اندھیرا ہے 
 ذرا نقاب اٹھاؤ، بڑا اندھیرا ہے 
 ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے 
 ابھی فریب نہ کھاؤ، بڑا اندھیرا ہے 
 وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں 
 انہیں کہیں سے بلاؤ، بڑا اندھیرا ہے 

ان آنسوؤں کو تو پینا پڑے گا ویسے بھی

ان آنسوؤں کو تو پِینا پڑے گا ویسے بھی 
تو دیکھ لیں اُسے دل تو دُکھے گا ویسے بھی 
ہتھیلیوں پہ ہواؤں کو روکنے والے 
چراغِ آخرِ شب ہے بُجھے گا ویسے بھی 
سمٹ کے بیٹھو اور آنکھوں پہ ہاتھ بھی رکھ لو
لگی ہے آگ دُھواں تو اُٹھے گا ویسے بھی 

تو کیا اس خواب ہی میں سو گئے ہم

تو کیا اُس خواب ہی میں سو گئے ہم 
اُسی کے تھے، اُسی کے ہو گئے ہم 
شجر اِک ریت کا صحرائے جاں میں 
یہ کیسا بیج تھا، کیا بو گئے ہم 
وہ مِل جائے تو جائیں خود کو ڈھونڈیں 
اُسے ڈھونڈا ہے اتنا کھو گئے ہم 

Saturday 23 November 2013

حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے

حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
ہم تو دل تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے
نامرادی اپنی قسمت، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو، ہم کارواں تک آ گئے
ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے

وہ کب آئیں خدا جانے ستارو تم تو سو جاؤ

وہ کب آئیں خدا جانے، ستارو تم تو سو جاؤ
ہوئے ہیں ہم تو دیوانے، ستارو تم تو سو جاؤ
کہاں تک مجھ سے ہمدردی کہاں تک میری غمخواری
ہزاروں غم ہیں انجانے، ستارو تم تو سو جاؤ
گزر جائے گی غم کی رات امیدو تو جاگ اٹھو
سنبھل جائیں گے دیوانے، ستارو تم تو سو جاؤ

تمہیں بھی آغاز روشنی کے حسیں نظارے تو یاد ہوں گے

تمہیں بھی آغاز روشنی کے حسِیں نظارے تو یاد ہوں گے
جو اپنی اُلفت کے رازدان تھے وہ چاند تارے تو یاد ہوں گے
ترا غرُورِ جمال مجھ کو جو بُھولتا ہے، تو بُھول جائے
مگر جوانی کی لغزشوں کو مرے سہارے تو یاد ہوں گے
کبھی ستاروں کی روشنی میں تمہیں بھی وحشت ہوئی تو ہو گی
ستم کے ماروں کا غم نہیں تو کرم کے مارے تو یاد ہوں گے

غم دنیا و جور آسمان کچھ اور ہوتا ہے

غمِ دنیا و جورِ آسمان کچھ اور ہوتا ہے 
دلِ ناکام پر لیکن گمان کچھ اور ہوتا ہے 
سرِ منزل کہرامِ کارواں کچھ اور ہوتا ہے 
ابھی تاروں کی گردش سے عیاں کچھ اور ہوتا ہے 
بہار آتی ہے تو اکثر نشیمن جل ہی جاتے ہیں 
مگر گُلشن کے جلنے کا سماں کچھ اور ہوتا ہے 

کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں

کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی! آج تِرا قرض چکا دیتے ہیں
حادثے زیست کی توقیر بڑھا دیتے ہیں
اے غمِ یار! تجھے ہم تو دعا دیتے ہیں
کوئے محبوب سی چپ چاپ گزرنے والے
عرصۂ زیست میں اک حشر اٹھا دیتے ہیں

عشق میں تازگی ہی رہتی ہے

عشق میں تازگی ہی رہتی ہے
آنسوؤں کی کمی ہی رہتی ہے
میری راتیں اُجڑ گئیں اے دوست
اب یہاں روشنی ہی رہتی ہے
جانے کیا ہو پلک جھپکنے میں
زندگی جاگتی ہی رہتی ہے

دن چھپا اور غم کے سائے ڈھلے

دن چھپا اور غم کے سائے ڈھلے 
آرزو کے نئے چراغ جلے 
ہم بدلتے ہیں رُخ ہواؤں کا 
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے 
لب پہ ہچکی بھی ہے، تبسم بھی 
جانے ہم کس سے مِل رہے ہیں گَلے 

