Thursday 30 January 2014

درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے

درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
کسے خبر کہ اسِیروں پر کیا گزرتی ہے
تعلقات ابھی اس قدر نہ ٹُوٹے تھے
کہ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اب مِلے بھی تو مِلتا ہے اس طرح جیسے
بُجھے چراغوں کو چُھو کر ہَوا گزرتی ہے

آؤ کہ مرگ سوز محبت منائیں ہم

مرگِ سوز محبت

آؤ کہ مرگِ سوزِ محبت منائیں ہم
آؤ کہ حُسنِ ماہ سے دل کو جلائیں ہم
خُوش ہوں فراقِ قامت و رُخسارِ یار سے
سرو گُل و سمن سے نظر کو ستائیں ہم
ویرانئ حیات کو ویران تر کریں
لے ناصح آج تِرا کہا مان جائیں ہم

قرض نگاہ یار ادا کر چکے ہیں ہم

قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم 
کچھ امتحانِ دستِ جفا کر چکے ہیں ہم
کچھ اُن کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم 
اب احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی
قاتل سے رسم و راہ سوا کر چکے ہیں ہم 

تیری صورت جو دلنشیں کی ہے

تیری صُورت جو دِلنشِیں کی ہے
آشنا شکل ہر حسِیں کی ہے 
حُسن سے دل لگا کے ہستی کی
ہر گھڑی ہم نے آتشِیں کی ہے 
صبحِ گُل ہو کہ شامِ مے خانہ
مدح اس رُوئے نازنِیں کی ہے 

چہرہ نہ دکھا صدا سنا دے

چہرہ نہ دکھا، صدا سنا دے
جینے کا ذرا تو حوصلہ دے
دکھلا کسی طور اپنی صورت
آنکھوں کو مزید مت سزا دے
چھو کر مِری سوچ میرے تن میں
بیلیں ہرے رنگ کی اگا دے

رقص میں رات ہے بدن کی طرح

رقص میں رات ہے بدن کی طرح
بارشوں کی ہوا میں بَن کی طرح
چاند بھی میری کروٹوں کا گواہ
میرے بستر کی ہر شکن کی طرح
چاک ہے دامنِ قبائے بہار
میرے خوابوں کے پیرہن کی طرح

سما کے ابر میں برسات کی امنگ میں ہوں

سما کے اَبر میں، برسات کی امنگ میں ہوں
ہوا میں جذب ہوں، خوشبو کے انگ انگ میں ہوں
فضا میں تیر رہی ہوں، صدا کے رنگ میں ہوں
لہو سے پوچھ رہی ہوں، یہ کس ترنگ میں ہوں
دھنک اترتی نہیں میرے خون میں جب تک
میں اپنے جسم کی نیلی رگوں سے جنگ میں ہوں

نظر کی تیزی میں ہلکی ہنسی کی آمیزش

نظر کی تیزی میں ہلکی ہنسی کی آمیزش
زرا سی دھوپ میں کچھ چاندنی کی آمیزش
یہی تو وجہِ شکستِ وفا ہوئی میری
خلوصِ عشق میں سادہ دلی کی آمیزش
مِرے لیے تِرے الطاف کی وہ اجلی رت
عذابِ مرگ میں تھی زندگی کی آمیزش

اب کیا ہے جو تیرے پاس آؤں

اب کیا ہے جو تیرے پاس آؤں
کس مان پہ تجھ کو آزماؤں
زخم اب کے تو سامنے سے کھاؤں
دشمن سے نہ دوستی بڑھاؤں
تِتلی کی طرح جو اڑ چکا ہے
وہ لمحہ کہاں سے کھوج لاؤں

یوں حوصلہ دل نے ہارا کب تھا

یوں حوصلہ دل نے ہارا کب تھا
سرطان مِرا ستارا کب تھا
لازم تھا گزرنا زندگی سے
بِن زہر پِیے گزارا کب تھا
کچھ پَل اسے اور دیکھ سکتے
اشکوں کو مگر گوارا کب تھا

تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
بچپنے کا ساتھ ہے، پھر ایک سے دونوں کے دُکھ
رات کا اور میرا آنچل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
وہ عجب دنیا کہ سب خنجر بکف پھرتے ہیں اور
کانچ کے پیالوں میں صندل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

سانحہ ہم پہ یہ پہلا ہے مری جاں کوئی

سانِحہ ہم پہ یہ پہلا ہے مِری جاں کوئی
ایسے دامن سے ملاتا ہے گریباں کوئی
قیس صاحب کا تو اِس غم میں عجب حال ہوا
اپنے رَستے میں نہ پڑتا ہو بیاباں کوئی
ہم نے اپنے کو بہت دیر سنبھالا ہوتا
آ ہی نکلے اگر آنسو سرِ مژگاں کوئی

شام غم کی سحر نہیں ہوتی

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی
ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی
نالہ یوں نارسا نہیں رہتا
آہ یُوں بے اثر نہیں ہوتی

تمہیں جو میرے غم دل سے آگہی ہو جائے

تمہیں جو میرے غمِ دل سے آگہی ہو جائے
جگر میں پُھول کِھلیں، آنکھ شبنمی ہو جائے 
اَجل بھی اُس کی بلندی کو چُھو نہیں سکتی
وہ زندگی جِسے احساسِ زندگی ہو جائے
یہی ہے دل کی ہلاکت، یہی ہے عشق کی موت
نگاہِ دوست پہ اظہارِ بے کسی ہو جائے

اعتبار نگاہ کر بیٹھے

اعتبارِ نگاہ کر بیٹھے
کتنے جلوے تباہ کر بیٹھے
آپ کا سنگِ دَر نہیں چمکا
ہم جبِینیں سیاہ کر بیٹھے
موت پر مُسکرانے آئے تھے
زندگانی تباہ کر بیٹھے

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ

وہ ادائے دِلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ
یہ تِرا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ
کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خسروانہ

تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اک دن انتہا ہو گا

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اِک دن اِنتہا ہو گا
صدائے ساز ہو گی اور نہ ساز بے صدا ہو گا
ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سُنو محشر میں ‌کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہوں‌ گے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
سرِ محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا، درِ رحمت تو وا ہو گا

درد کی ماری ہوئی دنیا میں کم جانتے ہیں

درد کی ماری ہوئی دُنیا میں کم جانتے ہیں
جتنا نزدیک سے ہم رنج و اَلَم جانتے ہیں
اُس نے پُوچھا کہ کسے عِلم ہے تیرے دل کا
ہم نے آہستہ سے بتلایا، کہ غم جانتے ہیں
آگ میں جُھلسا ہُوا دَشت لگے سِینہ ہمیں
بھری برسات کو بس دیدۂ نم جانتے ہیں

بے سبب ہیں تیری باتیں اے دل

بے سبب ہیں تیری باتیں اے دل 
کچھ بھی سُنتی نہیں راتیں اے دل 
کس طرح خُود کو بچا پاؤ گے 
ان گنت دُکھ کی ہیں گھاتیں اے دل 
درد کے زمرے میں ہی آتی ہیں 
تیری جیتیں ہیں یا ماتیں اے دل 

بس اک چراغ یہ روشن دل تباہ میں ہے

بس اک چراغ یہ روشن دلِ تباہ میں ہے
کہ اس کی میری جدائی ابھی نِباہ میں ہے
تمہارا ہِجر، صدی دو صدی تو پالیں گے
ابھی کچھ اِتنی سَکت تو ہماری چاہ میں ہے
میں مطمئن ہوں کہ تُو مطمئن نہیں دُشمن
ابھی تو ایک یہی چال رزم گاہ میں ہے

جاتے جاتے اس طرح سب کچھ سوالی کر گیا

جاتے جاتے اِس طرح سب کچھ سوالی کر گیا
رُوح کا کمرہ بَھرا رہتا تھا، خالی کر گیا
عشق اپنے ساتھ یہ کیسی نِرالی کر گیا
چند لمحوں میں طبیعت لااُبالی کر گیا
اب نہ کوئی راہ چیختی ہے، نہ کوئی ہمسفر
ایک دو دن کے سفر کو یُوں مثالی کر گیا

پیش آئے ہو احترام سے کیوں

پیش آئے ہو احترام سے کیوں
ڈر گئے ہو مِرے مقام سے کیوں
اے دلِ بے قرار ساحل پر
بیٹھ جاتے ہو روز شام سے کیوں
دل تِری یاد ہی مناتا ہے
آخر اس شوق و اہتمام سے کیوں

نکلے تیری تلاش میں پھر در بدر رہے

نکلے تیری تلاش میں پھر در بدر رہے
ہم خانہ بدوش لوگ تھے، دریوزہ گر رہے
الجھے ہیں کچھ اِس طرح غمِ روزگار میں
گردشِ ماہ وسال سے بھی بے خبر رہے
ہر شام کے نصیب میں اِک سفاک رات ہے
ہر شام یہ سوچ کر ہم اپنے گھر رہے

معجزہ ہمارے عہد میں بھی ہو گیا ہے

معجزہ ہمارے عہد میں بھی ہو گیا ہے
وہ اپنا عکس ہمارے آئینوں میں بو گیا ہے
وہی سمجھے گی ماں، میرے کرب کی کہانی
جس کا لاڈلہ بچہ اچانک کہیں کھو گیا ہے
نہ کوئی مطرب و رباب نہ کوئی راگ درباری
فن کار ہمارے شہر کا شاید سو گیا ہے

پانیوں کے سفر میں پتوار نہیں‌ بدلے جاتے

پانیوں کے سفر میں پتوار نہیں‌ بدلے جاتے
گرمئ بازار میں زیست کے ادوار نہیں بدلے جاتے
ہوائے شہرِ خُوباں سے کہو ہوش کرے
موسم بدل جائے تو اشجار نہیں بدلے جاتے
تیری مُسکان کا پرتَو ہیں آنکھیں تیری
دشمنِ جاں رَتجگوں کے آثار نہیں بدلے جاتے

پرسہ دیتی ہے مجھے سرمئ شام بھی گاہے گاہے

پُرسہ دیتی ہے مجھے سرمئ شام بھی گاہے گاہے
ہوا لکھتی ہے پیڑوں پہ تیرا نام بھی گاہے گاہے
رقص کرتی ہوئی خوشیوں کا تناسب کم ہے
ساتھ چلتے ہیں گردشِ ایام بھی گاہے گاہے
کچھ تو بادل بھی میرے شہر کا نصیبہ ٹھہرے
اور وہ چاند آتا ہے لبِ بام بھی گاہے گاہے

عجب ہی کیا ہے جو تھک ہار کر ہوا رہ جائے

عجب ہی کیا ہے جو تھک ہار کر ہوا رہ جائے
کسی منڈیر پہ جلتا ہوا، دِیا رہ جائے
اک ایک کر کے سبھی ربط توڑ لیں مجھ سے
وہ ایک شخص، فقط میرا ہمنوا رہ جائے
گئے ہوؤں کے، پلٹنے کی آس زندہ ہے
کواڑ دل کا، ہر اک مرتبہ کھلا رہ جائے

Wednesday 29 January 2014

ایک تو نیناں کجرارے اور اس پر ڈوبے کاجل میں

ایک تو نیناں کجرارے اور اس پر ڈوبے کاجل میں
بجلی کی بڑھ جائے چمک کچھ اور بھی گہرے بادل میں
آج ذرا للچائی نظر سے اس کو بس کیا دیکھ لیا
پَگ پَگ اس کے دل کی دھڑکن اتری آئے پائل میں
پیاسے پیاسے نیناں اس کے جانے پگلی چاہے کیا
تٹ پر جب بھی جاوے سوچے ندیا بھر لوں چھاگل میں

زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو

زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ تو تِرا احسان اتارا ہی نہ ہو
کُوئے قاتل کی بڑی دھوم ہے، چل کر دیکھیں
کیا خبر کُوچۂ دلدار سے پیارا ہی نہ ہو
دل کو چُھو جاتی ہے اس رات کی آواز کبھی
چونک اٹھتا ہوں کہیں تم نے پُکارا ہی نہ ہو

آہ جاں سوز کی محرومیِ تاثیر نہ دیکھ

آہ جاں سوز کی محرومئ تاثیر نہ دیکھ
ہو ہی جائے گی کوئی جینے کی تدبیر نہ دیکھ
حادثے اور بھی گزرے تِری الفت کے سوا
ہاں دیکھ مجھے اب مِری تصویر نہ دیکھ
یہ ذرا دور پہ منزل، یہ اجالا، یہ سکوں
خواب کو دیکھ  ابھی خواب کی تعبیر نہ دیکھ

مدت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی

مدّت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی
 ظاہر کا پاس تھا، سو مدارات بھی گئی
 کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شبِ وصال
 باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی
 کچھ کہتے آ کے ہم تو سنا کرتے وے خموش
 اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی

عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں

عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
 اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں
 بے کلی دل ہی کی تماشا تھی
 برق میں ایسے اضطراب کہاں
خط کے آئے پہ کچھ کہے تو کہے
 ابھی مکتوب کا جواب کہاں

مطلق نہیں ادھر ہے اس دلربا کی خواہش

مطلق نہیں ادھر ہے اس دلربا کی خواہش
 کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش
 دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے
 رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی جفا کی خواہش
 لعلِ خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں
 پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش

حال نہیں ہے دل میں مطلق شور و فغاں رسوائی ہے

حال نہیں ہے دل میں مطلق، شور و فغاں رسوائی ہے
 یار گیا مجلس سے دیکھیں کس کس کی اب آئی ہے
 آنکھیں مَل کر کھولیں اُن نے عالم میں آشوب اُٹھا
 بال کھلے دکھلائی دیا، سو ہر کوئی سودائی ہے
 ڈول بیاں کیا کوئی کرے اس وعدہ خلاف کی دیہی کا
 ڈھال کے سانچے میں صانع نے وہ ترکیب بنائی ہے

اجاڑ بستی کے باسیو ایک دوسرے سے پرے نہ رہنا

اجاڑ بستی کے باسیو! ایک دوسرے سے پرے نہ رہنا
ہوا درختوں سے کہہ گئی ہے، کسی بھی رُت میں ہَرے نہ رہنا
میں اپنے روٹھے ہوئے قبیلے کی سازشوں میں گھرا ہوا ہوں
تم اجنبی ہو تو میرے آنگن کی وحشتوں سے ڈرے نہ رہنا
پھٹے ہوئے بادبان کے پرزے بکھر بکھر کر یہ کہہ رہے تھے
شکستہ کشتی کے ناخداؤ! ہواؤں کے آسرے نہ رہنا

