Saturday 31 May 2014

نواح وسعت میداں میں حیرانی بہت ہے

نواحِ وسعتِ میداں میں حیرانی بہت ہے
دلوں میں اس خرابی سے پریشانی بہت ہے
کہاں سے ہے، کہاں تک ہے، خبر اسکی نہیں ملتی
یہ دنیا اپنے پھیلاؤ میں انجانی بہت ہے
بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجرِ یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے

گھپ اندھیرے میں چھپے سونے بنوں کی اور سے

گُھپ اندھیرے میں چُھپے سُونے بنوں کی اور سے
گیت برکھا کے سُنو رنگوں میں ڈُوبے مور سے
شام ہوتے ہی دلوں کی بے کلی بڑھنے لگی
ڈر رہی ہیں گوریاں چلتی ہوا کے زور سے
رات کے سُنسان گُنبد میں رَچی ہے راس سی
پہرے داروں کی صداؤں کے طلسمی شور سے

عجب رنگ رنگیں قباؤں میں تھے

عجب رنگ رنگیں قباؤں میں تھے
دل و جان جیسے بلاؤں میں تھے
طلسمات ہونٹوں پہ، آنکھوں میں غم
نئے زیورات ان کے پاؤں میں تھے
مہک تھی تِرے پیرہن کی کہیں
گُلستاں سے شب کی ہواؤں میں تھے

اس مینہ سے بھری شب میں بجلی جو کڑک جائے

اس مینہ سے بھری شب میں بجلی جو کڑک جائے
اس شوخ کا ننھا سا دل ڈر سے دھڑک جائے
اس سمت چلو تم بھی اے بھٹکے ہوئے لوگو
جس سمت یہ ویراں سی چُپ چاپ سڑک جائے
یہ ڈُوبتا سُورج اور اس کی لبِ بام آمد
تا حدِ نظر اس کے آنچل کی بھڑک جائے

Thursday 29 May 2014

سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا

سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا
ہم بھی دریا ہیں، ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا
کتنی سچائی سے مجھ سے زندگی نے کہہ دیا
تُو نہیں میرا تو کوئی دوسرا ہو جائے گا

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے
خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے
پھولوں میں غزل رکھنا یہ رات کی رانی ہے
اس میں تری زلفوں کی بے ربط کہانی ہے
اک ذہنِ پریشان میں وہ پھول سا چہرہ ہے
پتھر کی حفاظت میں شیشے کی جوانی ہے

سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں

سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں
بس ذرا وفا کم ہے تیرے شہر والوں میں​
پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا
ہم جواب کیا دیتے کھو گئے سوالوں میں​
رات تیر یادوں نے دل کو اس طرح چھیڑا
جیسے کوئی چٹکی لے نرم نرم گالوں میں​

دوسروں کو ہماری سزائیں نہ دے

دوسروں کو ہماری سزائیں نہ دے
چاندنی رات کو بددعائیں نہ دے
پھول سے عاشقی کا ہنر سیکھ لے
تتلیاں خود رُکیں گی صدائیں نہ دے
سب گناہوں کا اقرار کرنے لگیں
اس قدر خوبصورت سزائیں نہ دے

بے وفا باوفا نہیں ہوتا

بے وفا باوفا نہیں ہوتا
ختم یہ فاصلہ نہیں ہوتا
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
گفتگو ان سے روز ہوتی ہے
مدتوں سامنا نہیں ہوتا

مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی

مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی
مجھے ایک مٹھی زمین دے یہ زمین کتنی سمٹ گئی
تری یاد آئے تو چپ رہوں ذرا چپ رہوں تو غزل کہوں
یہ عجیب آگ کی بیل تھی مرے تن بدن سے لپٹ گئی
مجھے لکھنے والا لکھے بھی کیا مجھے پڑھنے والا پڑھے بھی کیا
جہاں میرا نام لکھا گیا وہیں روشنائی الٹ گئی

Wednesday 28 May 2014

الاؤ: رات بھر سرد ہوا چلتی رہی

الاؤ

رات بھر سرد ہوا چلتی رہی
رات بھر ہم نے الاؤ تاپا
میں نے ماضی سے کئی خُشک سی شاخیں کاٹیں
تم نے بھی گزرے ہوئے لمحوں کے پتے توڑے
میں نے جیبوں سے نکالیں سبھی سُوکھی نظمیں
تم نے بھی ہاتھوں سے مُرجھائے ہوئے خط کھولے

ایک پرانا موسم لوٹا یاد بھری پروائی بھی

ایک پرانا موسم لوٹا یاد بھری پروائی بھی
ایسا تو کم ہی ہوتا ہے وہ بھی ہو تنہائی بھی
یادوں کی بوچھاڑوں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں
کتنی سوندھی لگتی ہے تب مانجھی کی رسوائی بھی
دو دو شکلیں دکھتی ہیں اس بہکے سے آئینے میں
میرے ساتھ چلا آیا ہے آپ کا اک سودائی بھی

تنکا تنکا کانٹے توڑے ساری رات کٹائی کی

تنکا تنکا کانٹے توڑے، ساری رات کٹائی کی
کیوں اتنی لمبی ہوتی ہے، چاندنی رات جُدائی کی
نیند میں کوئی اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہے
کال کنویں میں گونجتی ہے، آواز کسی سودائی کی
سینے میں دِل کی آہٹ، جیسے کوئی جاسوس چلے
ہر سائے کا پیچھا کرنا، عادت ہے ہرجائی کی

تیرے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں ہے

تیرے بنا زندگی سے کوئی، شکوہ تو نہیں ہے
تیرے بنا زندگی بھی لیکن، زندگی تو نہیں
کاش ایسا ہو، تیرے قدموں سے چُن کے منزل چلیں اور کہیں
تم گر ساتھ ہو، منزلوں کی کمی تو نہیں
جی میں آتا ہے، تیرے دامن میں، سر چھپا کے ہم روتے رہیں
تیری بھی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی تو نہیں