آپ اپنے رقیب ہوتے ہیں

آپ اپنے رقیب ہوتے ہیں
اہلِ دل بھی عجیب ہوتے ہیں
ہجر کی پُرخلوص راتوں میں
آپ کتنے قریب ہوتے ہیں
راحتوں سے گریز، غم سے فرار
بعض لمحے عجیب ہوتے ہیں

وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد

وہ ہر مقام سے پہلے، وہ ہر مقام کے بعد
سحر تھی شام سے پہلے، سحر ہے شام کے بعد
ہر انقلاب مبارک، ہر انقلاب عذاب
شکستِ جام سے پہلے، شکستِ جام کے بعد
مجھی پہ اتنی توجہ، مجھی سے اتنا گریز
میرے سلام سے پہلے، میرے سلام کے بعد

اگر کبھی آپ بھول کر بھی خیال ترک جفا کریں گے

اگر کبھی آپ بھول کر بھی خیالِ ترکِ جفا کریں گے 
وہ لمحے آ آ کے یاد مجھ کو وفا کے طعنے دیا کریں گے 
ہزار وہ بے رُخی دکھائیں، لگاؤ دل کا نہ چُھپ سکے گا
زُبان تو خاموش کر بھی لیں گے مگر نگاہوں کا کیا کریں گے
چراغِ داغِ جگر فَروزاں، تجّلئ اشکِ خوں فزوں تر 
خزاں کی جب اس قدر خوشی ہو، بہار آئی تو کیا کریں گے

ہم شب غم تری تصویر کو دیکھا کرتے

ہم شبِ غم تِری تصویر کو دیکھا کرتے
خواب نادیدہ کی تعبیر کو دیکھا کرتے
ہم شکستِ درِ زِنداں کا اثر کیا لیتے
اپنے ہی حلقۂ زنجیر کو دیکھا کرتے
کھیچ بھی لیتا اگر ذوقِ تماشا ان کو
مجھ کو کیا دیکھتے زنجیر کو دیکھا کرتے

دیکھ رہین احتیاط یوں نہ ابھی سنبھل کے چل

دیکھ رہینِ احتیاط یوں نہ ابھی سنبھل کے چل
صورتِ موجِ تُند خُو، سمت بدل بدل کے چل
قریۂ جاں کے اس طرف روشنیوں کی بِھیڑ ہے
آج حدودِ ذات سے چار قدم نکل کے چل
دشتِ انا میں ہے تجھے، تیرگیوں کا سامنا
ذہن سے برف چِھیل دے، دھوپ بدن پہ مَل کے چل

زندگی لوگ جسے مرہم غم جانتے ہیں

زندگی، لوگ جسے مرہمِ غم جانتے ہیں
جس طرح ہم نے گذاری ہے وہ ہم جانتے ہیں
درد کچھ اور عطا کر کہ ترے درد نواز
یہ سخاوت ترے معیار سے کم جانتے ہیں
سر برہنہ چلے آئے ہیں کہ پتھر برسیں
ہم ترے شہر کا آئینِ کرم جانتے ہیں

ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا

تِرے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا
تجھے کس نے روک رکھا، تِرے جی میں کیا یہ آئی
کہ گیا تو بھول ظالم، اِدھر التفات کرنا
ہوئی تنگ اس کی بازی مِری چال سے، تو رُخ پھیر
وہ یہ ہمدموں سے بولا، کوئی اس سے مات کرنا

مجھ سے منہ پھیر لیا غیر کے دکھلانے کو

مجھ سے منہ پھیر لیا غیر کے دِکھلانے کو
اُس نے یہ چھیڑ نکالی مجھے ترسانے کو
کیا جلے خاک کہ آنے نہیں دیتا کوئی
شعلۂ شمع کے نزدیک بھی پروانے کو
پھاڑ کر اپنا گریباں ابھی مجنوں کی طرح
جی میں آتا ہے نکل جائیے ویرانے کو

ذرا ہم سے بھی ملتے جائیے گا

ذرا ہم سے بھی ملتے جائیے گا
کبھو تو اس طرف بھی آئیے گا
ہمارا دل ہے قابو میں تمہارے
بھلا جی کیوں نہ اب ترسائیے گا
جو ہم رونے پہ آویں گے تو اے ابر
بجائے آب، خوں برسائیے گا