لوگوں کے لیے صاحب کردار بھی میں تھا

لوگوں کے لیے صاحب کردار بھی میں تھا
خود اپنی نگاہوں میں گنہگار بھی میں تھا
کیوں اب میرے منصب کی سلامی کو کھڑے ہو
یارو کبھی رُسوا سرِ بازار بھی میں تھا
میں خود ہی چُھپا تھا کفِ قاتل کی شِکن میں
مقتول کی ٹُوٹی ہوئی تلوار بھی میں تھا

Tuesday 28 January 2014

وہ ماہتاب جو ڈُوبا ہوا ملال میں تھا

وہ ماہتاب جو ڈُوبا ہوا ملال میں تھا
مجھے خبر ہی نہیں ہے میں کس خیال میں تھا
شکست کھا کے بھی میں سرخرو سا لگتا ہوں
کہ دوستی کا مزا دشمنوں کی چال میں تھا
خراش تھی میرے رُخ پر یا وہم آنکھوں میں؟
تمام بھید تیرے آئینے کے بال میں تھا

جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا


جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری، میں جاگ پڑا تو خواب ہُوا
میری سوچ خزاں کی شاخ بنی، تیرا چہرہ اور گلاب ہوا
برفیلی رُت کی تیز ہَوا کیوں جِھیل میں کنکر پھینک گئی
اِک آنکھ کی نیند حرام ہوئی، اِک چاند کا عکس خراب ہوا
بھرے شہر میں ایک ہی چہرہ تھا، جسے اب کے گلیاں ڈھونڈتی ہیں
کسی صبح اس کی دھوپ ہوئی، کسی شام وہی مہتاب ہوا

باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا

باغی میں آدمی سے، نہ مُنکر خدا کا تھا
درپیش مسئلہ مِری اپنی اَنا کا تھا
گُم صُم کھڑا تھا ایک شجر دشتِ خوف میں
شاید وہ منتظر کسی اندھی ہَوا کا تھا
اپنے دُھویں کو چھوڑ گیا آسمان پر
بُجھتے ہوئے دِیے میں غرُور انتہا کا تھا

کب تلک شب کے اندھیرے میں سحر کو ترسے

کب تلک شب کے اندھیرے میں سحر کو ترسے
وہ مسافر جو بھرے شہر میں گھر کو ترسے
آنکھ ٹھہرے ہوئے پانی سے بھی کتراتی ہے
دل وہ رہرو کہ سمندر کے سفر کو ترسے
مجھ کو اُس قحط کے موسم سے بچا ربِّ سخن
جب کوئی اہلِ ہُنر، عرضِ ہُنر کو ترسے

مل گیا تھا تو اسے خود سے خفا رکھنا تھا

مِل گیا تھا تو اسے خود سے خفا رکھنا تھا
دل کو کچھ دیر تو مصروفِ دعا رکھنا تھا
میں نہ کہتا تھا کہ سانپوں سے اٹے ہیں راستے
گھر سے نکلے تھے تو ہاتھوں میں عصا رکھنا تھا
بات جب ترک تعلق پہ ہی ٹھہری تھی تو پھر
دل میں احساس غمِ یار بھی کیا رکھنا تھا

سکوں کے دن سے فراغت کی رات سے بھی گئے

سکوں کے دن سے فراغت کی رات سے بھی گئے
تجھے گنوا کے بھری کائنات سے بھی گئے
جدا ہوئے تھے مگر دل کبھی نہ ٹُوٹا تھا
خفا ہوئے تو تیرے اِلتفات سے بھی گئے
چلے تو نِیل کی گہرائیاں تھیں آنکھوں میں
پلٹ کر آئے تو موجِ فرات سے بھی گئے

سجا کے سر پہ ستاروں کے تاج رکھتا ہے

سجا کے سر پہ ستاروں کے تاج رکھتا ہے
زمیں پہ بھی وہ فلک کا مزاج رکھتا ہے
سنورنے والے سدا آئینے کو ڈھونڈتے ہیں
بچھڑ کے بھی وہ مِری احتیاج رکھتا ہے
صبا خرام خزاں پیرہن بہار بدن
وہ موسموں کا عجب امتزاج رکھتا ہے

زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے

زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے
بعض اوقات مِری رُوح غضب کرتی ہے
جو تِری زُلف سے اُترے ہُوں مِرے آنگن میں
چاندنی ایسے اندھیروں کا اَدب کرتی ہے
اپنے انصاف کی زنجیر نہ دیکھو کہ یہاں
مُفلسی ذہن کی فریاد بھی کب کرتی ہے

جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا

جُگنو، گُہر، چراغ، اُجالے تو دے گیا
وہ خود کو ڈھونڈنے کے حوالے تو دے گیا 
اب اس سے بڑھ کے کیا ہو وراثت فقیر کی
بچوں کو اپنی بِھیک کے پیالے تو دے گیا
اب میری سوچ سائے کی صورت ہے اُسکے گرد
میں بُجھ کے اپنے چاند کو ہالے تو دے گیا

مجرم بھی تھا محسن بھی میرا لگتا تھا

مجرم بھی تھا، محسن بھی میرا لگتا تھا 
دستِ قاتل بھی مجھے دستِ حنا لگتا تھا 
دیکھنے والے تو اسے دیکھتے رہ جاتے تھے 
ہاں وہ اِک شخص محبت کی صدا لگتا تھا 
کانٹوں بھری شاخ نظر آتا تھا کبھی 
پھول لگتا تھا، کبھی بادِ صبا لگتا تھا 

یہ خوف دل میں نگاہ میں اضطراب کیوں ہے

یہ خوف دل میں، نگاہ میں اضطراب کیوں ہے
طلوع محشر سے پیشتر یہ عذاب کیوں ہے
کبھی تو بدلے یہ ماتمی رُت اداسیوں کی
میری نگاہوں میں ایک سا شہرِ خواب کیوں ہے
کبھی کبھی تیری بے نیازی سے خوف کھا کے
میں سوچتا ہوں تُو میرا انتخاب کیوں ہے

جو میری ہتھیلی پہ لکیروں سے لکھا ہے

جو میری ہتھیلی پہ لکیروں سے لکھا ہے
تحفے میں مجھے میرے مقدر نے دیا ہے
آندھی کی طرح شہر میں چیخوں کی صدا ہے
اس شہر کے ہر گھر میں کوئی حشر بپا ہے
اب تلخ حقائق سے مفر ہو بھی تو کیسے
اب زیست ہماری اِک الم ناک صدا ہے

اس کو اپنے گھر کی سناٹے سے کتنا پیار تھا

اس کو اپنے گھر کی سنّاٹے سے کتنا پیار تھا
وہ بظاہر کچھ نہ لگتا تھا، مگر فنکار تھا
تجھ سے بچھڑا ہوں تو دیکھے ہیں کئی چہرے مگر
خواہشوں کی بھیڑ میں بھی تُو میرا معیار تھا
اس کی خواہش تھی تو پی لینا تھا جام زہر بھی
دیکھنا بے سُود تھا پھر سوچنا بے کار تھا

یہ عشق بھی کیا ہے، اسے اپنائے کوئی اور

یہ عشق بھی کیا ہے، اسے اپنائے کوئی اور 
چاہوں میں کسی اور کو، یاد آئے کوئی اور 
اس شخص کی محفل کبھی برپا ہو تو دیکھو 
ہو ذکر کسی اور کا، شرمائے کوئی اور 
اے ضبطِ انا! مجھ کو یہ منظر نہ دکھانا 
دامن ہو کسی اور کا، پھیلائے کوئی اور 

لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے شاعری سچ بولتی ہے

گیت

لاکھ پردوں میں رہوں بھید مِرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زباں ڈولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے

تیرا اصرار کہ چاہت مِری بے تاب نہ ہو
واقف اس غم سے مرا حلقۂ احباب نہ ہو
تُو مجھے ضبط کے صحراؤں میں کیوں رولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں

گیت

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں، ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹُوٹا ہے، اور تو کوئی بات نہیں
کس کو خبر تھی سانولے بادل بِن برسے اُڑ جاتے ہیں
ساون آیا، لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں
ٹُوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی
گونج رہی ہے کیوں شہنائی، جب کوئی بارات نہیں

دشت و دریا کے یہ اس پار کہاں تک جاتی

دشت و دریا کے یہ اس پار کہاں تک جاتی
گھر کی دِیوار تھی، دِیوار کہاں تک جاتی
مِٹ گئی حسرتِ دِیدار بھی رفتہ رفتہ
ہِجر میں حسرتِ دِیدار کہاں تک جاتی
تھک گئے ہونٹ تیرا نام بھی لیتے لیتے
ایک ہی لفظ کی تکرار کہاں تک جاتی

بے کیف ہیں یہ ساغر و مینا تِرے بغیر

بے کیف ہیں یہ ساغر و مِینا تِرے بغیر
آساں ہوا ہے زہر کا پِینا تِرے بغیر
جچتا نہیں ہے کوئی نِگاہوں میں آج کل
بےعکس ہے یہ دیدۂ بِینا تِرے بغیر
کِن کِن بلندیوں کی تمنا تھی عشق میں
طے ہو سکا نہ ایک بھی زِینہ تِرے بغیر

میکدہ تھا چاندنی تھی میں نہ تھا

مے کدہ تھا، چاندنی تھی، میں نہ تھا
اِک مجسّم بے خودی تھی، میں نہ تھا
عشق جب دم توڑتا تھا، وہ نہ تھے
موت جب سر دُھن رہی تھی، میں نہ تھا
طُور پر چھیڑا تھا جس نے آپ کو
وہ میری دیوانگی تھی، میں نہ تھا

وہ فصل گل وہ لب جوئبار یاد کرو

وہ فصلِ گل، وہ لبِ جوئبار یاد کرو
وہ اختلاط، وہ قول و قرار یاد کرو
وہ انگ انگ میں طغیانیاں محبت کی
وہ رنگ رنگ کے نقش و نگار یاد کرو
وہ نکہتوں کے جنوں خیز و شعلہ بار بھنور
وہ بلبلوں کی نشیلی پکار یاد کرو

دن گزر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں

دن گزر جائیں گے، سرکار کوئی بات نہیں
زخم بھر جائیں گے، سرکار کوئی بات نہیں
آپ کا شہر اگر بار سمجھتا ہے ہمیں
کُوچ کر جائیں گے، سرکار کوئی بات نہیں
آپ کے جور کا جب ذکر چِھڑا محشر میں
ہم مُکر جائیں گے، سرکار کوئی بات نہیں

بس اک شخص ہی کل کائنات ہو جیسے

بس اِک شخص ہی کُل کائنات ہو جیسے
نظر نہ آئے تو دن میں بھی رات ہو جیسے
میرے لبوں پہ تبسم معجزن ہے اب تک
کہ دل کا ٹوٹنا ذرا سی بات ہو جیسے
شبِ فراق مجھےآج یوں ڈراتی ہے
تیرے بغیر میری پہلی رات ہو جیسے

کسی کی یاد سہارا شب فراق کا ہے

دل ایک ٹوٹا ستارہ شبِ فراق کا ہے
جو ایک بار ہوا غرق، پھر نہیں اُبھرا
بہت ہی گہرا کنارہ شبِ فراق کا ہے
جہاں بھی جائیے، یہ ساتھ ساتھ رہتی ہے
یہاں وہاں پہ اجارہ شبِ فراق کا ہے
ہے کیا مجال یہاں اہلِ وصل آ جائیں

گرد رہ ملال مرے ساتھ ساتھ چل

گردِ رہِ ملال مِرے ساتھ ساتھ چل
مت کر بہت سوال مِرے ساتھ ساتھ چل
دشتِ فراق میں نہ بھٹک جاؤں میں کہیں
مِثلِ شبِ وصال مِرے ساتھ ساتھ چل
رستہ ہے شہرِ عشق کا صدیوں سے بھی طویل
ہو نہ سفر محال مِرے ساتھ ساتھ چل

بہت چپ ہو شکایت چھوڑ دی کیا

بہت چپ ہو شکایت چھوڑ دی کیا
رہ و رسمِ محبت چھوڑ دی کیا
یہ کیا اندر ہی اندر بجھ رہے ہو
ہواؤں سے رقابت چھوڑ دی کی
مناتے پِھر رہے ہو ہر کسی کو
خفا رہنے کی عادت چھوڑ دی کیا

کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا

کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا
مجھے اپنا ہاتھ بھی چُھو گیا تو خیال تیری طرف گیا
تیرے ہجر میں خور و خواب کا کئی دن سے ہے یہی سلسلہ
کوئی لقمہ ہاتھ سے گر گیا تو خیال تیری طرف گیا
کسی حادثے کی خبر ہوئی تو فضا کی سانس اُکھڑ گئی
کوئی اتفاق سے بچ گیا تو خیال تیری طرف گیا

ہجر سے مرحلۂ زیست عدم ہے ہم کو

ہجر سے مرحلۂ زیست عدم ہے ہم کو
فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ کم ہے ہم کو
سائے سے اٹھ کے ابھی دھوپ میں جا بیٹھیں گے
گھر سے صحرا تو فقط ایک قدم ہے ہم کو
پا بہ جولاں تِرے کوچے میں بھی کِھینچے لائے
شحنۂ شہر سے اُمیدِ کرم ہے ہم کو

Monday 27 January 2014

مقامات ارباب جاں اور بھی ہیں

مقامات اربابِ جاں اور بھی ہیں
مکاں اور بھی لامکاں اور بھی ہیں
مکمّل نہیں ہے جنونِ تجسّس
مسلسل جہاں در جہاں اور بھی ہیں
یہیں تک نہیں عشق کی سیر گاہیں
مہ و انجم و کہکشاں اور بھی ہیں

مل گیا تھا تو اسے خود سے خفا رکھنا تھا

مِل گیا تھا تو اُسے خود سے خفا رکھنا تھا
دل کو کچھ دیر تو مصروفِ دعا رکھنا تھا
میں نہ کہتا تھا کہ سانپوں سے اَٹے ہیں رَستے
گھر سے نکلے تھے تو ہاتھوں میں عصا رکھنا تھا
بات جب ترکِ تعّلُق پہ ہی ٹھہری تھی تو پھر
دل میں احساسِ غمِ یار بھی کیا رکھنا تھا

شہ نشیں پر چاند اترا اک پرانی یاد کا

شہ نشیں پر چاند اترا، اِک پرانی یاد کا
دِل میں پرچم سا کھلا کس قریۂ برباد کا
شہر پر اس ساعتِ ناسعد کا سایہ ہے اَب
جھٹپٹے کے وقت کیوں پتھر رکھا بنیاد کا
بستیوں کی گونج پراسرار سی ہونے لگی
جیسے سناٹا پکارے شہرِ نا آباد کا

کیفیت ہے یہ جسم و جان میں کیا

نذرِ جون ایلیا 

 کیفیت ہے یہ جسم و جان میں کیا
 کوئی آیا ہے ہے اِس مکان میں کیا
 دھوپ میں تم جو بھاگے پِھرتے ہو
چھاؤں ڈَستی ہے سائبان میں کیا
رات تم نے بھی تو سُنی ہو گی
 ذکر میرا تھا داستان میں کیا