Tuesday 27 May 2014

عکس شکست خواب بہر سو بکھیریے

عکسِ شکستِ خواب بہر سُو بکھیریے
چہرے پہ خاک، زخم پہ خوشبو بکھیریے
کوئی گزرتی رات کے پچھلے پہر کہے
لمحوں کو قید کیجئے، گیسُو بکھیریے
دِھیمے سُروں میں کوئی مدُھر گیت چھیڑیے
ٹھہری ہوئی ہواؤں میں جادو بکھیریے

دن ٹھہر جائے مگر رات کٹے

دن ٹھہر جائے، مگر رات کٹے
کوئی صورت ہو کہ برسات کٹے
خوشبوئیں مجھ کو قلم کرتی گئیں
شاخ در شاخ میرے ہات کٹے
موجۂ گل ہے کہ تلوار کوئی
درمیاں سے ہی مناجات کٹے

پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون

پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون
میرا سر حاضر ہے لیکن میرا منصف دیکھ لے
کر رہا ہے میری فردِ جرم کو تحریر کون
میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے رِدائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون

ویسے تو کج ادائی کا دکھ کب نہیں سہا

ویسے تو کج ادائی کا دکھ کب نہیں سہا
آج اس کی بے رخی نے مگر دل دکھا دیا
موسم مزاج تھا، نہ زمانہ سرشت تھا
میں اب بھی سوچتی ہوں وہ کیسے بدل گیا
دکھ سب کے مشترک تھے مگر حوصلے جدا
کوئی بِکھر گیا، تو کوئی مسکرا دیا

لازم نہیں کہ اس کو بھی میرا خیال ہو

لازم نہیں کہ اس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے وہی اس کا بھی حال ہو
کچھ اور دلگداز ہوں اس شہرِ سنگ میں
کچھ اور پُر ملال، ہوائے ملال ہو
باتیں تو ہوں کچھ تو دلوں کی خبر ملے
آپس میں اپنے کچھ تو جواب و سوال ہو

اک خیال خام میں مسحور کر رکھا مجھے

اک خیالِ خام میں مسحور کر رکھا مجھے
خود پرستی نے جہاں سے دور کر رکھا مجھے
بے سبب تھا اس جگہ پر وہ قیامِ سرسری
پر تھکن نے اس جگہ مجبور کر رکھا مجھے
خامشی سے دیر تک اس حُسن کا تکنا مجھے
دیر تک اس یاد نے رنجور کر رکھا مجھے

محفل آرا تھے مگر پھر کم نما ہوتے گئے

محفل آرا تھے مگر پھر کم نما ہوتے گئے
دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوتے گئے
ناشناسی دہر کی تنہا ہمیں کرتی گئی
ہوتے ہوتے ہم زمانے سے جدا ہوتے گئے
منتظر جیسے تھے در شہرِ فراق آثار کے
اک ذرا دستک ہوئی در و بام وا ہوتے گئے

زور پیدا جسم و جاں کی ناتوانی سے ہوا

زور پیدا جسم و جاں کی ناتوانی سے ہوا
شور شہروں میں مسلسل بے زبانی سے ہوا
دیر تک کی زندگی کی خواہشیں اس بت کو ہیں
شوق اس کو انتہا کا عمرِ فانی سے ہوا
میں ہوا ناکام اپنی بے یقینی کے سبب
جو ہوا سب میرے دل کی بدگمانی سے ہوا

Saturday 24 May 2014

زلف کی اوٹ سے چمکے وہ جبیں تھوڑی سی

زُلف کی اوٹ سے چمکے وہ جبیں، تھوڑی سی
دیکھ لوں کاش، جھلک میں کہیں، تھوڑی سی
مے کدہ دُور ہے، مسجد کے قریں، تھوڑی سی
میرے ساقی! ہو عطا، مجھ کو یہیں، تھوڑی سی
ناں خوشی کم ہو تو ہوتا ہے خوشی کا دھوکا
جھلکیاں ہاں کی دکھاتی ہیں نہیں تھوڑی سی

جو وہ تو نہ رہا تو وہ بات گئی جو وہ بات گئی تو مزا نہ رہا

جو وہ تُو نہ رہا تو وہ بات گئی، جو وہ بات گئی تو مزا نہ رہا
وہ اُمنگ کہاں‌، وہ ترنگ کہاں، وہ مزاج وفا و جفا نہ رہا
شب و روز کہیں‌ بھی الگ نہ ہوا، شب و روز کہاں‌ وہ ملا نہ رہا
رگِ جاں‌ سے ہماری قریب رہا، رگِ جاں سے ہماری جدا نہ رہا
کسی شکل میں‌ بھی، کسی رنگ میں‌ بھی، کسی رُوپ میں ‌بھی کسی ڈھنگ میں ‌بھی
وہ ہماری نظر سے چھپا تو مگر وہ ہماری نظر سے چھپا نہ رہا

مری زیست پرمسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

مِری زیست پُرمسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی
کوئی بہتری کی صورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی
مجھے حُسن نے ستایا، مجھے عشق نے مِٹایا
کسی اور کی یہ حالت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی​
وہ جو بے رُخی کبھی تھی وہی بے رُخی ہے اب تک
مِرے حال پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

Saturday 17 May 2014

سستانے کو بیٹھا ہوں ستانے نہیں آیا

سستانے کو بیٹھا ہوں ستانے نہیں آیا
اے پنچھیو! میں تم کو اُڑانے نہیں آیا
ہاتھوں میں دعائیں ہیں کلہاڑی نہیں دیکھو
بیٹھے رہو، میں پیڑ گرانے نہیں آیا
آفات کے بارے میں نہ یوں شور مچاؤ
میں پوچھنے آیا ہوں، بتانے نہیں آیا

حوصلے دیدۂ بیدار کے سو جاتے ہیں

حوصلے دیدۂ بیدار کے سو جاتے ہیں
نیند کب آتی ہے تھک ہار کے سو جاتے ہیں
روز کا قصہ ہے یہ معرکۂ یاس و امید
جیت کر ہارتے ہیں، ہار کے سو جاتے ہیں
سونے دیتے ہیں کہاں شہر کے حالات، مگر
ہم بھی سفاک ہیں جی مار کے سو جاتے ہیں