خورشید کو سایہ میں زلفوں کے چھپا رکھا

خورشید کو سایہ میں زلفوں کے چھپا رکھا
چتون کی دکھا خوبی سرمہ کو لگا رکھا
سویا تھا لپٹ کر میں اس ساتھ ولے اس نے
پہلو سے میرے پہلو تا صبح جدا رکھا
معمار نے قدرت کے طاقِ خمِ ابرو کو
موقعے سے بنایا تو ٹک لے کے جھکا رکھا

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا

آدمؑ کا جسم جب کہ عناصر سے مِل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا
سرگرمِ نالہ اِن دنوں میں بھی ہوں عندلیب
مت آشیاں چمن میں مرے متّصل بنا
جب تیشہ کوہکن نے لیا ہاتھ تب یہ عشق
بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سِل بنا

تو ملا تھا اور میرے حال پر رویا بھی تھا

تُو ملا تھا اور میرے حال پر رویا بھی تھا
میرے سینے میں کبھی اک اضطراب ایسا بھی تھا
زندگی تنہا نہ تھی اے عشق! تیری راہ میں
دھوپ تھی، صحرا تھا اور اِک مہرباں سایہ بھی تھا
عِشق کے صحرا نشینوں سے ملاقاتیں بھی تھیں
حُسن کے شہرِ نگاراں میں بہت چرچا بھی تھا

آ میرے دوست محبت میں ہر اک بات بھلا

آ میرے دوست محبت میں ہر اِک بات بھلا
رنگ بھلا، نسل بھلا، قوم بھلا، ذات بھلا
میں تو کوشش میں ہوں کہ بھولوں تِرے جوروستم
تجھ سے ہو پائے تو تُو میری عِنایات بھلا
اے جنوں رہنے دے کچھ روز مجھے ہَستی میں
میں تجھے بھول چکا، تُو بھی میری ذات بھلا

شہرت تو نہ تھی اتنی ترے ناز و ادا کی

شہرت تو نہ تھی اِتنی تِرے ناز و ادا کی
جِتنی ہوئی تشہیر میرے جرمِ وفا کی
گم تھے میرے نامے میں فرشتے سرِ محشر
رحمٰن نے چپکے سے بہشت مجھ کو عطا کی
ہو میل ہمارا بھلا کیوں حَشر سے پہلے
تُو خلد کی حور اور میں اِک آدمِ خاکی

سو رنگ ہیں کس رنگ سے تصویر بناؤں

سو رنگ ہیں کس رنگ سے تصویر بناؤں
میرے تو کئی رُوپ ہیں، کس رُوپ میں آؤں
کیوں آ کے ہر اک شخص میرے زخم کُریدے
کیوں میں بھی ہر اک شخص کو حال اپنا سناؤں
کیوں لوگ مُصر ہیں کہ سنیں میری کہانی
یہ حق مجھے حاصل ہے، سناؤں کہ چھپاؤں

ترے عشق میں زندگانی لٹا دی

تِرے عشق میں زندگانی لُٹا دی
عجب کھیل کھیلا، جوانی لٹا دی
نہیں دل میں داغِ تمنّا بھی باقی
انہیں پر سے انکی نشانی لٹا دی
کچھ اسطرح ظالم نے دیکھا کہ ہم نے
نہ سوچا، نہ سمجھا، جوانی لٹا دی

کہیں آہ بن کے لب پر تیرا نام نہ آ جائے

کہیں آہ بن کے لب پر تیرا نام نہ آ جائے
تجھے بے وفا کہوں میں وہ مقام آ نہ جائے
ذرا زُلف کو سنبھالو میرا دل دھڑک رہا ہے
کوئی اور طائرِ دل تہِ دام آ نہ جائے
جسے سُن کے ٹُوٹ جائے میرا آرزو بھرا دل
تیری انجمن سے مجھ کو وہ پیام آ نہ جائے

سفر قیام مرا خواب جستجو میری

سفر قیام مرا، خواب جستجُو میری 
بہت عجیب ہے دنیائے رنگ و بُو میری 
تجھے خبر بھی نہیں تجھ میں خاک ہونے تک 
ہزار دشت سے گزری ہے آب جُو میری 
زمیں کی سانولی مٹی کے انتخاب سے قبل 
کشش بہت تھی عناصر کو چار سُو میری 

لگے بھی دل، کسی پہلو مگر سکوں بھی نہ ہو

لگے بھی دل، کسی پہلو مگر سکوں بھی نہ ہو
لہو میں اس قدر آمیزشِ جنوں بھی نہ ہو
کِیا ہے جیسے محبت نے دربدر ہم کو
کوئی کسی کی طلب میں خراب یوں بھی نہ ہو
لہو رُتوں میں کہاں سے میں فاختہ کے لیے
وہ شاخ لاؤں کہ جس پر لکیرِ خوں بھی نہ ہو