Saturday 25 January 2014

وہ ساون جس میں زلفوں کی گھٹا چھائی نہیں ہوتی

وہ ساون جس میں زُلفوں کی گھٹا چھائی نہیں ہوتی
 جو برسے بھی تو سیراب اپنی تنہائی نہیں ہوتی
جنابِ عشق کرتے ہیں کرم کُچھ خاص لوگوں پر
 ہر انسان کے مقدّر میں تو رُسوائی نہیں ہوتی
سمندر پُرسکوں ہے اس لیے گہرا بھی ہے ورنہ
 مچلتی ندیوں میں کوئی گہرائی نہیں ہوتی

ذکر ہے اپنا محفل محفل اے غم جاناں اے غم دوراں

ذکر ہے اپنا محفل محفل، اے غمِ جاناں، اے غمِ دوراں
 راز نہیں اب حادثۂ دل، اے غمِ جاناں، اے غمِ دوراں
 کون سے نغماتِ خراماں، کس پہ چلے رفتار کا جادو
 عشق تو ہے پابندِ سلاسل، اےغمِ جاناں، اے غمِ دوراں
 سوچ سمجھ کر دھوکا کھانا، پچھتانا، پھر پیار نبھانا
 پیار کی ہے یہ کون سی منزل، اےغمِ جاناں، اے غمِ دوراں

مری نظر سے نہ ہو دور ایک پل کے لئے

مِری نظر سے نہ ہو دُور ایک پَل کے لیے
 تِرا وجود ہے لازم مِری غزل کے لیے
 کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں چراغ سے وہ بدن
 ترس گئی ہیں نگاہیں کنول کنول کے لئے
 ایک ایسا تجربہ مجھ کو ہُوا ہے آج کی رات
 بچا کے دھڑکنیں رکھ لی ہیں میں نے کل کے لئے

جو خود اس کا رستہ روکیں ان کے آگے جھکتی ہے

جو خود اس کا رَستہ روکیں اُن کے آگے جُھکتی ہے
 ورنہ ہر دروازے پر تقدیر بھلا کب رُکتی ہے
میری گلی کے لُٹنے والے شور مچاتے ہیں، لیکن
 تب امداد پُہنچتی ہے جب بربادی ہو چُکتی ہے
ساون تو ہے ایک مگر کیا کہیے اس دو رنگی کو
 باہر پڑے پھوار تو اندر جان ہماری پُھکتی ہے

انگڑائی پہ انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی

انگڑائی پہ انگڑائی لیتی ہے رات جُدائی کی
 تم کیا سمجھو، تم کیا جانو، بات مِری تنہائی کی
کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں
 میں نے آنکھ جھپکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی
ٹُوٹ گئے سیّال نگینے، پُھوٹ بہے رُخساروں پر
 دیکھو میرا ساتھ نہ دینا، بات ہے یہ رُسوائی کی

اک بار جو تک لے اسے تکتا ہی چلا جائے

اِک بار جو تک لے اُسے تکتا ہی چلا جائے
 شعلہ سا بدن اس کا دہکتا ہی چلا جائے
 کردار ادا جب میں کروں بادِ صبا کا
 وہ پھول کی مانند مہکتا ہی چلا جائے
حالات کی بجلی نے کیا راکھ نشیمن 
 پر آس کا پنچھی کہ چہکتا ہی چلا جائے

گئے برس جو گیت سنا تھا ہریالے ساون سے

گئے برس جو گیت سُنا تھا ہریالے ساون سے
 وُہی گیت میں سننا چاہوں آج تیری جھانجھن سے
پورے چاند کی رات کو جب تُو میرے پاس نہیں تھی
 اگنی بان برستے دیکھے میں نے کرن کرن سے
تیرے حوالے میں نہیں کرتا، اس لیے دل اپنا
 تُجھے کھلونے توڑنے کی عادت سی ہے بچپن سے

ساون کے سہانے موسم میں اک نار ملی بادل جیسی

ساون کے سہانے موسم میں اِک نار مِلی بادل جیسی
 بے پنکھ اُڑانیں لیتی ہے جو اپنے ہی آنچل جیسی
 وہ جس کی کمر تک چوٹی ہے، رنگت میں بیر بہوٹی ہے
 چُھو کر جو اُسے دیکھا میں نے وہ مجھ کو لگی مخمل جیسی
لایا ہے بنا کر اُس کو دُلہن، یہ جوبن، یہ البیلا پن
 اِس عمر میں سر سے پاؤں تک لگتی ہے وہ تاج محل جیسی

منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاؤں کے

منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاؤں کے
 نیندیں چُرا رہے ہیں وہ جھونکے ہواؤں کے
تیری گلی سے چاند زیادہ حسِیں نہیں 
 کہتے سُنے گئے ہیں مسافر خلاؤں کے
پَل بھر کو تیری یاد میں دھڑکا تھا دل مِرا
 اب دُور تک بھنور سے پڑے ہیں صداؤں کے

جب سے آیا ہے ترے پیار کا موسم جاناں

جب سے آیا ہے تِرے پیار کا موسم جاناں
 دل میں رہتی ہے لگاتار چھماچھم جاناں
زخم جو تم نے دیے اُن کا سندیسہ یہ ہے
 بھیجنا اب نہ خُدارا کوئی مرہم جاناں
جل رہے تھے مِری پلکوں پہ جو یادوں کے چراغ
 اب تو اُن کی بھی لویں ہو گئیں مدھم جاناں

جب بھی کہتا ہوں کوئی تازہ غزل تیرے لیے

جب بھی کہتا ہوں کوئی تازہ غزل تیرے لیے
 میرے احساس میں کِھلتے ہیں کنول تیرے لیے
جانتا ہوں، کہ میرا دُشمنِ جاں ہے، پھر بھی
 دل کی ہر بات پہ کرتا ہوں عمل تیرے لیے
دُشمنی یوں تو کسی سے بھی نہیں ہے میری
 صرف حالات سے ہے جنگ و جدل تیرے لیے

اس دھرتی کے شیش ناگ کا ڈنک بڑا زہریلا ہے

اس دھرتی کے شِیش ناگ کا ڈنک بڑا زہریلا ہے
 صدیاں گزریں، آسماں کا رنگ ابھی تک نیلا ہے
 میں ہوں اپنے پیار پہ قائم اپنی رسمیں وہ جانیں
 اور ہے ذات حس،ینوں کی، اور اپنا اور قبیلہ ہے
میرے اُس کے ہونٹ ہلیں تو کِھلیں ہزاروں پھول، مگر
 کچھ تو میں چُپ رہتا ہوں، کچھ یار مِرا شرمیلا ہے

یہاں ظلم بندوں پہ جب ہو رہا تھا وہ کیوں چپ رہا

یہاں ظلم بندوں پہ جب ہو رہا تھا، وہ کیوں چُپ رہا
 مجھے پو چھنا ہے کہ وہ تو خُدا تھا، وہ کیوں چُپ رہا
فلک تک نہ پہنچا اگر بے نواؤں کا نالہ کوئی
 یہیں ایک طوفانِ آب و ہوا تھا، وہ کیوں چپ رہا
جو کمزور تھے اُن میں ہمت نہیں تھی کہ وہ بولتے
 مگر روز منبر یہ جو چیختا تھا، وہ کیوں چُپ رہا

تہ میں جو رہ گئے وہ موتی نکالئے

تہ میں جو رہ گئے وہ موتی نکالئے
 طغیانیوں کا ہاتھ سمندر میں ڈالئے
اپنی حدوں میں رہئے کہ رہ جائے آبرو
 اوپر جو دیکھنا ہے تو پگڑی سنبھالئے
خوشبو تو مدتوں کی زمیں دوز ہو چکی
 اب صرف پتیوں کو ہوا میں اچھالئے

تمناؤں کو سینے سے جدا ہونے نہیں دیتی

تمناؤں کو سینے سے جُدا ہونے نہیں دیتی
 محبت، درد سے نا آشنا ہونے نہیں دیتی
 اگر آنکھوں کے پردے میں کوئی نغمہ سلامت ہو
 تو خاموشی نظر کو بے صدا ہونے نہیں دیتی
مِرے غم کو وفا کے آئینے میں دیکھنے والے
 بس اِک ضد ہے کہ توہینِ وفا ہونے نہیں دیتی

دنیا مری آباد ہے جس راحت جاں سے

دُنیا مِری آباد ہے جس راحتِ جاں سے
 دیتا ہوں دُعائیں اُسے دھڑکن کی زُباں سے
حیرت سے وفائیں مِرا منہ دیکھ رہی ہیں
 شیشے کا خریدار ہوں، پتھر کی دُکاں سے
ایسا وہ کہاں جیسا غزل میں نظر آئے
 سب حُسن ہے اُس کا مِرے حُسنِ بیاں سے

شام کے سانولے چہرے کو نکھارا جائے

شام کے سانولے چہرے کو نکھارا جائے
 کیوں نہ ساغر سے کوئی چاند ابھارا جائے
راس آیا نہیں تسکین کا ساحل کوئی
 پھر مجھے پیاس کے دریا میں اتارا جائے
مہربان تیری نظر، تیری ادائیں قاتل
 تجھ کو کس نام سے اے دوست پکارا جائے

ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو

ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
 یارو! سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو
خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
 ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو
گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
 جتنے صنم ہیں، ان کو خدا کہہ لیا کرو

نیند کے گہرے سمندر میں جہاں غرقاب تھا

نیند کے گہرے سمندر میں جہاں غرقاب تھا
 ایک میں ساحل پہ تھا، سو ماہئ بے آب تھا
 کیا بتاؤں دوستو! اُن کے خیال آنے کا حال
 جھلملاتی جھیل میں لرزاں کوئی مہتاب تھا
اُس نے جھٹکا اپنی بھیگی زُلف کو اور اُس کے بعد
 دُور تک پھیلا ہوا سایوں کا اِک سیلاب تھا

صدمے جھیلوں جان پہ کھیلوں اس سے مجھے انکار نہیں ہے

صدمے جھیلوں، جان پہ کھیلوں اس سے مجھے انکار نہیں ہے
 لیکن تیرے پاس وفا کا کوئی معیار نہیں ہے
یہ بھی کوئی بات ہے آخر دُور ہی دُور رہیں متوالے
 ہرجائی ہے چاند کا جوبن، یا پنچھی کو پیار نہیں ہے
اِک ذرا سا دل ہے جس کو توڑ کے بھی تم جا سکتے ہو
 یہ سونے کا طوق نہیں، یہ چاندی کی دیوار نہیں ہے

جب کسی جام کو ہونٹوں سے لگایا میں نے

جب کسی جام کو ہونٹوں سے لگایا میں نے 
 رقص کرتا ہوا دیکھا تِرا سایا میں نے 
مجھ سے مت پوچھ، مِرے محتسبِ شہر سے پوچھ 
 کیوں تیری آنکھ کو پیمانہ بنایا میں نے؟
لوگ کہتے ہیں قصیدہ وہ تیرے حُسن کا تھا 
 عام سا گیت جو محفل میں سنایا میں نے 

وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے

وہ دل ہی کیا تِرے مِلنے کی جو دعا نہ کرے
 میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے
رہے گا ساتھ تِرا پیار زندگی بن کر
 یہ اور بات، مِری زندگی وفا نہ کرے
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں 
 خدا کسی سے کسی کو مگر جدا نہ کرے

خموش رہ کے بھی آنکھوں سے بات کرتا ہے

خموش رہ کے بھی آنکھوں سے بات کرتا ہے
 وہ چاندنی کے تکّلّم کو مات کرتا ہے
گلے مِلے نہ مِلے، کم مصافحہ بھی نہیں
 معطّر اب بھی ہمیں اس کا ہاتھ کرتا ہے
نِبھا رہے ہیں کُچھ ایسے ہم اس سے یارانہ
 عبور جیسے کوئی پُلِ صراط کرتا ہے

کر رہے قریہ قریہ زندگی کی جستجو میں اور تو

کر رہے قریہ قریہ زندگی کی جستجو، میں اور تُو
 ہو گئے آوارگی کے نام پر بے آبرو، میں اور تُو
تھے جہاں رسموں رواجوں کے اندھیروں پر فدا، اب اُس جگہ
 معذرت بن کر کھڑے ہیں روشنی کے روبرو، میں اور تُو
کُچھ دنوں سے میں تِری اور تُو مِری مہمان ہے، کیا شان ہے
 بن چکے ہیں عکسِ جاں اک دوسرے کا ہو بہو، میں اور تُو

نگاہوں میں خمار آتا ہوا محسوس ہوتا ہے

نگاہوں میں خُمار آتا ہوا محسوس ہوتا ہے 
 تصوّر جام چھلکاتا ہوا محسوس ہوتا ہے
خرامِ ناز اور اُن کا خرامِ ناز، کیا کہنا
 زمانہ ٹھوکریں کھاتا ہوا محسوس ہوتا ہے
تصوّر ایک ذہنی جستجو کا نام ہے شائد
 دل اُن کو ڈھونڈ کر لاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں

فلمی گیت

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
 میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا
تو مِلا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو
 یہ میری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے
اِک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر
 میں نے وہ سانس بھی تیرے لیے رکھ چھوڑی ہے

گاتے ہوئے پیڑوں کی خنَک چھاؤں سے آگے نکل آئے

گاتے ہوئے پیڑوں کی خُنَک چھاؤں سے آگے نکل آئے
 ہم دُھوپ میں جلنے کو تِرے گاؤں سے آگے نکل آئے
 ایسا بھی تو ممکن ہے، مِلے بے طلب اِک مژدۂ منزل
 ہم اپنی دُعاؤں سے، تمناؤں سے آگے نِکل آئے
 کہتے ہیں کہ ان جسموں کو اِک روحِ مقدّس کی دُعا ہے
 وہ جسم کہ جو اپنے تھکے پاؤں سے آگے نکل آئے

گرمی حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں

گرمئ حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں 
 ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں 
 شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لئے
 ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں 
 خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
 جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں 

شاید مرے بدن کی رسوائی چاہتا ہے

شائد مِرے بدن کی رُسوائی چاہتا ہے
 دروازہ میرے گھر کا، بِینائی چاہتا ہے
 اوقاتِ ضبط اس کو اے چشمِ تر بتا دے
 یہ دل سمندروں کی گہرائی چاہتا ہے
 شہروں میں وہ گُھٹن ہے، اس دور میں کہ انساں
 گمنام جنگلوں کی پُروائی چاہتا ہے