ڈرتا ہوں اپنے آپ سے وحشت نہیں مجھے

ڈرتا ہوں اپنے آپ سے وحشت نہیں مجھے
ایسا نہیں، کہ تم سے محبت نہیں مجھے
میرا بدن ہے، خاک پہ کھینچوں کہ آگ میں
تم جاؤ، تم سے کوئی شکایت نہیں مجھے
اک خوش بدن کو چُھو کے پری زاد کر دیا
اب اختلاف و وہم و حقیقت نہیں مجھے

پھرے دشت دشت شاید در و بام کی اداسی

پھرے دشت دشت شاید در و بام کی اداسی
مِرے بعد کیا کرے گی مِرے نام کی اداسی
مِرے ہمسفر تھے کیا کیا، میں کسی کو اب کہوں کیا
کوئی دھوپ دوپہر کی، کوئی شام کی اداسی
کہیں اور کا ستارہ، مِری آنکھ پر اتارا
مجھے آسماں نے دی ہے بڑے کام کی اداسی

اس کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا

اس کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا
یہ تماشا تھا یا کوئی خواب دیوانے کا تھا
سارے کرداروں میں بے رشتہ تعلق تھا کوئی
ان کی بے ہوشی میں غم سا ہوش آ جانے کا تھا
عشق کیا ہم نے کیا آوارگی کے عہد میں
اک جتن بے چینیوں سے دل کو بہلانے کا تھا

شب وصال میں دوری کا خواب کیوں آیا

شب وصال میں دوری کا خواب کیوں آیا
کمال فتح میں یہ ڈر کا باب کیوں آیا
دلوں میں اب کے برس اتنے وہم کیوں جاگے
بلادِ صبر میں اب اضطراب کیوں آیا
ہے آبِ گل پہ عجیب اس بہارِ گزراں میں
چمن میں اب کے گل بے حساب کیوں آیا

کیسی ہے رہگزار وہ دیکھیں گے جا کے اب اسے

کیسی ہے رہگزار وہ دیکھیں گے جا کے اب اسے
بیت گئے برس بہت دیکھا تھا ہم نے جب اسے
جاگے گا خوابِ ہجر سے، آئے گا لوٹ کر یہیں
دیکھیں گے خوف و شوق سے روزن و در سے سب اسے
صحرا نہیں یہ شہر ہے اور بھی لوگ ہیں یہاں
چاروں طرف مکان ہیں، اتنا ہے ہوش کب اسے

یورش سخت جبر میں خواہش جام سی کبھی

یورشِ سختِ جبر میں خواہشِ جام سی کبھی
عیشِ دوام سی کبھی، ان ہوئے کام سی کبھی
صبحِ بہار میں کبھی صحنِ خزاں میں بھی کبھی
بجھتا ہوا شرر کبھی، رنگوں کی شام سی کبھی
اور کسی جہان میں، حاضر جان سی کبھی
غیبوں کے سحر دور میں ساعتِ عام سی کبھی

خمار شب میں اسے میں سلام کر بیٹھا

خمارِ شب میں اسے میں سلام کر بیٹھا
جو کام کرنا تھا مجھ کو، وہ کام کر بیٹھا
قبائے زرد پہن کر وہ بزم میں آیا
گلِ حِنا کو ہتھیلی میں تھام کر بیٹھا
چھپا گیا تھا محبت کا راز میں تو مگر
وہ بھولپن میں سخن دل کا عام کر بیٹھا

تھکن سے راہ میں چلنا محال بھی ہے مجھے

تھکن سے راہ میں چلنا محال بھی ہے مجھے
کمال پر بھی تھا میں ہی زوال بھی ہے مجھے
سڑک پہ چلتے ہوئے رک کے دیکھتا ہوں میں
یہیں کہیں ہے تُو یہ احتمال بھی ہے مجھے
یہ میرے گرد تماشا ہے آنکھ کھلنے تک
میں خواب میں تو ہوں لیکن خیال بھی ہے مجھے

ہجر شب میں اک قرار غائبانہ چاہیے

ہجر شب میں اک قرارِ غائبانہ چاہیے
غیب میں اک صورتِ ماہِ شبانہ چاہیے
سن رہے ہیں جس کے چرچے شہر کی خلقت سے ہم
جا کے اک دن اس حسیں کو دیکھ آنا چاہیے
اس طرح آغاز شاید اک حیاتِ نو کا ہو
پچھلی ساری زندگی کو بھول جانا چاہیے

چمن میں رنگ بہار اترا تو میں نے دیکھا

چمن میں رنگِ بہار اترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اترا تو میں نے دیکھا
میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا
زمیں پہ وہ حُسنِ زار اترا تو میں نے دیکھا
گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایۂ کوئے یار اترا تو میں نے دیکھا

قرار ہجر میں اس کے شراب میں نہ ملا

قرار ہجر میں اس کے شراب میں نہ ملا
وہ رنگ اس گلِ رعنا کا خواب میں نہ ملا
عجب کشش تھی نظر پر سرابِ صحرا سے
گہر مگر وہ نظر کا اس آب میں نہ ملا
بس ایک ہجرتِ دائم گھروں زمینوں سے
نشان مرکز دلِ اضطراب میں نہ ملا

ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو

ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اس کی جو ہمیں حاصل نہ ہو
دشتِ نجد پاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو
وہم یہ تجھ کو عجب ہے جمالِ کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تو دید کے قابل نہ ہو

ہے میرے گرد کثرت شہر جفا پرست

ہے میرے گرد کثرتِ شہرِ جفا پرست
تنہا ہوں اس لیے ہوں میں اتنا انا پرست
صحنِ بہارِ گل میں کفِ گل فروش ہے
شامِ وصالِ یار میں دستِ حنا پرست
تھا ابتدائے شوق میں آرامِ جاں بہت
پر ہم تھے اپنی دُھن میں انتہا پرست