سمندر پار ہوتی جا رہی ہے

سمندر پار ہوتی جا رہی ہے
دعا، پتوار ہوتی جا رہی ہے
دریچے اب کھلے ملنے لگے ہیں
فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے
کئی دن سے میرے اندر کی مسجد
خدا بے زار ہوتی جا رہی ہے

ہر طلبگار کو محنت کا صلہ ملتا ہے

ہر طلب گار کو محنت کا صِلہ ملتا ہے 
بُت ہیں کیا چیز کہ ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے 
وقت پر کام نہ آیا دلِ ناشاد کبھی 
ٹُوٹ کر یہ بھی اسی شوخ سے جا ملتا ہے 
وہ جو انکار بھی کرتے ہیں تو کس ناز کے ساتھ 
مجھ کو ملنے میں نہ ملنے کا مزا ملتا ہے 

Monday 11 November 2013

کبھی آہ لب پہ مچل گئی کبھی اشک آنکھ سے ڈھل گئے

 کبھی آہ لب پہ مچل گئی کبھی اشک آنکھ سے ڈھل گئے

یہ تمہارے غم کے چراغ ہیں کبھی بجھ گئے کبھی جل گئے

میں خیال و خواب کی محفلیں نہ بقدرِ شوق سجا سکا

تیری ایک نظر کے ساتھ ہی میرے سب ارادے بدل گئے

کبهی رنگ میں کبهی روپ میں کبھی چھاؤں میں کبھی دھوپ میں

کہیں آفتاب نظر ہیں وہ، کہیں ماہتاب میں ڈھل گئے

یہ شب یہ خیال و خواب تیرے

یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
کیا پھول کھلے ہیں منہ اندھیرے
شعلے میں ہے ایک رنگ تیرا
باقی میں تمام رنگ میرے
آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں
یادوں کے بجھے ہوئے سویرے

آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد

آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی مِری جا میرے بعد
میان میں اس نے جو کی تیغِ جفا میرے بعد
خوں گرفتہ کوئی کیا اور نہ تھا میرے بعد
دوستی کا بھی تجھے پاس نہ آیا ہے ہے
تُو نے دشمن سے کیا میرا گلا میرے بعد

چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں بہاراں ہے

چلتے ہو تو چمن کو چلیے، کہتے ہیں بہاراں ہے
پات ہَرے ہیں، پھول کِھلے ہیں، کم کم باد و باراں ہے
رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں
آگے ہو مے خانے کو نکلو، عہدِ بادہ گساراں ہے
عشق کے میداں داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت
یعنی مصیبت ایسی اُٹھانا کارِ کار گزاراں ہے

دریده ایسے ہوئے عمر بھر سلے نہیں ہم

دریده ایسے ہوئے عمر بھر سِلے نہیں ہم
یہ کیا ہوا کہ تجھے مِل کے بھی مِلے نہیں ہم
گلاب تھے کسی صحرا مزاج موسم کے
تمہارے خواب کے اطراف میں کھلے نہیں ہم
مِلے ہیں ورثے میں کچھ خواب کچھ جلے خیمے
تِرے محل کی روایت کے سِلسلے نہیں ہم

دوستی اپنی جگہ اور دشمنی اپنی جگہ

دوستی اپنی جگہ اور دشمنی اپنی جگہ
فرض کے انجام دینے کی خوشی اپنی جگہ
ہم تو سرگرمِ سفر ہیں اور رہیں گے عمر بھر
منزلیں اپنی جگہ، آوارگی اپنی جگہ
پتھروں کے دیس میں شیشے کا ہے اپنا وقار
دیوتا اپنی جگہ اور آدمی اپنی جگہ

اس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں

اس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں
ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں
میں اسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں
وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں

Monday 4 November 2013

عجب خجالت جاں ہے نظر تک آئی ہوئی

عجب خجالتِ جاں ہے نظر تک آئی ہوئی 
کہ جیسے زخم کی تقریبِ رونمائی ہوئی 
نظر تو اپنے مناظر کے رمز جانتی ہے 
کہ آنکھ کہہ نہیں سکتی سُنی سُنائی ہوئی 
برونِ خاک، فقط چند ٹھیکرے ہیں، مگر 
یہاں سے شہر ملیں گے اگر کھدائی ہوئی 