دن بھر ستانے کے لیے پیڑوں سے چھن کر آ گئی

دن بھر ستانے کے لیے پیڑوں سے چَھن کر آ گئی
 میرے لیے اِک تیِرگی، سُورج پہن کر آ گئی
میں زندگی کی تلخیاں جب چھوڑ کر جانے لگا
 وہ شکل میرے سامنے دیوار بن کر آ گئی
جو کچھ مجھے بخشا گیا کم تھا بُہت، روزِ ازل
 حیرت، کہ پھر میری انا کِس طرح مَن کر آ گئی

یہ بات پھر مجھے سورج بتانے آیا ہے

یہ بات پھر مجھے سُورج بتانے آیا ہے
 ازل سے میرے تعاقب میں میرا سایا ہے
 بلند ہوتی جا رہی ہیں دیواریں
 اسیرِ در ہے وہ، جس نے مجھے بُلایا ہے
 میں لازوال تھا مِٹ مِٹ کے پھر اُبھرتا رہا
 گنوا گنوا کے مجھے زندگی نے پایا ہے

کہوں کیا فسانہ غم اسے کون مانتا ہے

کہوں کیا فسانۂ غم اسے کون مانتا ہے
 جو گزر رہی ہے مجھ پر مِرا دل ہی جانتا ہے
 تُو صبا کا ہے وہ جھونکا جو گزر گیا چمن سے
 نہ وہ رونقیں ہیں باقی نہ کہیں سہانتا ہے
 اسے میں نصیب جانوں کہ بشر کی خود فریبی
 کوئی بھر رہا ہے دامن، کوئی خاک چھانتا ہے

یہ اداس اداس ٹھنڈک جو اسیر ہے پون میں

یہ اُداس اُداس ٹھنڈک، جو اسیر ہے پَوَن میں
 کہیں بجلیاں نہ بھر دے کسی گوشۂ چمن میں
 یہ عجیب فصلِ گُل ہے کہ کسی بھی گُل کی رنگت
 نہ جَچی مِری نظر میں، نہ رَچی تِرے بدن میں
میں طلوعِ نَو سے ابھی مطمئن نہیں ہوں
 تِرا حُسن بھی تو ہوتا کسی خُوشنما کِرن میں

بے کیف جوانی میں کیا کیا سامان خریدے جاتے ہیں

بے کیف جوانی میں کیا کیا سامان خریدے جاتے ہیں
 آہوں کے بگولے، اشکوں کے طوفان خریدے جاتے ہیں
 دل سے تو کوئی کیا چاہے گا اس اُجڑے ہوئے کاشانے کو
 مجبوری کا یہ عالم ہے، مہمان خریدے جاتے ہیں
 ہر چیز کا سودا چُکتا ہے دن رات بھرے بازاروں میں
 جھنکاریں بیچی جاتی ہیں، ایمان خریدے جاتے ہیں

نامہ بر اپنا ہواؤں کو بنانے والے

نامہ بر اپنا ہواؤں کو بنانے والے
 اب نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی جانے والے
کیا مِلے گا تجھے بکھرے ہوئے خوابوں کے سوا
 ریت پر چاند کی تصویر بنانے والے
سب نے پہنا تھا بڑے شوق سے کاغذ کا لباس
 جس قدر لوگ تھے بارش میں نہانے والے

وہ کھل کر اب کوئی جلوہ دکھانا چاہتا ہے

وہ کُھل کر اب کوئی جلوہ دِکھانا چاہتا ہے
 وہ کہتا ہے ”اُسے سارا زمانہ چاہتا ہے“
خُدا شاہد ہے بُری نِیّت نہیں رکھتا وہ قاتل
 تماشا رقصِ بسمل کا دِکھانا چاہتا ہے
وہ زخم آئیں گے جن کے ساتھ اِک مرہم بھی ہو گا
 نئے تیروں سے وہ ترکش سجانا چاہتا ہے

شوق جلوہ ہے مگر ذوق نظر نابینا ہے

شوقِ جلوہ ہے، مگر ذوقِ نظر نابینا ہے
 آئینے کے سامنے رکھا ہوا آئینہ ہے
صِرف اِک نظارہ دے کر لے گیا آنکھیں کوئی
 زندگی نے جو دِیا ا س سے زیادہ چِھینا ہے
پیاس یوں بھڑکی مری، احساس ایندھن بن گیا
 حسرتوں کی آگ سے روشن مرا اب سینہ ہے

سینے میں حسرتوں کی جلن چاہتا نہیں

سینے میں حسرتوں کی جلن چاہتا نہیں
 غم اب کوئی نیا، مرا من چاہتا نہیں
 وہ میرے شہر دل میں اگر آ بسا تو کیا
 وہ کون ہے جو اپنا وطن چاہتا نہیں
انسان تھا وہ غموں نے فرشتہ بنا دیا
 اب وہ تعلقاتِ بدن چاہتا نہیں

اے خدا اک ایسی تو مجھے زندگانی دے

دُعا

اے خُدا! اک ایسی تُو مجھے زندگانی دے
 جو مِرے اِرادوں کو، عُمرِ جاودانی دے
بات ابھی یہ کل کی ہے، میں تھا حرف کا حاکم
 کھو چُکا ہُوں میں جس کو، پھر وہ حُکمرانی دے
آج بھی کھڑا ہوں میں، بچپنے کی سرحد پر
 تُو مِری بلوغت کو، شعلۂ جوانی دے

یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو

یارو! کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
 اپنے ہی گلے کے لئے تلوار نہ مانگو 
گِر جاؤ گے تم اپنے مسِیحا کی نظر سے 
 مر کر بھی علاجِ دلِ بیمار نہ مانگو
سچ بات پہ مِلتا ہے صدا زہر کا پیالہ 
 جینا ہے تو پھر جرأتِ اظہار نہ مانگو

کہ گھنگرو ٹوٹ گئے

گیت

مجھے آئی نہ جَگ سے لاج 
 میں اتنے زور سے ناچی آج
 کہ گھنگرو ٹُوٹ گئے

 کچھ مجھ پہ نیا جوبن بھی تھا
 کچھ پیار کا پاگل پن بھی تھا
 کبھی پلک پلک مری تیر بنی
 کبھی زُلف مری زنجیر بنی
 لیا دل ساجن کا جیت
وہ چھیڑے پائلیا نے گیت
 کہ گھنگرو ٹُوٹ گئے

کھلونا

کھلونا

 اُڑا اُڑا سا رنگ ہے
 وہ آ رہی ہے جس طرح کٹی پتنگ ہے
 نڈھال انگ انگ ہے

عجیب رنگ ڈھنگ ہے 
 ایاغ ہے ، نہ باغ ہے، رباب ہے، نہ چنگ ہے
 ندامتوں میں جنگ ہے

بتاؤ کیا خریدو گے

گیت

بتاؤ کیا خریدو گے

 جوانی، حُسن، غمزے، عہد، پیماں، قہقہے، نغمے
 رسِیلے ہونٹ، شرمیلی نگاہیں، مرمریں بانہیں 
 یہاں ہر چیز بِکتی ہے
 خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے

 بھرے بازو، گٹھیلے جسم، چوڑے آہنی سینے
 بلکتے پیٹ، روتی غیرتیں، سہمی ہوئی آہیں 
 یہاں ہر چیز بِکتی ہے
 خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے

نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں

نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں 
 ہم تو پانی پہ بنائی ہوئی تصویریں ہیں 
 کیا خبر کب کسی انسان پہ چھت آن گرے
 قریۂ سنگ ہے اور کانچ کی تعمیریں ہیں 
 لُٹ گئے مفت میں دونوں، تری دولت، مِرا دل
 اے سخی! تیری مِری ایک سی تقدیریں ہیں 

کیا یقین اور کیا گماں چپ رہ

کیا یقین اور کیا گماں، چُپ رہ
شام کا وقت ہے میاں، چپ رہ
ہو گیا قصۂ وجود تمام
ہے اب آغازِ داستاں، چپ رہ
میں تو پہلے ہی جا چکا ہوں کہیں
تُو بھی جاناں نہیں یہاں، چپ رہ

ایک گلی تھی جب اس سے ہم نکلے

ایک گلی تھی جب اس سے ہم نکلے
ایسے نکلے، جیسے دم نکلے
کوچۂ آرزو جو تھا، اس میں
زُلفِ جاناں طرح کے خَم نکلے
جو پِھرے در بدر یہاں
وہ اپنے گھر سے بہت ہی کم نکلے

اللہ ہی دے گا، مولا ہی دے گا

دل ہے سوالی تجھ سے دل آرا، اللہ ہی دے گا، مولا ہی دے گا
آس ہے تیری ہی دلدارا، اللہ ہی دے گا، مولا ہی دے گا
پلکوں کی جھولی پھیلی ہے، پڑ جائیں اس میں کچھ کرنیں
تُو ہے دل آکاش کا تارا، اللہ ہی دے گا، مولا ہی دے گا
ایک صدا ہونٹوں پر لے کے، تیری گلی میں ہم روتے تھے
آ نکلا ہے اک بے چارہ، اللہ ہی دے گا، مولا ہی دے گا

Friday 24 January 2014

علم و فن کے دیوانے عاشقی سے ڈرتے ہیں

علم و فن کے دیوانے عاشقی سے ڈرتے ہیں
زندگی کے خواہاں ہیں زندگی سے ڈرتے ہیں
یوں تو ہم زمانے میں کب کسی سے ڈرتے ہیں
آدمی کے مارے ہیں آدمی سے ڈرتے ہیں
جل کے آشیاں اپنا خاک ہو چکا کب کا
آج تک یہ عالم ہے روشنی سے ڈرتے ہیں

اندھیری رات تھی گو چاند بھی تھا اور تارے بھی

اندھیری رات تھی گو چاند بھی تھا اور تارے بھی
مِری آنکھوں نے دیکھے ہیں خمارؔ ایسے نظارے بھی
کوئی عیش و مسرّت کے طلبگاروں سے کہہ دیتا
کہ گزرے تھے انہی راہوں سے پہلے غم کے مارے بھی
محبت سے الگ رہنا ہی بہتر حضرتِ ناصح
مگر اکثر سفینے ڈوب جاتے ہیں کنارے بھی

جانے والے آ نہیں تاب پشیمانی مجھے

جانے والے آ، نہیں تابِ پشیمانی مجھے
چھیڑتی رہتی ہے میرے گھر کی ویرانی مجھے
عشق نے بخشی ہے یہ کیسی پریشانی مجھے
اب نہ مشکل راس آتی ہے، نہ آسانی مجھے
میں نے جب دیکھا ہے اربابِ طرب کو غور سے
خشک آنکھوں میں نظر آئی ہے طغیانی مجھے

واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے

واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے
اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے
اک اشک نکل آیا یے یوں دیدۂ تر سے
جس طرح جنازہ کوئی نکلے بھرے گھر سے
رگ رگ میں عوض خون مے دوڑ رہی ہے
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مخمور نظر سے

آج ہم ناگہاں کسی سے مِلے

آج ہم ناگہاں کسی سے مِلے
مدتوں بعد زندگی سے مِلے
شمع کیا، چاند کیا، ستارے کیا
سلسلے سب کے تیرگی سے مِلے
پھول کر لیں نِباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے مِلے

جب وہ پشیمان نظر آئے ہیں

جب وہ پشیمان نظر آئے ہیں
موت کے سامان نظر آئے ہیں
ہو نہ ہو، آ گئی منزل قریب
راستے سُنسان نظر آئے ہیں
عشق میں سہمے ہوئے دو آشنا
مدتوں انجان نظر آئے ہیں

غمِ دنیا نے ہمیں جب کبھی ناشاد کیا

غمِ دنیا نے ہمیں جب کبھی ناشاد کیا
اے غمِ دوست تجھے ہم نے بہت یاد کیا
حُسن معصوم کو آمادہ بے داد کیا
مجھ کو خود میری تمناؤں نے برباد کیا
اشک بہہ بہہ کر مِرے خاک پہ جب گرنے لگے
میں نے تجھ کو تِرے دامن کو بہت یاد کیا

وہ مجھ سے میں اس سے جدا ہو گیا

وہ مجھ سے میں اس سے جدا ہو گیا
زمانے کا قرضہ ادا ہو گیا
جو بارش کو خاطر میں لاتا نہ تھا
وہ اونچا مکاں راستہ ہو گیا
بجھانا ہی تھا یوں بھی اپنا دِیا
چلو آندھیوں کا بَھلا ہو گیا

کیا جانے کون منزل راحت نظر میں ہے

کیا جانے کون منزلِ راحت نظر میں ہے
غربت میں ہے سکون نہ آرام گھر میں ہے
تم جگمگا کے جس شبوں کو چلے گئے
مدت سے وہ غریب تلاشِ سحر میں ہے
اے شیخ تُو نے کی ہی نہیں سیرِ میکدہ
جنت تِرے خیال، میری نظر میں ہے

اب اتنی راہ و رسم ہے زندگی سے

اب اتنی راہ و رسم ہے زندگی سے
کہ جیسے ملے اجنبی اجنبی سے
منہ اک اک کا تکتا ہوں میں بیکسی سے
سہارا نہ ٹوٹے کسی کا کسی سے
جدا ہو کے مجھ سے کوئی جا رہا ہے
گلے مل رہی ہے اجل زندگی سے

سیل حوادث سے نہ گھبرائیے

سیلِ حوادث سے نہ گھبرائیے
موجِ رواں بن کے گزر جائیے
زندگی میں ٹھوکریں بھی کھائیے
شرط مگر یہ ہے، سنبھل جائیے
دَم ہی نہ گُھٹ جائے کہیں عشق کا
اتنی توجہ بھی نہ فرمائیے

ہنسنے والے اب ایک کام کریں

ہنسنے والے اب ایک کام کریں
جشنِ گریہ کا اہتمام کریں
ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کریں
مجھ کو محرومئ نظارہ قبول
آپ جلوے نہ اپنے عام کریں

حال غم ان کو سناتے جا

حالِ غم ان کو سناتے جا
شرط یہ ہے مسکراتے جا
آپ کو جاتے نہ دیکھا جائے
شمع کو پہلے بجھاتے جا
شکریہ لُطفِ مسلسل کا
گاہے گاہے دل دُکھاتے جا

وہ جو آئے حیات یاد آئی

وہ جو آئے حیات یاد آئی
بُھولی بِسری سی بات یاد آئی
حالِ دل ان سے کہہ کے جب لوٹے
اُن سے کہنے کی بات یاد آئی
آپ نے دن بنا دیا تھا جسے
زندگی بھر وہ رات یاد آئی

بے قراری گئی قرار گیا

بے قراری گئی، قرار گیا
ترکِ عشق اور مجھ کو مار گیا
وہ جو آئے تو خشک ہو گئے اشک
آج غم کا بھی اعتبار گیا
ہم نہ ہنس ہی سکیں نہ ہی رو سکیں
وہ گئے، یا ہر اختیار گیا