آئینہ اب جدا نہیں کرتا

آئینہ اب جدا نہیں کرتا
قید میں ہوں، رہا نہیں کرتا
مستقل صبر میں ہے کوہِ گراں
نقشِ عبرت صدا نہیں کرتا
رنگِ محفل بدلتا رہتا ہے
رنگ کوئی وفا نہیں کرتا

دل عجب مشکل میں ہے اب اصل رستے کی طرف

دل عجب مشکل میں ہے اب اصل رستے کی طرف
یاد پیچھے کھینچتی ہے، آس آگے کی طرف
چھوڑ کر نکلے تھے جس کو دشتِ غربت کی طرف
دیکھنا شام و سحر اب گھر کے سائے کی طرف
ہے ابھی آغاز دن کا اس دیارِ قید میں
ہے ابھی سے دھیان سارا شب کے پہرے کی طرف

ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں

ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں
زر کے زور سے زندہ ہیں سب خاک کے اس ویرانے میں
جیسے رسم ادا کرتا ہوں شہروں کی آبادی میں
صبح کو گھر سے دور نکل کر شام کو واپس آنے میں
نیلے رنگ میں ڈوبی آنکھیں کھلی پڑی تھیں سبزے پر
عکس پڑا تھا آسمان کا شاید اس پیمانے میں

ابر میں برق کے گلزار دکھاتے اس کو

ابر میں برق کے گلزار دکھاتے اس کو
کاش اس رات کبھی جا کے جگاتے اس کو
شہ نشینوں پہ ہوا پھرتی ہے کھوئی کھوئی
اب کہاں ہے وہ مکیں، یہ تو بتاتے اس کو
وہ جو پاس آ کے یونہی چپ سا کھڑا رہتا تھا
اس کی تو خُو تھی یہی، تم ہی بلاتے اس کو

غم سے لپٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں

غم سے لپٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
دنیا ہی کٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
دن رات بانٹتے ہیں ہمیں مختلف خیال
یوں ان میں بٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
اتنے سوال دل میں ہیں اور وہ خموش دَر
اس دَر سے ہٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں

Wednesday 14 May 2014

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے

جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
اس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہو گی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے
پتھرو! آج میرے سر پر برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے

جب بھی جلے گی شمع تو پروانہ آئے گا

جب بھی جلے گی شمع تو پروانہ آئے گا
دیوانہ لے کے جان کا نذرانہ آئے گا
تجھ کو بھلا کے لوں گا میں خود سے بھی انتقام
جب میرے ہاتھ میں کوئی پیمانہ آئے گا
آسان کس قدر ہے سمجھ لو میرا پتہ
بستی کے بعد پہلا جو ویرانہ آئے گا

زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد

زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد
حوصلہ دینا انہیں میرے خدا میرے بعد
کون گھونگٹ کو اٹھائے گا ستمگر کہہ کر
اور پھر کس سے کریں گے وہ حیا میرے بعد
پھر زمانے میں محبت کی نہ پُرسش ہو گی
روئے گی سسکیاں لے لے کے وفا میرے بعد

اس راہِ محبت میں تو آزار ملے ہیں

اس راہِ محبت میں تو آزار ملے ہیں
پھولوں کی تمنا تھی مگر خار ملے ہیں
انمول جو انسان تھا وہ کوڑی میں بِکا ہے
دنیا میں بہت ایسے بھی بازار ملے ہیں
جس نے بھی مجھے دیکھا پتھر سے نوازا
وہ کون ہیں پھولوں کے جنہیں ہار ملے ہیں

آنکھوں نے حال کہہ دیا ہونٹ نہ پھر ہلا سکے

آنکھوں نے حال کہہ دیا ہونٹ نہ پھر ہلا سکے
دل میں ہزار زخم تھے جو نہ انہیں دکھا سکے
گھر میں جو اک چراغ تھا تم نے اسے بجھا دیا
کوئی کبھی چراغ ہم گھر میں نہ جلا سکے
شکوہ نہیں عرض ہے، ممکن اگر ہو آپ سے
دیجے مجھ کو غم ضرور، دل جو مرا اٹھا سکے

اے دوست کہیں تجھ پہ بھی الزام نہ آئے

اے دوست کہیں تجھ پہ بھی الزام نہ آئے
اس میری تباہی میں تِرا نام نہ آئے
یہ درد ہے ہمدم! اسی ظالم کی نشانی
دے مجھ کو دوا ایسی کہ آرام نہ آئے
کاندھے پہ اٹھائے ہیں ستم راہِ وفا کے
شکوہ مجھے تم سے ہے کہ دو گام نہ آئے

عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی

عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی
اس قدر اُلجھن میں پہلے زندگی دیکھی نہ تھی
یہ تماشا بھی عجب ہے ان کے اُٹھ جانے کے بعد
میں نے دن میں اس سے پہلے تیرگی دیکھی نہ تھی
آپ کیا آئے کہ رُخصت سب اندھیرے ہو گئے
اس قدر گھر میں کبھی بھی روشنی دیکھی نہ تھی

کبھی وہ ہاتھ نہ آیا ہواؤں جیسا ہے

کبھی وہ ہاتھ نہ آیا ہواؤں جیسا ہے
وہ ایک شخص جو سچ مچ خداؤں جیسا ہے
ہماری شمعِ تمنا بھی جل کے خاک ہوئی
ہمارے شعلوں کا عالم چتاؤں جیسا ہے
وہ بس گیا ہے جو آ کر ہماری سانسوں میں
جبھی تو لہجہ ہمارا دعاؤں جیسا ہے

ہائے وہ وقت جدائی کے ہمارے آنسو

ہائے وہ وقت جدائی کےہمارے آنسو
گِر کے دامن پہ بنے تھے جو سِتارے آنسو
لَعل و گُوہر کے خزانے ہیں یہ سارے آنسو
کوئی آنکھوں سے چُرا لے نہ تمہارے آنسو
اُن کی آنکھوں میں جو آئیں تو ستارے آنسو
میری آنکھوں میں اگر ہوں تو بِچارے آنسو