جو دل قریب ہو پہلے نشانہ بنتا ہے

جو دل قریب ہو پہلے نشانہ بنتا ہے
سو اس کا تیر مجھی پر چلانا بنتا ہے
یہ بوڑھی ماں کی طرح کچھ بھی کہہ نہیں سکتی 
سو اس زمیں کا تمسخر اڑانا بنتا ہے
چراغ زاد! چراغوں سے تیری بنتی نہیں 
ہواؤں سے ہی ترا دوستانہ بنتا ہے    

عشق آزار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا

آدمی خوار بھی ہوتا ہے، نہیں بھی ہوتا
عشق آزار بھی ہوتا ہے، نہیں بھی ہوتا
شادی و مرگ نے یہ نکتہ بتایا ہے کہ وقت
تیز رفتار بھی ہوتا ہے، نہیں بھی ہوتا
کارِ دنیا ہی کچھ ایسا ہے کہ دل سے ترا درد
سلسلہ وار بھی ہوتا ہے، نہیں بھی ہوتا

Saturday 2 November 2013

منزل کے انتظار میں مارے گئے ہیں ہم

منزل کے انتظار میں مارے گئے ہیں ہم
اک دشتِ بے کنار میں مارے گئے ہیں ہم
مرنے کے کتنے خوب مقامات تھے مگر
شوقِ وصالِ یار میں مارے گئے ہیں ہم
تفسیرِ کائنات کی گرہیں نہ کھل سکیں
سوچوں کے خلفشار میں مارے گئے ہیں ہم

اپنے جذبات کے دھاگے میں پروئے رکھا

اپنے جذبات کے دھاگے میں پروئے رکھا
چاند کو رات کے دھاگے میں پروئے رکھا
میرے دل نے تری تحریر کا سجرا گجرا
سوچ کے ہاتھ کے دھاگے میں پروئے رکھا
جیت کے وقت کا اک شوخ چمکتا موتی
میں نے ہر مات کے دھاگے میں پروئے رکھا

کچھ بے ترتیب ستاروں کو پلکوں نے کیا تسخیر تو کیا

کچھ بے ترتیب ستاروں کو پلکوں نے کیا تسخیر تو کیا
وہ شخص نظر بھر رُک نہ سکا، احساس تھا دامن گیر تو کیا
کچھ بنتے مٹتے دائرے سے، اک شکل ہزاروں تصویریں
سب نقش و نگارعروج پہ تھے آنکھیں تھیں زوال پزیر تو کیا
خوش ہوں کہ کسی کی محفل میں ارزاں تھی متاعِ بیداری
اب آنکھیں ہیں بے خواب تو کیا اب خواب ہیں بے تعبیر تو کیا

میرا فرقہ آج ایک نیا فرقہ بناتے ہیں

میرا فرقہ 

آؤ
آج ایک نیا فرقہ بناتے ہیں
ان ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا
ان مُرجھائے ہوئے چہروں کا
وہ جو زمیں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کے جی رہے ہیں

شہر یہ دوسروں کا تھا جس میں ہمیں سہا گیا

شہر یہ دوسروں کا تھا، جس میں ہمیں سہا گیا
آج یہ بات سوچ کر، دل سے ہر اک گلہ گیا
دل یہ عجیب بات ہے تیری نہیں سُنی گئی
تھے جو بَلا کے سنگدل، ان کا کہا سنا گیا
ہاں، تیری آرزوئے ناز ہم کو بہت عزیز تھی
پر ترے کُوئے ناز میں، ہم سے نہیں رہا گیا

ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائش عارض و لب ہی سہی

ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائشِ عارض و لب ہی سہی
جو برسوں تم کر نہ سکے وہ قتل کے ساماں اب ہی سہی
اے بادۂ ناب کے رکھوالے، دو گھونٹ ادھر بھی پہنچا دے
معیارِ کرم اس محفل کا، پیمانۂ نام و نسب ہی سہی
جو کچھ بھی کوئی کہتا ہے کہے، اظہارِ تمنا تو ہو گا
ہم اہلِ جنوں کی باتوں میں کچھ پہلوئے سوئے ادب ہی سہی