یہ کن نشانوں پہ ظالم نے تیر مار دیئے

یہ کِن نشانوں پہ ظالم نے تیر مار دِیئے
کہ آدمی تو نہ مارے، ضمیر مار دیئے
چلا دی چوک میں گولی یہ فن اسی کا تھا
حریف مر نہ سکے، راہگیر مار دیئے
کبھی مرے نہیں زنداں کے جبر سے اتنے
کہ جتنے گھر کے دکھوں نے اسیر مار دیئے

جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں

جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں
 آج کل، ہم تِرے بارے میں بہت سوچتے ہیں
 کون حالات کی سوچوں کے تموّج میں نہیں
 ہم بھی بہہ کر اسی دھارے میں، بہت سوچتے ہیں
 ہُنرِ کوزہ گری نے انہیں بخشی ہے تراش
 یا یہ سب نقش تھے گارے میں، بہت سوچتے ہیں

دیا سا دل ہوں محبت کدوں میں جلتا ہوں

دِیا سا دل ہوں محبت کدوں میں جلتا ہوں
 لہو جلاتا ہوا، دل جلوں میں جلتا ہوں
 میں بار بار بُجھا ہوں جہاں ہواؤں سے
 میں بار بار انہی راستوں میں جلتا ہوں
 مجھے تو گھر کے اندھیروں نے بانٹ رکھا ہے
 میں اِک چراغ کئی طاقچوں میں جلتا ہوں

ہم کو نسبت نہ دو سمندر سے

ہم کو نِسبت نہ دو سمندر سے
 بھائی! ہم ٹوٹتے ہیں اندر سے
 کسی مسجد سے اور نہ مندر سے
 اس سے رشتے ہیں دل کے اندر سے
 جن کے دم سے ہے نامِ عشق بلند
 وہ تو کچھ لوگ تھے قلندر سے

مرضی ہے اس کی مجھ سے محبت نہیں کرے

مرضی ہے اس کی مجھ سے محبت نہیں کرے
 لیکن وہ میرے شہر سے ہجرت نہیں کرے
کہنا اسے کہ اپنی محبت نہیں ہے جرم
 لوگوں کو زخمِ دل کی وضاحت نہیں کرے
اِک شخص کی جدائی کوئی سانحہ نہیں
 اتنی سی بات پر وہ قیامت نہیں کرے

عبث ہم خاک کے پتلے نگوں تقدیر کیا کرتے

عبث ہم خاک کے پُتلے، نِگوں تقدیر کیا کرتے
مقدر میں نہیں تھا جو اُسے تسخیر کیا کرتے
نہیں تھا ہاتھ میں جس کے ہمارے درد کا درماں
دِکھا کر زخم ہم اپنا اُسے دل گیر کیا کرتے
ہمارے درمیاں تھا فاصلہ اِک ہاتھ کا، لیکن
پڑی تھی پاؤں میں رسموں کی جو زنجیر کیا کرتے

روتے روتے ہنسنے لگو گے ہنستے ہنستے رو جاؤ گے

روتے روتے ہنسنے لگو گے، ہنستے ہنستے رو جاؤ گے
پیار کسی سے کر کے دیکھو، میرے جیسے ہو جاؤ گے
کون ہے تم سے پہلے جس نے، غم کی ناؤ پار لگائی
اک دن تم بھی بوجھ غموں کا، ڈھوتے ڈھوتے سو جاؤ گے
جب بھی مجھ سے تم ملتے ہو، درد سنانے لگ جاتے ہو
ہم نے اپنا درد سنایا، رہ نہ سکو گے، رو جاؤ گے

Monday 20 January 2014

وہ بدنصیب ہیں جنہیں غم ناگوار ہے

وہ بدنصیب ہیں جنہیں غم ناگوار ہے
غم تو دلیلِ رحمتِ پروردگار ہے
غنچے ہیں، گل ہیں، سبزہ ہے، ابرِ بہار ہے
سب جمع ہو چکے ہیں، تِرا انتظار ہے
آگے جبِینِ شوق! تُجھے اختیار ہے
یہ دَیر ہے، یہ کعبہ ہے، یہ کُوئے یار ہے

محبت بھی کیا شے ہے اللہ جانے

محبت بھی کیا شے ہے، اللہ جانے
ہیں جتنی زبانیں ہیں، اُتنے افسانے
پِلا دی یہ ساقی نے کیا شے نہ جانے
پلٹ آئے ہیں میرے گزرے زمانے
ہمارے زمانے، تمہارے زمانے
جو مِل جائیں دونوں تو کیا ہو جانے

غم نہاں کو بھلایا مگر بھلا نہ سکے

غمِ نِہاں کو بُھلایا، مگر بھلا نہ سکے
لبوں کو چھیڑ لیا، دل سے مُسکرا نہ سکے
کچھ ایسی نیند تِرے غم کی چھاؤں میں آئی
کہ حادثاتِ زمانہ ہمیں جگا نہ سکے
مجھے تو اُن کی عبادت پہ رحم آتا ہے
جبِیں کے ساتھ جو سجدے میں دل جھکا نہ سکے

عشق خدا کی دین ہے عشق سے منہ نہ موڑیئے

عشق خُدا کی دَین ہے، عشق سے منہ نہ موڑیئے
چھوڑیئے زندگی کا ساتھ، دل کا ساتھ نہ چھوڑیئے
اپنے کہاں کے، غیر کیا، اب یہ جنون چھوڑیئے
درد کہیں ہو درد ہے، درد سے رِشتہ جوڑیئے
مُجھ کو سوچنا پڑے، آپ مِرے ہیں، یہاں نہیں
خوف بجا مگر ایسے منہ نہ موڑیئے

جھنجھلائے ہیں لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے اُنہیں ہم یاد آئے ہیں
دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں
اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دُنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مُسکرائے ہیں

ہم انہیں وہ ہمیں بھلا بیٹھے

ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے
دو گنہ گار زہر کھا بیٹھے
حالِ غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے
تِیر مارے تھے، تِیر کھا بیٹھے
آندھیو! جاؤ اب کرو آرام
ہم خُود اپنا دِیا بُجھا بیٹھے

ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں

تِرے دَر سے اٹھ کر جِدھر جاؤں میں
چلوں دو قدم اور ٹھہر جاؤں میں
اگر تُو خفا ہو تو پروا نہیں
تِرا غم خفا ہو تو مر جاؤں میں
تبسم نے اتنا ڈسا ہے مُجھے
کَلی مسکرائے تو ڈر جاؤں میں

اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھیئے​

اِک پَل میں اِک صدی کا مزا ہم سے پوچھیئے​
دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھیئے​
بُھولے ہیں رفتہ رفتہ اُنہیں مدّتوں میں ہم​
قِسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھیئے​
آغازِعاشقی کا مزا آپ جانیئے​
انجامِ عاشقی کا مزا ہم سے پوچھیئے​

یہ مصرع نہیں ہے وظیفہ مرا ہے

یہ مِصرع نہیں ہے وظیفہ مِرا ہے
خدا ہے محبت، محبت خدا ہے
کہوں کس طرح میں کہ وہ بے وفا ہے
مجھے اس کی مجبوریوں کا پتا ہے
ہَوا کو بہت سرکشی کا نشہ ہے
مگر یہ نہ بھولے دِیا بھی دِیا ہے

حسن جب مہرباں ہو تو کیا کیجئے

حسن جب مہرباں ہو تو کیا کیجئے
عشق کی مغفرت کی دعا کیجئے
اس سلیقے سے ان سے گِلہ کیجئے
جب گِلہ کیجئے، ہنس دیا کیجئے
دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجئے

کبھی جو میں نے مسرت کا اہتمام کیا

کبھی جو میں نے مسرت کا اہتمام کِیا
بڑے تپاک سے غم نے مجھے سلام کِیا
ہزار ترکِ تعلق کا اہتمام کِیا
مگر جہاں وہ مِلے، دل نے اپنا کام کِیا
زمانے والوں کے ڈر سے اٹھا نہ ہاتھ، مگر
نظر سے اس نے بصد معذرت سلام کِیا

نہ ہارا ہے عشق نہ دنیا تھکی ہے

نہ ہارا ہے عشق، نہ دنیا تھکی ہے
دِیا جل رہا ہے، ہَوا چل رہی ہے
سکوں ہی سکوں ہے خوشی ہی خوشی ہے
تیرا غم سلامت، مجھے کیا کمی ہے
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے

وہ سوا یاد آئے بھلانے کے بعد

وہ سوا یاد آئے بھلانے کے بعد
زندگی بڑھ گئی زہر کھانے کے بعد
دل سُلگتا رہا آشیانے کے بعد
آگ ٹھنڈی ہوئی اِک زمانے کے بعد
روشنی کے لئے گھر جلانا پڑا
کیسی ظُلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شِدّت نہیں رہی
ضعفِ قویٰ نے آمدِ پِیری کی دی نوید
وہ دل نہیں رہا، وہ طبیعت نہیں رہی
سر میں وہ انتظار کا سودا نہیں رہا
دل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی

Sunday 19 January 2014

خواب ہوتا ہے نہ تعبیر نئی ہوتی ہے

خواب ہوتا ہے، نہ تعبیر نئی ہوتی ہے
 پھر بھی ہر آنکھ میں تصویر نئی ہوتی ہے
 جلد بازی میں پہنچ جاتے ہیں ہم اور کہیں
 اپنی عُجلت میں بھی تاخیر نئی ہوتی ہے
 یہ جو ہم اپنے خیالات میں گُم ہوتے ہیں
 اپنے اندر کوئی تعمیر نئی ہوتی ہے

بات جو کہنے لگا ہوں وہ گوارا کر لے

بات جو کہنے لگا ہوں، وہ گوارا کر لے
 تُو مجھے دل سے نہیں، جان سے پیارا کر لے
 ہنسنے والے تو تُجھے اور بھی مِل جائیں گے
 رونے والوں کو ذرا دیر گوارا کر لے
 دشت کے پہلو سے دریا بھی نِکل سکتا ہے
 تُو اگر چاند ہے تو مُجھ کو ستارہ کر لے

اک عمر کا ملال مرے ساتھ ساتھ ہے

اِک عمر کا ملال مِرے ساتھ ساتھ ہے
 یعنی کوئی خیال مِرے ساتھ ساتھ ہے
 وہ پیڑ ہوں کہ جس سے پرندے بھی اُڑ گئے
 کیوں کر اُڑے، سوال مِرے ساتھ ساتھ ہے
 اُڑنے لگا ہوں جب سے میں ٹُوٹے پروں کے ساتھ
 سوچوں کا ایک جال مِرے ساتھ ساتھ ہے

بہتے ہوئے دریا کی روانی کو سمجھتا

بہتے ہوئے دریا کی روانی کو سمجھتا
 لگتی جو تُجھے پیاس تو پانی کو سمجھتا
 کرنا تھا تُجھے عشق تو پھر عشق سے پہلے
 بہتر تھا محبت کے معانی کو سمجھتا
 دیتا نہ کبھی ٹُوٹنے پندارِ محبت
 اے کاش تُو خُود میری کہانی کو سمجھتا

اس سے بڑھ کر کہوں میں کیا مرشد

اِس سے بڑھ کر کہوں میں کیا مُرشد
 میرے حق میں بھی کر دُعا مُرشد
 مجھ سے مِٹتے ہوئے نظارے کو
 کچھ نہ کچھ تو مِلے بقا مُرشد
 میں نے جو عشق کر کے چھوڑا تھا
 دے رہا ہے مجھے سزا مُرشد

فلک سے دور نیا آسماں بناتے ہوئے

فلک سے دُور نیا آسماں بناتے ہوئے
 ستارہ راکھ ہوا کہکشاں بناتے ہوئے
 مِلی نہیں مجھے یونہی مُراد کی منزل
 غُبار ہونا پڑا، کارواں بناتے ہوئے
 میں خود ہی جلنے لگا سُرخ آگ میں اپنی
 دُھویں کے ساتھ دِیئے کا نشاں بناتے ہوئے

کچھ ایسے بے بسی نے ہے رکھا بھرم مِرا

کچھ ایسے بے بسی نے ہے رکھا بھرم مِرا
 مجھ پر نہ آشکار ہوا کوئی غم مِرا
 پھر یوں ہوا کہ میری بھی مٹی اُکھڑ گئی
 گوشہ ہوا تھا آنکھ کا، تھوڑا سا نَم مِرا
اِک آہُوئے خیال ہوں، اور دشتِ بے مُراد
 جاری ہے ایک عرصہ ہوا مجھ میں رَم مِرا

خواب دیکھے بنا تعبیر سے بندھ کر بیٹھا

خواب دیکھے بِنا تعبیر سے بندھ کر بیٹھا
 میں کہ موہُوم سی زنجیر سے بندھ کر بیٹھا
 مجھ کو دیکھا گیا اِس شہر میں حیرانی سے
 جلد بازوں میں جو تاخیر سے بندھ کر بیٹھا
وہ بھی مامور مِری ذات کی مسماری پر
 میں بھی اِک حسرتِ تعمیر سے بندھ کر بیٹھا

Saturday 18 January 2014

اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں

اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
 تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں
 یوں مہ و انجم کی وادی میں اڑے پھرتے ہیں وہ
 خاک کے ذروں پہ جیسے پاؤں دھرنا ہی نہیں
 ان کا دعویٰ ہے کہ سورج بھی انہی کا ہے غلام
 شب جو ہم پر آئی ہے اس کو گزرنا ہی نہیں

دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا

دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا
اپنا شریکِ درد بنائیں کسی کو کیا
ہر شخص اپنے اپنے غموں میں ہے مبتلا
زنداں میں اپنے ساتھ رلائیں کسی کو کیا
بچھڑے ہوئے وہ یار وہ چھوڑے ہوئے دیار
رہ رہ کے ہم کو یاد جو آئیں کسی کو کیا

وہ دیکھنے مجھے آنا تو چاہتا ہو گا

وہ دیکھنے مجھے آنا تو چاہتا ہو گا
مگر زمانے کی باتوں سے ڈر گیا ہو گا
اسے تھا شوق بہت مجھ کو اچھا رکھنے کا
یہ شوق اوروں کو شاید برا لگا ہو گا
کبھی نہ حدِ ادب سے بڑھے تھے دیدہ و دل
وہ مجھ سے کس لیے کس بات پر خفا ہو گا

دیارِ داغ و بیخود شہرِ دہلی چھوڑ کر تجھ کو​

شہرِ دہلی​

دیارِ داغ و بیخود شہرِ دہلی چھوڑ کر تجھ کو​
نہ تھا معلوم یوں روئے گا دل شام و سحر تجھ کو​
کہاں مِلتے ہیں دنیا کو، کہاں مِلتے ہیں دنیا میں​
ہوئے تھے جو عطا اہلِ سخن اہلِ نظر تجھ کو​
تُجھے مرکز کہا جاتا تھا دنیا کی نگاہوں کا​
محبت کی نظر سے دیکھتے تھے سب نگر تجھ کو​