ہر چند سہارا ہے تیرے پیار کا دل کو

 ہر چند سہارا ہے تِرے پیار کا دل کو

رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو

وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اڑا نیندیں

وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی، کھا گیا دل کو

یا سانس کا لینا بھی گزر جانا ہے جی سے

یا معرکۂ عشق بھی اک کھیل تھا دل کو

ہم پی گئے سب ہلے نہ لب تک

 ہم پی گئے سب، ہلے نہ لب تک

جی ہار گئے، نجومِ شب تک

ہر چند گھٹائیں چَھٹ گئی ہیں

پر دل پہ غبار سا ہے اب تک

خوش ہو نہ زمانہ! میرے غم پر

آئے گا یہ دورِ جام سب تک

کوٹھے اجاڑ کھڑکیاں چپ راستے اداس

 کوٹھے اجاڑ، کھڑکیاں چپ، راستے اداس

جاتے ہی ان کے کچھ نہ رہا زندگی کے پاس

دو پَل برس کے ابر نے دریا کا رخ کیا

تپتی زمیں سے پہروں نکلتی رہی بھڑاس

اشکوں سے کس کو پیار ہے آہوں سے کس کو اُنس

لیکن یہ دل کہ جس کو خوشی آ سکی نہ راس

Tuesday 13 May 2014

بت بنے راہ تکو گے کب تک

 بت بنے راہ تکو گے کب تک

آس کی آنچ سہو گے کب تک

سر اٹھا کر کبھی دیکھو تو سہی

دل کی دنیا میں بسو گے کب تک

جس نے اپنی بھی خبر لی نہ کبھی

تم اسے یاد کرو گے کب تک

وہ پاس آئے آس بنے اور پلٹ گئے

 وہ پاس آئے، آس بنے، اور پلٹ گئے

کتنے ہی پردے آنکھوں کے آگے سے ہٹ گئے

ہر باغ میں بہار ہوئی خیمہ زن، مگر

دامن کے ساتھ ساتھ یہاں دل بھی پھٹ گئے

گمراہیوں کا لپکا کچھ ایسا پڑا کہ ہم

منزل قریب آئی تو رہبر سے کٹ گئے

آویزشیں بڑھتی ہی گئیں قلب و نظر میں

 آویزشیں بڑھتی ہی گئیں قلب و نظر میں

کیا کچھ ہے ابھی دیکھئے تقدیرِ بشر میں

چڑھتے ہوئے سورج نے میرے داغِ جگر پر

قربان کیا جو بھی تھا دامانِ سحر میں

میدان کا جیتا ہوا تنہائی میں ہارا

کیا جانئے، کیا سحر تھا کافر کی نظر میں

Sunday 11 May 2014

اس لمحے تشنہ لب ریت بھی پانی ہوتی ہے

اس لمحے تشنہ لب ریت بھی پانی ہوتی ہے
آندھی چلے تو صحرا میں طغیانی ہوتی ہے
نثر میں جو کچھ کہہ نہیں سکتا شعر میں کہتا ہوں
اس مشکل میں بھی مجھ کو آسانی ہوتی ہے
جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں
شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے

ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں

ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں
اگر ہم ایک دن اپنی ہی نادانی سے مر جائیں
اذیت سے جنم لیتی سہولت راس آتی ہے
کوئی ایسی پڑے مشکل کہ آسانی سے مر جائیں
ادھوری ہی نظر کافی ہے اس آئینہ داری پر
اگر ہم غور سے دیکھیں تو حیرانی سے مر جائیں

کل اپنے شہر کی بس میں سوار ہوتے ہوئے

کل اپنے شہر کی بس میں سوار ہوتے ہوئے
وہ دیکھتا تھا مجھے اشکبار ہوتے ہوئے
پرندے آئے تو گنبد پہ بیٹھ جائیں گے
نہیں شجر کی ضرورت مزار ہوتے ہوئے
ہے ایک اور بھی صورت رضا و کفر کے بیچ
کہ شک بھی دل میں رہے اعتبار ہوتے ہوئے

تو پھر وہ عشق، یہ نقدونظر برائے فروخت

تو پھر وہ عشق، یہ نقدونظر برائے فروخت
سخن برائے ہنر ہے، ہنر برائے فروخت
پرندے لڑ ہی پڑے جائیداد پہ آخر
لکھا ہوا ہے شجر پہ، شجر برائے فروخت
میں پہلے کوفہ گیا، اس کے بعد مصر گیا
اُدھر برائے شہادت، اِدھر برائے فروخت

برس گیا بہ خرابات آرزو ترا غم

برس گیا بہ خراباتِ آرزُو، تِرا غم
قدح قدح تِری یادیں سبُو سبُو، تِرا غم
تِرے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں کُو بہ کُو، تِرا غم
غبارِ رنگ میں رس ڈھونڈتی کرن تِری دھن
گرفتِ سنگ میں بل کھاتی آبجُو، تِرا غم

اپنے دل کی کھوج میں کھو گئے کیا کیا لوگ

اپنے دل کی کھوج میں کھو گئے کیا کیا لوگ
آنسو تپتی ریت میں بو گئے کیا کیا لوگ
کرنوں کے طوفان سے بجرے بھر بھر کر
روشنیاں اس گھاٹ پر ڈھو گئے کیا کیا لوگ
سانجھ سمے اس کنج میں زندگیوں کی اوٹ
بج گئی کیا کیا بانسری، رو گئے کیا کیا لوگ

دل نے ایک ایک دکھ سہا تنہا

دل نے ایک ایک دکھ سہا، تنہا
انجمن انجمن رہا، تنہا
ڈھلتے سایوں میں تیرے کوچے سے
کوئی گزرا ہے بارہا، تنہا
تیری آہٹ قدم قدم، اور میں
اس معیت میں بھی رہا، تنہا