Friday 1 November 2013

جس طرف سے بھی ملاوٹ کی رسد ہے رد ہے

جس طرف سے بھی ملاوٹ کی رسد ہے، رد ہے
ایک رَتّی بھی اگر خواہشِ بد ہے، رد ہے
دُکھ دئیے ہیں زرِ خالِص کی پرکھ نے، لیکن
جس تعلّق میں کہیں کِینہ و کد ہے، رد ہے
امن لکھنا نہیں سیکھیں جنہیں پڑھ کر بچے
ان کتابوں پہ کسی کی بھی سند ہے، رد ہے

ٹوٹ کر گفت و گو نہ کر ایسے

ٹوٹ کر گُفت و گُو نہ کر ایسے
ہم تو شاعر ہیں، تُو نہ کر ایسے
زخم تک لوگ چھین لیتے ہیں
خود کو بے آبرُو نہ کر ایسے
کل کی آنکھوں کا قرض ہے ہم پر
روشنی کا لہُو نہ کر ایسے

تمام خلق مجھے مارنے پہ تل گئی ہے

تمام خَلق مجھے مارنے پہ تُل گئی ہے
قصور یہ ہے کہ اندر کی آنکھ کُھل گئی ہے
خدا کرے یہ حقیقت کوئی نہ جان سکے
کہ زہر بن کے اُداسی لہو میں گُھل گئی ہے
چمک اٹھا ہے اچانک جو دل کا آئینہ
کسی کے نُورِ نظر سے سیاہی دُھل گئی ہے

شہر کا شہر ہوا جان کا پیاسا کیسا

شہر کا شہر ہوا جان کا پیاسا کیسا
سانس لیتا ہے مِرے سامنے صحرا کیسا
مِرے احساس میں یہ آگ بھری ہے کِس نے
رقص کرتا ہے مِری روح میں شعلہ کیسا
اپنی آنکھوں پہ تجھے اِتنا بھروسا کیوں ہے
تیرے بیمار چلے، توُ ہے مسیحا کیسا

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تُو میرا نہیں
مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے، نہیں، ایسا نہیں
وارداتِ دل کا قصہ ہے، غمِ دنیا نہیں
شعر تیری آرسی ہے، میرا آئینہ نہیں
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رَستہ نہیں

کربلا کے معرکے کو سر کیا شبیر نے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

کربلا کے معرکے کو سر کیا شبیر نے
 شام کی تسخیر کی ہے شاہ کی ہمشیر نے
 ایک شب میں بن گیا دوزخ سے جنت کا مکیں
 حر کو کیا رستہ دکھایا خوبئ تقدیر نے
 وقت آنے پر کٹا دو دین پر کنبہ تمام
 درس یہ ہم کو دیا قربانئ شبیر نے

تیرے اور مرے درمیاں کب ہے

تیرے اور مرے درمیاں کب ہے
رہ گزر ہے، یہ آسماں کب ہے
رہ سکوں میں خیالِ یار کے ساتھ
اتنا خالی یہ خاک داں کب ہے
چل رہی ہے زمین الٹے قدم
یہ جو دریا ہے یہ رواں کب ہے

عیاں نہیں ہے جو مستی سر سبو میری

عیاں نہیں ہے جو مستی سرِ سبو میری
کہیں خلاؤں میں گونجے گی ہاؤ ہو میری
وہ کوئی اور تھا مقتل میں جاں لٹاتا ہوا
اگرچہ شکل بظاہر تھی ہو بہ ہو میری
یہ اور بات کہ ہم ایک ساتھ ہیں دنیا
یہ اور بات میں تیرا ہوں اور نہ تو میری

آگہی میں امان ہے شاید

آگہی میں امان ہے شاید
یا کوئی امتحان ہے شاید
میرا ہونا تو وہم تھا بے شک
اور نہ ہونا گمان ہے شاید
پھڑپھڑاتا ہے دل جو سینے میں
اس پرندے میں جان ہے شاید

عجیب صورت حالات ہونے والی ہے

عجیب صورتِ حالات ہونے والی ہے
بلا کی دھوپ میں برسات ہونے والی ہے
سکوت چھایا ہوا ہے غضب کا لہروں پر
کنارِ دریا کوئی بات ہونے والی ہے
نمازِ شکر تو پڑھ لوں کہ تیغِ قاتل کی
رگِ گلو سے ملاقات ہونے والی ہے

بندگی کو مثال کرتے ہم

بندگی کو مثال کرتے ہم
اس گلی میں دھمال کرتے ہم
رقص کرتے زمیں پہ دائرہ وار
آسماں کو نڈھال کرتے ہم
قبلِ سجدہ ذرا سی مے پی کر
عاجزی کو بحال کرتے ہم