جب درمیاں ہمارے یہ سنگدل زمانہ دیوار چن رہا تھا

جب درمیاں ہمارے، یہ سنگدل زمانہ، دیوار چُن رہا تھا
 میں ضبط کی حدوں میں، تیری خموشیوں کی گُفتار سُن رہا تھا
 عرض و طلب کا نغمہ، کل رات جب چھیڑا تھا اِک سازِ بے صدا پر
 تھا محو میں بھی لیکن، سر بیخودی میں تو بھی، ہر بار دُھن رہا تھا
 روزِ ازل سے مجھ کو، بت خانۂ وفا سے، تھی اِس لئے عقیدت
 بِکھرے ہوئے بُتوں سے، میں اپنی عظمتوں کے، شہکار چُن رہا تھا

جو بھی غنچہ تیرے ہونٹوں پر کھلا کرتا ہے

جو بھی غُنچہ تیرے ہونٹوں پر کھِلا کرتا ہے
وہ میری تنگئ داماں کا گِلہ کرتا ہے
دیر سے آج میرا سر ہے تیرے زانوں پر
یہ وہ رُتبہ ہے جو شاہوں کو مِلا کرتا ہے
میں تو بیٹھا ہوں دبائے ہوئے طوفاں کو
تو میرے دل کے دھڑکنے کا گِلہ کرتا ہے

ہجر کی پہلی شام کے سائے دور افق تک چھائے تھے

ہِجر کی پہلی شام کے سائے دُور اُفق تک چھائے تھے
ہم جب اُس کے سحر سے نکلے سب رستے ساتھ لائے تھے
جانے وہ کیا سوچ رہا تھا اپنے دل میں ساری رات
پیار کی باتیں کرتے کرتے اُس کے نین بھر آئے تھے
میرے اندر چلی تھی آندھی ٹھیک اسی دن پت جھڑ کی
جس دن اپنے جُوڑے میں اس نے کچھ پھول سجائے تھے

میں کل تنہا تھا، خلقت سو رہی تھی

میں کل تنہا تھا، خلقت سو رہی تھی
 مجھے خُود سے بھی وحشت ہو رہی تھی
 اُسے جکڑا ہُوا تھا زندگی نے
 سرہانے موت بیٹھی رو رہی تھی
کُھلا مجھ پر کہ میری خوش نصیبی
 میرے رَستے میں کانٹے بَو رہی تھی

کبھی جوعہد وفا میری جاں تیرے میرے درمیان ٹوٹے

کبھی جوعہدِ وفا میری جاں تیرے میرے درمیان ٹُوٹے
میں چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے زمیں پہ یہ آسمان ٹُوٹے
تیری جُدائی میں‌ حوصلوں کی شکست دل پر عذاب ٹھہری
کہ جیسے منہ زور زلزلوں کی دھمک سے کوئی چٹان ٹُوٹے
اسے یقیں تھا کہ اس کو مرنا ہے پھر بھی خواہش تھی اس کے دل میں
کہ تیر چلنے سے پیشتر دستِ دُشمناں میں کمان ٹُوٹے

ترک محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے

ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبطِ محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بِیت چُکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے
ڈُوبتا سُورج دیکھ کے خُوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دُکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے

اب کے سفر میں تشنہ لبی نے

اب کے سفر میں تشنہ لبی نے، کیا بتلائیں، کیا کیا دیکھا
صحراؤں کی پیاس بجھاتے دریاؤں کو پیاسا دیکھا
شاید وہ بھی سرد رُتوں کے چاند سی قسمت لایا ہو گا
شہر کی بِھیڑ میں اکثر جس کو ہم نے تنہا تنہا دیکھا
چارہ گروں کی قید سے چُھوٹے، تعبیریں سب راکھ ہوئی ہیں
اب کے دل میں درد وہ اترا، اب کے خواب ہی ایسا دیکھا

ہر دھڑکن ہیجانی تھی، ہر خاموشی طوفانی تھی

ہر دھڑکن ہیجانی تھی، ہر خاموشی طوفانی تھی
 پھر بھی محبت صرف مسلسل مِلنے کی آسانی تھی
 جس دن اس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں
 جس دن اُس کا خط آیا تھا، اس دن بھی ویرانی تھی
 جب اس نے مجھ سے یہ کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں
 تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی

یارو نگہ یار کو یاروں سے گلہ ہے​

یارو! نگہ یار کو، یاروں سے گِلہ ہے​
خونِیں جگروں، سینہ فگاروں سے گلہ ہے​
جاں سے بھی گئے، بات بھی جاناں کی نہ سمجھی​
جاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گلہ ہے​
اب وصل ہو یا ہجر، نہ اب تک بسر آیا​
اِک لمحہ، جسے لمحہ شماروں سے گلہ ہے​

تمہارے اور میرے درمیاں اک بات ہونا تھی

تمہارے اور میرے درمیاں اِک بات ہونا تھی
بلا کا دن نکلنا تھا، بلا کی رات ہونا تھی
بلا کا دن بھی نکلا اور بلا کی رات بھی گزری
عذابِ ذات بھی گزرا، فنائے ذات بھی گزری

مگر معلوم نامعلوم میں جانے نہ جانے کیوں
تمہارے اور میرے درمیاں وہ بات جانم جاں

یہ رنگ لال مرے ساتھ ساتھ رہتا ہے

یہ رنگ لال مِرے ساتھ ساتھ رہتا ہے
 سمے کا جال، مِرے ساتھ ساتھ رہتا ہے؟
 میں آنسوؤں کے سمندر میں مُسکراتی رہی
 یہی کمال مِرے ساتھ ساتھ رہتا ہے
 میں اسکو بھول چکی ہوں تو یاد کیوں ہے مجھے
 یہی سوال مِرے ساتھ ساتھ رہتا ہے

اک تو وہ ہم سے بدگمان بھی ہے

اِک تو وہ ہم سے بدگمان بھی ہے
 پھر، نیا سامنے جہان بھی ہے  
زندگی کا یہ سلسلہ ہی نہیں
 دل، محبت کا ترجمان بھی ہے
 زخم چہرے پہ انگنت ہیں، مگر
 آئینے میں کوئی نشان بھی ہے

ہم عشق کے خمار سے باہر نہیں گئے

ہم عشق کے خمار سے باہر نہیں گئے
 دھڑکن کے اضطرار سے باہر نہیں گئے
 تُو ہم سے پوچھتا ہے سمندر کا کیا بنا
 ہم تو تِرے دیار سے باہر نہیں گئے
 وہ لفظ لفظ لکھتا رہا، داستانِ دل
 ہم ہیں، کہ اختصار سے باہر نہیں گئے

ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے

ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سُنو تو بہتر ہے
 دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے
 کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے وہ کل مِٹ جائے گا
 رُوکھی سُوکھی جو مِل جائے شکر کرو تو بہتر ہے
 کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو
نامِ خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے

نیت شوق بھر نہ جائے کہیں

نِیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
 تُو بھی دل سے اُتر نہ جائے کہیں
 آج دیکھا ہے تُجھ کو دیر کے بعد
 آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
 نہ مِلا کر اداس لوگوں سے
 حُسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

اداسی میں گھرا تھا دل چراغ شام سے پہلے

اداسی میں گِھرا تھا دل، چراغِ شام سے پہلے
 نہیں تھا کُچھ سرِ محفل، چراغِ شام سے پہلے
 حُدی خوانو، بڑھاؤ لَے، اندھیرا ہونے والا ہے
 پہنچنا ہے سرِ منزل، چراغِ شام سے پہلے
 دلوں میں اور ستاروں میں اچانک جاگ اٹھتی ہے
 عجب ہلچل، عجب جھل مِل، چراغِ شام سے پہلے

رات میں اس کشمکش میں ایک پل سویا نہیں

رات میں اِس کشمکش میں ایک پَل سویا نہیں
 کل میں جب جانے لگا تو اس نے کیوں روکا نہیں
 یُوں اگر سوچوں تو اِک اِک نقش ہے سینے پہ نقش
 ہائے وہ چہرہ، کہ پھر بھی آنکھ میں بنتا نہیں
 کیوں اڑاتی پھر رہی ہے دربدر مجھ کو ہوا
 میں اگر اِک شاخ سے ٹوٹا ہوا پتّا نہیں

رتوں کے ساتھ دلوں کی وہ حالتیں بھی گئیں

رُتوں کے ساتھ دلوں کی وہ حالتیں بھی گئیں
 ہوا کے ساتھ، ہوا کی امانتیں بھی گئیں
 تیرے کہے ہوئے لفظوں کی راکھ کیا چھیڑیں
 ہمارے اپنے قلم کی صداقتیں بھی گئیں
 جو آئے جی میں پکارو مجھے، مگر یوں ہے
 کہ اُس کے ساتھ اُس کی محبتیں بھی گئیں

آنکھوں کو نہیں سوجھتا آزار کہاں ہے

آنکھوں کو نہیں سُوجھتا، آزار کہاں ہے
 احساس کے تلوے میں چُھپا خار کہاں ہے
 جو جھاگ سا اُٹھا تھا کبھی اپنے سروں سے
 اب دیکھیے وہ طرۂ پندار کہاں ہے
 ہلچل سی مچا دیتا تھا جو کاسۂ خوں میں
 جو دشمنِ جاں تھا، وہ مرا یار کہاں ہے

پڑے ہیں دیکھنے کیا کرب آشکار کے دن

پڑے ہیں دیکھنے کیا کربِ آشکار کے دن
 زوالِ عمر کے دن، ٹُوٹتے خمار کے دن
 بنامِ کم نظراں، لطفِ لمحۂ گزراں
 ہمارے نام نئی رُت کے انتظار کے دن
 بدن سے گردِ شرافت نہ جھاڑ دیں ہم بھی
 لپک کے چھین نہ لیں ہم بھی کچھ نکھار کے دن

رگ بہ رگ پیہم لئے برگ و ثمر کا انتظار

رگ بہ رگ پیہم لئے برگ و ثمر کا انتظار
 ختم ہونے ہی نہیں پاتا شجر کا انتظار
 کوئی منزل ہو ٹھہرتی ہے وہ کیوں مل کر سراب
 ہر مسافر کو ہے کیوں تازہ سفر کا انتظار
 رزق تک بھی روٹھنے کو جیسے ہم ایسوں سے ہے
 جو بھی ہے کھلیان اُس کو ہے شرر کا انتظار

Friday 17 January 2014

ہوتا ہی تو رہتا ہے وہ تاراج مسلسل

ہوتا ہی تو رہتا ہے وہ تاراج مسلسل
جس ملک پہ پَل پڑتی ہوں افواج مسلسل
جو تاج پہن لے وہ یہی کرتا ہے خواہش
قائم رہے تا حشر مِرا راج مسلسل
اِک وقت تھا، اس ملک میں تھی تاج کی عزت
فٹ بال بنا پِھرتا ہے اب تاج♚ مسلسل⚽

میں پوچھتا ہوں کہ یہ کاروبار کس کا ہے

میں پوچھتا ہوں کہ یہ کاروبار کس کا ہے
یہ دل مِرا ہے، مگر اختیار کس کا ہے
یہ کس کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہو فرحتؔ جی
یہ مدتوں سے تمہیں انتظار کس کا ہے
تڑپ تڑپ کے یہ جب سرد ہونے لگتا ہے
تو پوچھتے ہیں دلِ بے قرار کس کا ہے

آپ مت کہیے مری آہ کے نم کو کچھ بھی

آپ مت کہیے مِری آہ کے نَم کو کچھ بھی 
کچھ بھی ہو سکتا ہے اُکھڑے ہوئے دَم کو کچھ بھی
ہے دُعا ہو نہ کبھی میرے صنم کو کچھ بھی
ورنہ میں تو سمجھتا نہیں غم کو کچھ بھی
یہ ولایت بھی ہے دیوانگی بھی، زحمت بھی
آپ کہہ سکتے ہیں اس میرے الم کو کچھ بھی

بے چین مزاجی میں عجب کچھ بھی نہیں تھا

بے چین مزاجی میں عجب کچھ بھی نہیں تھا
سوچا تو بچھڑنے کا سبب کچھ بھی نہیں تھا
اس بخت میں اب لاکھ زمانہ تُجھے چاہے
ہم نے تو تُجھے چاہا، تُو جب کچھ بھی نہیں تھا
تُو نے میری جاں جھانک کے دیکھا نہ تھا دل میں
چہرے پہ جو تھا وہ تو غضب کچھ بھی نہیں تھا

رات آ جائے مری راہ میں یا شام آئے

رات آ جائے مِری راہ میں، یا شام آئے
میری بے چینی سے کہہ دو مِرے کام آئے
میں ہر اِک رُت کی طرف تکتا ہوں ویرانی سے
شاید اس بار کہیں‌ سے تِرا پیغام آئے
خُوشگمانی بھی عجب ہے کہ ہمیشہ مجھ میں
تیری امید کا اِک عجب چاند سرِ بام آئے

مجھ سے مل کر تیرے چہرے پہ اجالے پڑ جائیں

مجھ سے مِل کر تیرے چہرے پہ اُجالے پڑ جائیں
شہر کے لوگ ہمیں دیکھ کے کالے پڑ جائیں
میں رہوں چُپ تو سبھی چیخ پڑیں وحشت سے
میں سوالات کروں تو ہونٹوں پہ تالے پڑ جائیں
میں نہیں ہوتا ہوں تو فرعون بنے پھرتے ہیں
دیکھ کر مجھ کو جنہیں جان کے لالے پڑ جائیں

نہ رنگ روپ کی طرح نہ خد و خال کی طرح

نہ رنگ رُوپ کی طرح نہ خد و خال کی طرح
وہ میرے من میں ‌آ بسا کسی ملال کی طرح
وہ میری سب ریاضتوں میں میرے ساتھ ساتھ ہے
کبھی جواب کی طرح، کبھی سوال کی طرح 
کبھی کبھی تو کتنا سخت ہے، مگر کبھی کبھی
تُو کس قدر لطیف ہے، میرے خیال کی طرح

ہاں یہ ہو گا کہ ذرا دل کو سنبھالے دے گا

ہاں یہ ہو گا کہ ذرا دل کو سنبھالے دے گا 
ورنہ یہ خوابِ سفر آنکھ کو چھالے دے گا
کون راتوں کو جلائے گا تِری یادوں کو
کون یوں بعد مِرے تجھ کو اُجالے دے گا
دیس سے دُور رہو ورنہ یہ آزاد وطن
بیڑیاں پاؤں کو اور ہونٹ کو تالے دے گا

روح پہ اب افتاد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے

رُوح پہ اب اُفتاد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے
رہ رہ کر جب یاد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے
آنکھ نے اتنے شہر اُجڑتے دیکھے ہیں کہ رَستے میں
اب بستی آباد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے
وہ لڑکی جو دُشمن کا ہر حملہ ہنس کے سہتی ہے 
اپنوں کی امداد کوئی آئے تو گھبرا جاتی ہے

کفن باندھے ہوئے یہ سارا شہر جا رہا ہے کیوں

کفن باندھے ہوئے یہ سارا شہر جا رہا ہے کیوں
سُوئے مقتل ہی ہر رَستہ ہمارا جا رہا ہے کیوں
مسلسل قتل ہونے میں بھی اِک وقفہ ضروری ہے
سرِ مقتل، ہمِیں کو پھر پکارا جا رہا ہے کیوں
ہمیں آسودہ غم دیکھنا بھی شاک ہے اس پر
تہِ گردابِ غم سے پھر ابھارا جا رہا ہے کیوں

تمہیں ‌جفا سے نہ یوں‌ باز آنا چاہئے تھا​

تمہیں ‌جفا سے نہ یوں‌ باز آنا چاہئے تھا​
ابھی کچھ اور میرا دل دُکھانا چاہئے تھا​
طویل رات کے پہلو میں کب سے سوئی ہے​
نوائے صبح تجھے جاگ جانا چاہئے تھا​
بہت قلق ہوا حیرت زدہ طوفانوں کو​
کہ کون ڈُوبے کنہیں ‌ڈوب جانا چاہئے تھا​

ہم سے کہیے درد کے قصے

برسات

ہم سے کہیے درد کے قصے
ہم سے کیجئے رنج کی بات
ہم پر بِیتے کیا کیا موسم
تنہا دل، لاکھوں آفات
آج ہی دل کچھ ٹھہرا تھا
اور آج ہی آنکھیں کچھ خشک سی تھیں

میرے کام بہت آتا ہے اک انجانا غم

میرے کام بہت آتا ہے، اِک انجانا غم
روز خوشی میں ڈھل جاتا ہے اِک انجانا غم
دن بھر میں اور کارِ زمانہ، لیکن شام ڈھلے
ساتھ مِرے گھر آ جاتا ہے، اِک انجانا غم
جانے پہچانے سارے غم بجھنے لگتے ہیں
اس دل پر جب لہراتا ہے اِک انجانا غم

میر کو بدنام کرتا پھر رہا ہے شہر میں

میر کو بدنام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
ایک شاعر کام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
خود کو جو خلوت نشینِ ذات کہتا تھا، وہی
نامہ و پیغام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں
بیچنے کو کچھ نہیں اس یوسفِؑ ثانی کے پاس
بھائی کو نِیلام کرتا پِھر رہا ہے شہر میں

سچ کہا اے صبا صحن گلزار میں دل نہیں لگ رہا

سچ کہا اے صبا! صحنِ گلزار میں، دل نہیں لگ رہا
سایہٴ سبز میں صحبتِ یار میں، دل نہیں لگ رہا
روپ کیا شہر کا، شکل کیا گاؤں کی، دھوپ اور چھاؤں کی
ایک تکرار ہے اور تکرار میں، دل نہیں لگ رہا
وہ بدن اب کہاں، پیرہن اب کہاں، بانکپن اب کہاں
سب بیاباں ہوا، تیرے بازار میں، دل نہیں لگ رہا

ڈُوبتی ناؤ تم سے کیا پوچھے

ڈوبتی ناؤ تم سے کیا پُوچھے
ناخداؤ! تمہیں خدا پوچھے
کس کے ہاتھوں میں کھیلتے ہو تم
اب کھلونوں سے کوئی کیا پوچھے
ہم ہیں اس قافلے میں قسمت سے
رہزنوں سے جو راستہ پوچھے

عاجز تھا بے عجز نبھائی رسم جدائی میں نے بھی

عاجز تھا، بے عجز نبھائی رسمِ جدائی میں نے بھی
اس نے مجھ سے ہاتھ چھڑایا، جان چھڑائی میں نے بھی
جنگل کے جل جانے کا افسوس ہے، لیکن کیا کرتا
اس نے میرے پیڑ گرائے، آگ لگائی میں نے بھی
اس نے اپنے بکھرے گھر کو پھر سے سمیٹا، ٹھیک کیا
اپنے بام و در پہ بیٹھی گرد اڑائی میں نے بھی

دشت کی تیز ہواؤں میں بکھر جاؤ گے کیا

دشت کی تیز ہواؤں میں بکھر جاؤ گے کیا
ایک دن گھر نہیں جاؤ گے تو مر جاؤ گے کیا
پیڑ نے چاند کو آغوش میں لے رکھا ہے
میں تمہیں روکنا چاہوں تو ٹھہر جاؤ گے کیا
یہ زمستانِ تعلّق، یہ ہوائے قُربت
آگ اوڑھو گے نہیں یونہی ٹھٹھر جاؤ گے کیا

فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے

فضا میں رنگ، ستاروں میں روشنی نہ رہے
 ہمارے بعد، یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
 خیالِ خاطرِ احباب واہمہ ٹھہرے
 اِس انجمن میں کہیں رسمِ دوستی نہ رہے
 فقیہِ شہر کلامِ خُدا کا تاجر ہو
 خطیبِ شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے

ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا

احرار

ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کاصلہ آہنی زنجیریں تھیں
سرفروشوں کے لیے دار و رسن قائم تھے
خانزادوں کے لیے مفت کی جاگیریں تھیں
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں

تماشا دکھا کر مداری گئے

اقتباس از ساقی نامہ

خبر آ گئی راج دھاری گئے
تماشا دکھا کر مداری گئے
شہنشہ گیا، نو رتن بھی گئے
مصاحب اٹھے، ہم سخن بھی گئے
سیاست کو زیر و زبر کر گئے
اندھیرے اجالے سفر کر گئے

انتخاب انتخاب اے انتخاب

انتخاب، انتخاب اے انتخاب

قوم کے ہمدرد جاگ اُٹھے کہ اُبھرا آفتاب
اوڑھ لی ہر راہزن نے رہنمائی کی نقاب
انتخاب، انتخاب اے انتخاب
جگمگا اُٹھا فقیہِ شہر کا مدھم چراغ
بیچتے پھرتے ہیں واعظ سینۂ مِلّت کے داغ
انتخاب، انتخاب اے انتخاب

یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں

یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں

پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آ رہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
شہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے

غریب شہر ہوں لیکن بلند بام ہوں میں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

غریبِ شہر ہوں لیکن بلند بام ہوں میں
حضور سرورِ کونینﷺ کا غلام ہوں میں
کسی حریف سے دبنا مِرا شعار نہیں
بپاسِ جادہ و منزل خجستہ گام ہوں میں
مِرا سلام نئی پود کے جوانوں کو
حکیم شرق کا ان کے لیے پیام ہوں میں

تیرے ثنا خواں عالم عالم

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام

تیرے ثنا خواں عالم عالم
صلی اللہ علیہ و سلم 
ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم
  صلی اللہ علیہ وسلم
تیرے ثنا خواں عالم عالم
صلی اللہ علیہ وسلم

ستم کے بعد اب ان کی پشیمانی نہیں جاتی

سِتم کے بعد اب ان کی پشیمانی نہیں جاتی
نہیں جاتی نظر کی فِتنہ سامانی نہیں جاتی
نمودِ جلوۂ بے رنگ سے ہوش اس قدر گُم ہیں
کہ پہچانی ہوئی صُورت بھی پہچانی نہیں جاتی
پتہ مِلتا نہیں اب آتشِ وادئ ایمن کا
مگر مِینائے مئے کی نُورافشانی نہیں جاتی

اس طرح چھیڑئے افسانہ ہجراں کوئی

اس طرح چھیڑئے افسانۂ ہِجراں کوئی
آج ثابت نظر آئے نہ گریباں کوئی
خِرمنِ گل سے لپٹ کر وہیں مر جانا تھا
اب کرے کیوں گلۂ تنگئی داماں کوئی
دل میں اِک بُوند لہو کی نہیں، رونا کیسا
اب ٹپکتا نہیں آنکھوں سے گلستاں کوئی

شعور غم نہ ہو فکر مآل کار نہ ہو

شعورِ غم نہ ہو، فکرِ مآلِ کار نہ ہو
قیامتیں بھی گزر جائيں ہُشیار نہ ہو
وہ دستِ ناز جو معجز نمائياں نہ کرے
لحد کا پھول، چراغِ سرِ مزار نہ ہو
اٹھاؤں پردۂ ہستی، جو ہو جہاں نہ خراب
سناؤں راز حقیقت، جو خوفِ دار نہ ہو

نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر نہ یہ پیمانہ بنے

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
 جانِ مئے خانہ، تِری نرگسِ مستانہ بنے
مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے
 ہوش رکھتا ہو جو انسان تو دیوانہ بنے
پرتَوِ رُخ کے کرشمے تھے سرِ راہگزار
 ذرّے جو خاک سے اُٹھے، وہ صنم خانہ بنے

عشق کی فطرت ازل سے حسن کی منزل میں ہے

عشق کی فطرت ازل سے حُسن کی منزل میں ہے
قیس بھی محمل میں ہے، لیلیٰ اگر محمل میں ہے
جُستجُو ہے زندگی، ذوقِ طلب ہے زندگی
زندگی کا راز لیکن دوریِٔ منزل میں ہے
لالہ و گُل تم نہیں ہو، ماہ و انجم تم نہیں
 رنگِ محفل بن کے لیکن کون اس محفل میں ہے

سرگرم تجلی ہو اے جلوہ جانانہ

سرگرمِ تجلی ہو، اے جلوۂ جانانہ
اڑ جائے دھواں بن کر، کعبہ ہو کہ بُت خانہ
یہ دِین، وہ دنیا ہے، یہ کعبہ، وہ بت خانہ
اِک اور قدم بڑھ کر، اے ہمّتِ مردانہ
قربان تِرے مئے کش، ہاں اے نگہِ ساقی
تُو صورتِ مستی ہے، تُو معنّئ مئے خانہ

نہ ہو گا کاوش بے مدعا کا رازداں برسوں

نہ ہو گا کاوشِ بے مدعا کا رازداں برسوں
 وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں
 ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ رُوحانیاں برسوں
 رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مُغاں برسوں
 کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں
کہ فرطِ ذوق سے جھُومی ہے شاخِ آشیاں برسوں

Thursday 16 January 2014

بستی میں کوئی بھی نہ ترے ساتھ رہا نا

بستی میں کوئی بھی نہ تِرے ساتھ رہا نا
ہم نے جو کہا تھا، وہی آخر کو ہُوا نا
تجھ کو یہ جنوں تھا کہ جہاں جیت لے سارا
جو پاس تھا وہ بھی تِرے ہاتھوں سے گیا نا
تھا زعم کے حاصل ہے ہواؤں پہ حکومت
اب اپنے دِیے کو ذرا بجھنے سے بچا نا

رات جو موج ہوا نے گل سے دل کی بات کہی

رات جو موجِ ہوا نے گُل سے دل کی بات کہی
اِک اِک برگِ چمن نے کیسی کیسی بات کہی
آنکھیں رنگ برنگ سجے رَستوں سرشار ہوئیں
دل کی خلِش نے منظر منظر ایک ہی بات کہی
ہر اظہار کی تہ میں ایک ہی معنی پنہاں تھے
اپنی طرف سے سب نے اپنی اپنی بات کہی

دل شاد ہیں ہر درد کی شدت سے زیادہ

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

دل شاد ہیں ہر درد کی شدت سے زیادہ
کیا چاہئے اور اُسؐ کی محبت سے زیادہ
بے سُود بھٹکتی ہے سرابوں میں یہ دنیا
کیا آبِ بقا چشمۂ رحمت سے زیادہ
اک صورتِ تعمیر کہ جھلکی سرِ قرآں
روشن ہوئی مینارۂ سیرت سے زیادہ

اے عشق تو گرد سفر بنا تری اور بھلا توقیر ہے کیا

اے عشق! تُو گردِ سفر بنا، تِری اور بھلا توقیر ہے کیا
 تُو خُود ہی حسرت کا مارا، تِرا خواب ہے کیا، تعبیر ہے کیا
اے عشق! تُو بِکتا رہتا ہے، کبھی راہوں میں، کبھی بانہوں میں
 تُو بوجھ ہے دل کی دُنیا کا، مِرے واسطے تُو جاگیر ہے کیا
اے عشق! مزار پہ رقص تِرا، اور کتبوں پر ہے عکس تِرا
 تُو بُجھتے دِیے کا دُھواں ہے بس، تُو کیا جانے، تنویر ہے کیا

دیکھا جو خالی ہاتھ سویرے بھی ہنس پڑے

دیکھا جو خالی ہاتھ، سویرے بھی ہنس پڑے
 بُلایا جو میں نے چاند اندھیرے بھی ہنس پڑے
کل تک اُلجھ رہی تھی میں جِن سے وفا کے ساتھ
 وہ چھوڑ کر چلے، تو لُٹیرے بھی ہنس پڑے
غیروں نے میرے حال پہ ہنسنا تھا، سو ہنسے
 اپنا کہا تھا جِن کو، وہ میرے بھے ہنس پڑے

ہجر میں بھی یہ مری سانس اگر باقی ہے

ہِجر میں بھی یہ مِری سانس اگر باقی ہے
 اِس کا مطلب ہے محبت میں اثر باقی ہے
چھوڑ یہ بات مِلے زخم کہاں سے تجھ کو
 زندگی اتنا بتا، کتنا سفر باقی ہے
تم سِتمگر ہو، نہ گھبراؤ مِری حالت پر
 زخم سہنے کا ابھی مجھ میں ہُنر باقی ہے

دل اسی کا غلام ہے اب تک

دل اُسی کا غلام ہے اب تک
 عشق کا احترام ہے اب تک
اس سے آباد شب کی تنہائی
 اس کا ہی اہتمام ہے اب تک
وصل کی راہ میں نہیں کچھ بھی
 ہجر والی ہی شام ہے اب تک

Wednesday 15 January 2014

دِل میں ایسے ٹھہر گئے ہیں غم

بسیرا

دِل میں ایسے ٹھہر گئے ہیں غم
جیسے جنگل میں شام کے سائے
جاتے جاتے سہم کے رُک جائیں
مڑ کے دیکھیں اُداس راہوں پر
کیسے بُجھتے ہوئے اُجالوں میں
دُور دُھول دُھول اُڑتی ہے

گلزار

پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے، خبردار سے ہیں

پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے، خبردار سے ہیں
شام سے تیز ہوا چلنے کے آثار سے ہیں
ناخدا دیکھ رہا ہے کہ میں گرداب میں ہوں
اور جو پُل پہ کھڑے لوگ ہیں، اخبار سے ہیں
چڑھتے سیلاب میں ساحل نے تو منہ ڈھانپ لیا
لوگ پانی کا کفن لینے کو تیار سے ہیں

کہیں تو گرد اڑے یا کہیں غبار دکھے

کہیں تو گرد اُڑے، یا کہیں غبار دِکھے
کہیں سے آتا ہوا کوئی شہسوار دِکھے
رَواں ہیں پھر بھی رُکے ہیں وہیں پہ صدیوں سے
بڑے اُداس لگے، جب بھی آبشار دِکھے
کبھی تو چونک کے دیکھے کوئی ہماری طرف
کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دِکھے

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

رنجِش ہی سہی، دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
پہلے سے مراسِم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و راہِ دنیا ہی نِبھانے کے لیے آ
کِس کِس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

Tuesday 14 January 2014

روح سلگتی رکھی ہے اور سینہ جلتا رکھا ہے

روح سلگتی رکھی ہے اور سینہ جلتا رکھا ہے
اس نے مجھ کو لاکھوں انسانوں سے اچھا رکھا ہے
تم روشن کر رکھو جتنے ہجر الاؤ ممکن ہوں
میں نے بھی اپنی آنکھوں کے پیچھے دریا رکھا ہے
آنکھ کہاں ہے، ایک آفت گویا رکھی ہے چہرے پر
دِل کب ہے میرے پہلو میں، ایک تماشا رکھا ہے

دیارِ دل میں ترے غم کی آبرو کیا ہے

دیارِ دل میں تِرے غم کی آبرو کیا ہے
کبھی تو دیکھ مِری آنکھ سے کہ تُو کیا ہے
میں کیا کروں گا یہ دنیائے رنگ و بو لے کر
تِرے بغیر یہ دنیائے رنگ و بو کیا ہے
جگر کے داغ سے فارغ ہوئے نہ ہاتھ مِرے
وگرنہ ایک گریبان کا رفُو کیا ہے

نہ شورش غم دوراں نہ خودسری اپنی

نہ شورشِ غمِ  دوراں نہ خودسری اپنی
بہت دنوں سے ہے گم سم سُخنوری اپنی
سپردِ آئینہ کرتا نہ تھا وہ عکس اپنا
اُسے عزیز تھی کس درجہ دلبری اپنی
یہ دوپہر تو ڈھلے تجھ کو خاک ہونا ہے
جتانا خاک نشینوں پر برتری اپنی

غیروں کے ساتھ بیٹھے ہیں اس انجمن میں ہم

 غیروں کے ساتھ بیٹھے ہیں اس انجمن میں ہم

کانٹوں سے واسطہ ہے مگر ہیں چمن میں ہم

سمجھو نہ داغ دامن دل میں یہ پھول ہیں

اب ہیں قفس نصیب کبھی تھے چمن میں ہم

رسوا نہ زخم تیر نظر ہو یہ خوف ہے

ہاتھوں سے دل چھپائے ہوئے ہیں کفن میں ہم

زمیں نہیں یہ مری آسماں نہیں میرا

زمیں نہیں یہ مری، آسماں نہیں میرا
متاعِ خواب بجُز کچھ یہاں نہیں میرا
یہ اونٹ اور کسی کے ہیں، دشت میرا ہے
سوار میرے نہیں، سارباں نہیں میرا
مجھے تمہارے تیقّن سے خوف آتا ہے
کہ اس یقین میں شامل گماں نہیں میرا

محبت غیر فانی ہے مرض ہے لا دوا میرا

 محبت غیر فانی ہے مرض ہے لا دوا میرا

خدا کی ذات باقی ہے محبت ہے خدا میرا

نہ جیتے جی ہوا ہرگز وفا نا آشنا میرا

پر اس کی داستاں بن کر رہا ذکر وفا میرا

جفا کا تیری طالب ہوں وفا ہے مدعا میرا

یقین نا مرادی پر بھی دیکھو حوصلہ میرا

پس ہر رنج گماں زخم یقیں دیکھا ہے

پس ہر رنجِ گماں، زخمِ یقیں دیکھا ہے
رائیگاں ہم نے کسی غم کو نہیں دیکھا ہے
کیا تمہیں خوابِ تمنّا کی حقیقت معلوم
تم نے کب اشکِ طلب، داغِ جبیں دیکھا ہے
گھیر لیتا ہے کہیں اک شبِ رفتہ کا ملال
ورنہ کیا تم نے کبھی ہم کو غمِیں دیکھا ہے

ہمارے بیچ اگرچہ رہا نہیں کچھ بھی

ہمارے بیچ اگرچہ رہا نہیں کچھ بھی
مگر یہ دل ہے، ابھی مانتا نہیں کچھ بھی
یہ کیسی دھول سی راہوں میں اڑتی پھرتی ہے
تو اے مسافر جاں! کیا بچا نہیں کچھ بھی؟
بس ایک منظرِ خالی میں اونگھ لیتا ہے
وہ خوش نظر ہے مگر دیکھتا نہیں کچھ بھی

جو پاس ہے اسی غم سے یہ دن بتاؤ میاں

جو پاس ہے اسی غم سے یہ دن بِتاؤ میاں
اب اس کے وعدۂ فردا کو بھول جو میاں
دیار رفتہ کا قصہ کوئی سناؤ میاں
جو خواب سوئے ہوئے ہیں انہیں جگاؤ میاں
یہ آپ ہم خس و خاشاک ہیں ہمارا کیا
ہمیں تو بہنا ہے جس سمت ہو بہاؤ میاں

رسوائی نہیں کچھ بھی تو شہرت بھی نہیں کچھ

رُسوائی نہیں کچھ بھی تو شہرت بھی نہیں کچھ
دیکھو تو یہاں ذلت و عزت بھی نہیں کچھ
کچھ کام ہمارے یہاں ہوتے بھی نہیں ہیں
کچھ یوں ہے کہ ہم کو یہاں عجلت بھی نہیں کچھ
ایسا بھی نہیں کچھ کہ کریں ترکِ تعلق
ورنہ تو یہ طے ہے کہ محبت بھی نہیں کچھ

خامشی کو اس طرح جھنکار کر لیتا ہوں میں

خامشی کو اس طرح جھنکار کر لیتا ہوں میں
جا چکی آواز سے تکرار کر لیتا ہوں میں
کام پر ہوتا ہوں تو جی کھول کر سوتے ہیں غم
رات بستر پر انہیں بیدار کر لیتا ہوں میں
حالِ دل لکھتے ہوئے حالات کرتا ہوں بیاں
اپنے ذاتی خط کو بھی اخبار کر لیتا ہوں میں

اپنی مستی کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ تِرے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں
کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں
اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

Monday 13 January 2014

راہ دشوار کی جو دھول نہیں ہو سکتے

راہِ دشوار کی جو دھول نہیں ہو سکتے
ان کے ہاتھوں میں کبھی پھول نہیں ہو سکتے
تیرے معیار پہ پورے نہ اترنے والے
منصبِ عشق سے معزول نہیں ہو سکتے
اتنا خوں ہے مِرا گلشن میں، کہ اب میرے خلاف
پیڑ ہو جائیں، مگر پھول نہیں ہو سکتے

سیل جاری ہے

سیل جاری ہے

آپ کو کیا چاہئے؟
پیار؟
نہیں وہ ہمارے ہاں نہیں ہوتا
امن؟
تھا، اب ختم ہو گیا ہے

محمدﷺ کا آخری خطبہ

عارفانہ کلام

محمدﷺ کا آخری خطبہ 
(سرورِ کائناتﷺ کے آخری خطبہ سے اخذ کردہ چند نکات)

مِرے عزیزو
زمانِ حاضر کے منتخب، بے مثال لوگو
مجھے پیمبر سمجھنے والو
مِری طریقت پہ چلنے والو
میں جانتا ہوں
مِری معیّت میں جس گزرگاہ پر چلے ہو
بہت کٹِھن تھی

مجھے تم سے محبت تھی

مجھے تم سے محبت تھی
اگرچہ پیار لفظوں کے ترازو میں نہیں تولا
کبھی یہ سچ نہیں بولا
مگر تم سے محبت تھی
اسی دن سے
کہ جب سے زندگی درّانہ آئی تھی

ہمن ہے عشق مستانہ ہمن کو ہوشیاری کیا

کہت کبیر

ہمن ہے عشق مستانہ، ہمن کو ہوشیاری کیا
 رہیں آزاد یا جگ سے، ہمن کو دنیا سے یاری کیا
 جو بچھڑے ہیں پیارے سے، بھٹکتے دربدر پھرتے
خلق سب نام اپنے کو بہت کر سر پٹکتا ہے
ہمن گرو نام سانچا ہے، ہمن دنیا سے یاری کیا
 ہمارا یار ہے ہم میں، ہمن کو انتظاری کیا

دنیا سے مجھے مطلب اس کی نہیں پروا ہے

دُنیا سے مجھے مطلب اس کی نہیں پروا ہے
دُنیا تو مِری تم ہو، تم سے مِری دنیا ہے
بے کار ہے ہر حسرت ، بے سُود تمنّا ہے
آغاز میں ہنسنا ہے، انجام میں رونا ہے
کیا یہ بھی بتلا دوں، تُو کون ہے، تُو کیا ہے
ہاں دِیں ہے تُو ہی میرا، تو ہی مِری دنیا ہے

میری فضائے زیست پر ناز سے چھا گیا کوئی

میری فضائے زِیست پر ناز سے چھا گیا کوئی
آنکھ میں آنکھ ڈال کر بندہ بنا گیا کوئی
مرگ و حیات کے مزے آہ دکھا گیا کوئی
آ کے ہنسا گیا کوئی، جا کے رُلا گیا کوئی
سجدۂ عشق کے لئے پائے صنم ضرور ہے
میری جبینِ شوق کو راز بتا گیا کوئی

آنکھ میں اشک ہیں ضرور اشک مگر بہائے کون

آنکھ میں اشک ہیں ضرور، اشک مگر بہائے کون
 دل کی لگی ہی خوب ہے، دل کی لگی بُجھائے کون
 حیرتِ غم کا جوش ہے، میری زباں خموش ہے
 میرا پتہ تو تُو بتا، تیرا پتہ بتائے کون
 کٹنے دو ایک رنگ میں میرا نیاز عاشقی
 غم میں ہنسو تو بات ہے، عیش میں مسکرائے کون

ہاتھ میں کاسہ کلائی میں کڑا سجتا ہے

ہاتھ میں کاسہ، کلائی میں کڑا سجتا ہے
 دَر بڑا ہو تو سوالی بھی کھڑا سجتا ہے
 میں تِرے کنجِ تغافل سے نکلتی کیسے
 میرا ساماں اِسی کونے میں پڑا سجتا ہے
دل پہ سامانِ زمانہ کبھی رکّھا ہی نہیں
 اس گھڑونجی پہ محبت کا گھڑا سجتا ہے

ذرا سا ہجر ہے بس

ذرا سا ہِجر ہے بس 

 نجانے تم کہاں ہو
 تمہاری آہٹیں اب بھی دھڑکتی ہیں فضا میں
 ہواؤں کے پیالے میں تمہاری سانس کی تَلچھٹ ہے باقی
 تمہارے جسم کی خوشبو مِرے ماتھے کا بوسہ لے رہی ہے
 میں اس کا ہاتھ پکڑے، ہر تعفّن پار کرتی جا رہی ہوں

خمیر خاک سے تھا خاک میں ملا دیا ہے

خمیر، خاک سے تھا خاک میں ملا دیا ہے
 کہ کوزہ گر نے دِگر چاک میں بٹھا دیا ہے
 غرورِ جاہ و حشم اے زمانے! کیا کم تھا
نسب کا تمغا بھی پوشاک میں لگا دیا ہے
 ہوائے نفس کے گرد و غبار نے، کتنے
 چمکتے تاروں کو افلاک میں چھپا دیا ہے

بنیاد تیرگی جو رکھے اس ضیا پہ تف

بنیادِ تیرگی جو رکھے اس ضیا پہ تُف
 بخشے نہ گر دوام تو ایسی قضا پہ تُف
 بھیجے نہ ایک لفظ میں ظالم پہ چار حرف
 اہلِ قلم کے دعویِٰ فکر و رَسا پہ تُف
 اِک عدل کی زنجیر تھی سو پاؤں آ پڑی
 منصف تِرے مزاج پہ تیری رضا پہ تُف

جو ذکرِ یار کبھی خود نوشت میں پایا

جو ذکرِ یار کبھی خود نوشت میں پایا
 دلِ حزِیں کو اسی کی گرفت میں پایا
 فراق، لمحۂ محشر میں دید کا لمحہ
 اس ایک لمحہ میں خود کو بہشت میں پایا
نزولِ شعر ہے یا جاں کنی کا عالم ہے
 بدن، اجل کے فرشتے کی شِست میں پایا

روشنی حلقۂ زنجیر پہ آ بیٹھی ہے

روشنی حلقۂ زنجیر پہ آ بیٹھی ہے
زندگی درد کی جاگیر پہ آ بیٹھی ہے
خواب ٹُوٹے ہیں تو آوارگئ دل کو لئے
میری حسرت تیری تصویر پہ آ بیٹھی ہے
رفتہ رفتہ ہوئے سب دل کے جھروکے مسمار
خستگی حسرتِ تعمیر پہ  آ بیٹھی ہے

درد دل شہر میں کس کس کو سنایا جائے

دردِ دل شہر میں کس کس کو سنایا جائے
محرمِ راز کہاں سب کو بنایا جائے
یاں ترے قُرب کا دعویٰ ہے سبھی کو ساقی
اب تری بزم سے کس کس کو اٹھایا جائے
کیا قیامت ہے کہ اب بادہ کشوں کو تیرے
بادہ نوشی کا سلیقہ بھی سکھایا جائے

خواب میری آنکھوں سے کیسا کیسا چھینا ہے

خواب میری آنکھوں سے کیسا کیسا چھینا ہے
مفلسی سے بڑھ کر بھی کیا کوئی کمینا ہے
روشنی کے مدفن میں خوشبوؤں کی میّت ہے
آرزو کے آنگن میں درد کی حسینا ہے
نامُراد راتیں ہیں، بے ہدف اُجالے ہیں
ذِلّتوں کے دوزخ میں اور کتنا جینا ہے

سفر اب کے یہ کہتا ہے ہمارا کچھ نہیں ہو گا

سفر اب کے یہ کہتا ہے ہمارا کچھ نہیں ہو گا
بھنور میں ہی رہیں گے ہم کنارا کچھ نہیں ہو گا
ہمیں اندر کی تنہائی بہت مجبور کر دے گی
مگر باہر کی دنیا میں سہارا کچھ نہیں ہو گا
چراغِ دل کو ہاتھوں میں لیے ہم جاں سے جائیں گے
مگر ظلمت کے ماروں کو نظارا کچھ نہیں ہو گا