دن کٹ رہے ہیں کشمکش روزگار میں

دن کٹ رہے ہیں کشمکشِ روزگار میں
دَم گھٹ رہا ہے سایۂ ابرِ بہار میں
آتی ہے اپنے جسم کے جلنے کی بُو مجھے
لُٹتے ہیں نکہتوں کے سبُو جب بہار میں
گزرا ادھر سے جب کوئی جھونکا تو چونک کر
دل نے کہا، یہ آ گئے ہم کس دیار میں

اک عمر دل کی گھات سے تجھ پر نگاہ کی

اک عمر دل کی گھات سے تجھ پر نگاہ کی
تجھ پر، تِری نگاہ سے چھپ کر نگاہ کی
روحوں میں جلتی آگ، خیالوں میں کِھلتے پھول
ساری صداقتیں کسی کافر نگاہ کی
جب بھی غمِ زمانہ سے آنکھیں ہوئیں دوچار
منہ پھیر کر تبسمِ دل پر نگاہ کی

ایک ایک جھروکا خندہ بہ لب ایک ایک گلی کہرام

ایک ایک جھروکا خندہ بہ لب ایک ایک گلی کہرام
ہم لب سے لگا کر جام ہوئے بدنام بڑے بدنام
رُت بدلی کہ صدیاں لوٹ آئیں اُف یاد کسی کی یاد
پھر سیلِ زماں میں تیر گیا ایک نام، کسی کا نام
دل ہے کہ اِک اجنبی حیراں، تم ہو کہ پرایا دیس
نظروں کی کہانی بن نہ سکے ہونٹوں پہ رُکے پیغام

گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر

گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر
سینے پہ ایک درد کی سِل رکھ کے بات کر
یہ دوریوں کا سیلِ رواں برگ نامہ بھیج
یہ فاصلوں کے بندِ گراں کوئی بات کر
تیرا دیار، رات مِری بانسری کی لے
اس خوابِ دلنشیں کو مِری کائنات کر

کوئی بھی دور سر محفل زمانہ رہا

کوئی بھی دور سرِ محفلِ زمانہ رہا
تمہارا ذکر رہا، یا مِرا فسانہ رہا
مِرے نشانِ قدم دشت غم پہ ثبت رہے
ابد کی لوح پہ تقدیر کا لکھا نہ رہا
وہ کوئی کنج سمن پوش تھا کہ تودۂ خس
اِک آشیانہ بہرحال آشیانہ رہا

یہ کیا عجیب راز ہے سمجھ سکوں تو بات ہے

یہ کیا عجیب راز ہے سمجھ سکوں تو بات ہے
نہ اب وہ ان کی بے رخی، نہ اب وہ التفات ہے
مری تباہیوں کا فسانہ بھی کیا فسانہ ہے
نہ بجلیوں کا تذکرہ نہ آشیاں کی بات ہے
یہ کیا سکوں ہے، اس سکوں میں کتنے اضطراب ہیں
یہ کس کا میرے سینے پر خنک سا ہات ہے

Saturday 10 May 2014

ہوا بہت ہے متاع سفر سنبھال کے رکھ

ہوا بہت ہے متاعِ سفر سنبھال کے رکھ
دریدہ چادرِ جاں ہے مگر سنبھال کے رکھ
پھر اس کے بعد تو قدریں انہیں پہ اٹھیں گی
کچھ اور روز یہ دیوار و در سنبھال کے رکھ
ابھی اڑان کے سو امتحان باقی ہیں
ان آندھیوں میں بال و پر سنبھال کے رکھ

میں ہزار بار چاہوں کہ وہ مسکرا کے دیکھے

میں ہزار بار چاہوں کہ وہ مسکرا کے دیکھے
اسے کیا غرض پڑی ہے جو نظر اٹھا کے دیکھے
مِرے دل کا حوصلہ تھا کہ ذرا سی خاک اُڑا لی
مِرے بعد اس گلی میں کوئی اور جا کے دیکھے
کہیں آسمان ٹوٹا تو قدم کہاں رکیں گے
جِسے خواب دیکھنا ہو، وہ زمیں پہ آ کے دیکھے

دشت تنہائی میں کل رات ہوا کیسی تھی

دشتِ تنہائی میں کل رات ہوا کیسی تھی
دیر تک ٹوٹتے لمحوں کی صدا کیسی تھی
زندگی نے مِرا پیچھا نہیں چھوڑا اب تک
عمر بھر سر سے نہ اُتری، یہ بلا کیسی تھی
سنتے رہتے تھے محبت کے فسانے کیا کیا
بُوند بھر دل پہ نہ برسی، یہ گھٹا کیسی تھی

در و دیوار پہ ہجرت کے نشاں دیکھ آئیں

در و دیوار پہ ہجرت کے نِشاں دیکھ آئیں
آؤ ہم اپنے بزرگوں کے مکاں دیکھ آئیں
اپنی قسمت میں لکھے ہیں جو وراثت کی طرح
آؤ اک بار وہ زخمِ دل و جاں دیکھ آئیں
آؤ بِھیگی ہوئی آنکھوں سے پڑھیں نوحۂ دل
آؤ بکھرے ہوئے رشتوں کا زِیاں دیکھ آئیں

واں نقاب اٹھی کہ صبح حشر کا منظر کھلا

واں نقاب اٹھی کہ صبح حشر کا منظر کھلا 
یا کسی کے حسن عالم تاب کا دفتر کھلا
غیب سے پچھلے پہر آتی ہے کانوں میں صدا 
اٹھو اٹھو رحمت رب علا کا در کھلا
آنکھ جھپکی تھی تصور بندھ چکا تھا یار کا 
چونکتے ہی حسرت دیدار کا دفتر کھلا

وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا

 وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا 

ہم قفس راز اسیری کیا کہیں کیونکر کھلا

فرصت رنج اسیری دی نہ ان دھڑکوں نے ہائے 

اب چھری صیاد نے لی اب قفس کا در کھلا

اللہ اللہ اک دعائے مرگ کے دو دو اثر 

واں کھلا باب اجابت یاں قفس کا در کھلا

ہر شمع بجھی رفتہ رفتہ ہر خواب لٹا دھیرے دھیرے

ہر شمع بجھی رفتہ رفتہ، ہر خواب لٹا دھیرے دھیرے​
شیشہ نہ سہی، پتھر بھی نہ تھا، دل ٹوٹ گیا دھیرے دھیرے​
برسوں‌ میں‌ مراسم بنتے ہیں‌، لمحوں میں‌ بھلا کیا ٹوٹیں گے​
تُو مجھ سے بچھڑنا چاہے تو دیوار اٹھا دھیرے دھیرے​
احساس ہوا بربادی کا جب سارے گھر میں‌ دُھول اڑی​
آئی ہے ہمارے آنگن میں‌ پت جھڑ کی ہوا دھیرے دھیرے​

ہم تیرے شہر میں آئے ہیں مسافر کی طرح

گیت

ہم تیرے شہر میں آئے ہیں مسافر کی طرح
صرف اک بار ملاقات کا موقع دے دے

میری منزل ہے کہاں میرا ٹھکانا ہے کہاں
صبح تک تجھ سے بچھڑ کر مجھے جانا ہے کہاں
سوچنے کے لیے ایک رات کا موقع دے دے

بیگانہ وار ان سے ملاقات ہو تو ہو

بے گانہ وار ان سے ملاقات ہو تو ہو
اب دور دور ہی سے کوئی بات ہو تو ہو
مشکل ہے پھر ملیں کبھی یارانِ رفتگاں
تقدیر ہی سے اب یہ کرامات ہو تو ہو
ان کو تو یاد آئے ہوئے مدتیں ہوئیں
جینے کی وجہ اور کوئی بات ہو تو ہو

سناتا ہے کوئی بھولی کہانی

سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سنا ہے میں نے لوگوں ‌کی زبانی
یہاں اک شہر تھا، شہرِ نگاراں
نہ چھوڑی وقت نے اس کی نشانی

شہر سنسان ہے کدھر جائیں

شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
رات کتنی گزر گئی، لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں
یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں
جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں

تیرے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی

تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی
پکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی

کرب کا لشکر تھا مقابل اور تنہا ایک میں

کرب کا لشکر تھا مقابل اور تنہا ایک میں
سینکڑوں لاکھوں مسائل اور تنہا ایک میں
آندھیوں گرداب موجوں اور طوفانوں کے ساتھ
درپئے آزار ساحل اور تنہا ایک میں
میں جنہیں اپنا سمجھتا تھا انہیں ہمراہ لیے
آ رہا تھا میرا قاتل اور تنہا ایک میں

تنہا تنہا، مت سوچا کر

تنہا تنہا، مت سوچا کر
مر جائے گا، مت سوچا کر
پیار گھڑی بھر کا ہی بہت ہے
جھوٹا سچا، مت سوچا کر
جس کی فطرت ہی ڈسنا ہو
وہ تو ڈسے گا، مت سوچا کر

فیصلہ تم کو بھول جانے کا

فیصلہ تم کو بھول جانے کا ​
اِک نیا خواب ہے دیوانے کا ​
دل کلی کا لرز لرز اٹھا
ذکر تھا پھر بہار آنے کا ​
حوصلہ کم کسی میں ہوتا ہے ​
جیت کر خود ہی ہار جانے کا ​

Thursday 8 May 2014

ایک بس تو ہی نہیں مجھ سے خفا ہو بیٹھا

ایک بس تُو ہی نہیں مجھ سے خفا ہو بیٹھا
میں نے جو سنگ تراشا وہ خدا ہو بیٹھا ​
اٹھ کے منزل ہی اگر آئے تو شاید کچھ ہو
شوقِ منزل تو میرا آبلہ پا ہو بیٹھا ​
مصلحت چھین گئی قوتِ گفتار مگر
کچھ نہ کہنا ہی مرا میری صدا ہو بیٹھا ​

Wednesday 7 May 2014

گھوم پھر کر اسی کوچے کی طرف آئیں گے

گھوم پھر کر اسی کوچے کی طرف آئیں گے
دل سے نکلے بھی تو ہم لوگ کہاں جائیں گے
کبھی فرصت سے ملو تو تمہیں تفصیل کے ساتھ
امتیازِ ہوس و عشق بھی سمجھائیں گے
ہم کو معلوم تھا یہ وقت بھی آ جائے گا
ہاں مگر یہ نہیں سوچا تھا کہ پچھتائیں گے

ہمارے حال پہ وہ شادماں نظر آیا

ہمارے حال پہ وہ شادماں نظر آیا
ہمیں بھی اس سے زیادہ کہاں نظر آیا
رہی سہی وہ تب و تاب پیرہن بھی گئی
کہ آئینے کے مقابل دھواں نظر آیا
میں جی رہا تھا شب و روز کے تسلسل میں
وہ ماہتاب مجھے ناگہاں نظر آیا

میں وہ درخت ہوں کھاتا ہے جو بھی پھل میرے

میں وہ درخت ہوں کھاتا ہے جو بھی پھل میرے
ضرور مجھ سے یہ کہتا ہے ساتھ چل میرے
یہ کائنات تصرف میں تھی رہے جب تک
نظر بلند مری،۔۔ فیصلے اٹل میرے
مجھے نہ دیکھ، میری بات سن، کہ مجھ سے ہیں
کہیں کہیں متصادم بھی کچھ عمل میرے

کسی کے ہجر میں جینا محال ہو گیا ہے

کسی کے ہجر میں جینا محال ہو گیا ہے
کسے بتائیں ہمارا جو حال ہو گیا ہے
سحر جو آئی ہے شب کے تمام ہونے پر
تو اس میں کون سا ایسا کمال ہو گیا ہے
کوئی بھی چیز سلامت نہیں، مگر یہ دل
شکستگی میں جو اپنی مثال ہو گیا ہے

سو طرح کے غم اور ترے ہجر کا غم بھی

سو طرح کے غم اور ترے ہجر کا غم بھی
کیا زندگی کرنے کے لئے آئے ہیں ہم بھی
ہاں اس کا تقاضا تو فقظ ایک قدم تھا
افسوس بڑھا پائے نہ ہم ایک قدم بھی
اک رنجِ تعلق ہے کہ جتنا ہے بہت ہے
اک درد محبت جو زیادہ بھی ہے کم بھی

طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں

طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں
یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں
نگاہِ دل کو جو رنگِ ثبات سے بھر دے
ابھی وہ پھول کسی شاخ پر کھلا ہی نہیں
جو دیکھتا ہے، کسی کو نظر نہیں آتا
جو جانتا ہے، اُسے کوئی جانتا ہی نہیں

Tuesday 6 May 2014

ہم کو معلوم ہے اس بات پہ سر لگتا ہے

ہم کو معلوم ہے اس بات پہ سر لگتا ہے
کوئی زنجیر ہلاتا ہے تو ڈر لگتا ہے
کوئی خاموشی سے لپٹی ہوئی ویرانی میں
دل پہ بچھڑی ہوئی شاموں کا اثر لگتا ہے
میری آوارہ مزاجی کو بہت سہل نہ جان
ایک ہی راہ پہ عمروں کا سفر لگتا ہے

مدتوں بعد میرا سوگ منانے آئے

مدتوں بعد میرا سوگ منانے آئے
لوگ بھولا ہوا کچھ یاد دلانے آئے
بڑھ گیا دل کے جنازے میں ستاروں کا ہجوم
کتنے غم ایک تیرے غم کے بہانے آئے
رات اک اُجڑی ہوئی سوچ میرے پاس آئی
اور پھر اُجڑے ہوئے کتنے زمانے آئے

شہر ویران کے دروازے سے لگ کر روئے

شہرِ ویران کے دروازے سے لگ کر روئے
اپنی پہچان کے دروازے سے لگ کر روئے
اب تو ہم کتنی دفعہ آنکھوں کی عادت کے طفیل
غم کے امکان کے دروازے سے لگ کر روئے
اب اگر ٹوٹ گئے ہو تو شکایت کیسی
کیوں کسی مان کے دروازے سے لگ کر روئے

یہ دل ملول بھی کم ہے اداس بھی کم ہے

یہ دل ملول بھی کم ہے، اداس بھی کم ہے
کئی دنوں سے کوئی آس پاس بھی کم ہے
کچھ ان دنوں تیرا غم بھی برس نہیں پایا
کچھ ان دنوں مرے صحرا کی پیاس بھی کم ہے
تیرے بغیر، کسی باغ پر بہار نہیں
گلوں کا رنگ بھی پھیکا ہے باس بھی کم ہے

اپنی وابستگئ نو سے بھی کٹ کر آتے

اپنی وابستگئ نو سے بھی کٹ کر آتے
ہم کو کیا ایسی پڑی تھی کہ پلٹ کر آتے
چھوٹی سے چھوٹی پریشانی بھی یاد آئے گی
ہم کو معلوم نہ تھا ورنہ نمٹ کر آتے
ہم کو یہ کھیل ادھورے نہیں اچھے لگتے
ہم اگر آتے تو پھر بازی الٹ کر آتے

Monday 5 May 2014

جیسے مشام جاں میں سمائی ہوئی ہے رات

جیسے مشامِ جاں میں سمائی ہوئی ہے رات
خوشبو میں آج کس کی نہائی ہوئی ہے رات
سرگوشیوں میں بات کریں ابر و باد و خاک
اس وقت کائنات پہ چھائی ہوئی ہے رات
ہر رنگ جس میں خواب کا گھلتا چلا گیا
کس رنگ سے خدا نے بنائی ہوئی ہے رات

وقت رخصت آ گیا دل پھر بھی گھبرایا نہیں

وقتِ رخصت آ گیا، دل پھر بھی گھبرایا نہیں
اس کو ہم کیا کھوئیں گے جس کو کبھی پایا نہیں
زندگی جتنی بھی ہے اب مستقل صحرا میں ہے
اور اس صحرا میں تیرا دور تک سایہ نہیں
میری قسمت میں فقط درد تہِ ساغر ہی ہے
اول شب جام میری سمت وہ لایا نہیں

یہ غنیمت ہے کہ ان آنکھوں نے پہچانا ہمیں

یہ غنیمت ہے کہ ان آنکھوں نے پہچانا ہمیں
کوئی تو سمجھا دیارِ غیر میں اپنا ہمیں
وہ کہ جن کے ہاتھ میں تقدیرِ فصلِ گُل رہی
دے گئے سوکھے ہوئے پتوں کا نذرانہ ہمیں
وصل میں تیرے خرابے بھی لگیں گھر کی طرح
اور تیرے ہجر میں بستی بھی ویرانہ ہمیں

زباں پہ تذکرہ بام و در نہیں لاتا

زباں پہ تذکرۂ بام و در نہیں لاتا
وطن سے کوئی خبر، نامہ بر نہیں لاتا
گلاب کو نہ یقیں ہو گا جب تلک صیاد
ہوا کے طشت میں اِک مشت پر نہیں لاتا
یہ راہِ عشق ہے مقتل سے ہو کے جاتی ہے
سو اس سفر میں کوئی دل میں ڈر نہیں لاتا

دشت غربت میں ہیں اور رنج سفر کھینچتے ہیں

دشتِ غربت میں ہیں اور رنجِ سفر کھینچتے ہیں
بارِ ہستی ہے جسے خاک بہ سر کھینچتے ہیں
جن چراغوں کو میسر نہیں اس کی محفل
انتظار اس کا سرِ راہگزر کھینچتے ہیں
زندگی پھر تجھے پیش ہے زندانِ دمشق
اشقیا پھر تیرے کانوں سے گہر کھینچتے ہیں

لفظ بڑھے اور وعدے پھیلے دل کی حکایت ختم ہوئی

لفظ بڑھے اور وعدے پھیلے دل کی حکایت ختم ہوئی
وہاں ہوس کا پَھن لہرایا جہاں محبت ختم ہوئی
وہ بھی نہیں کہتا ملنے کو ہمیں بھی کچھ اصرار نہیں
سر سے سودا اتر گیا اور دل سے چاہت ختم ہوئی
جتنی کم سچائی ہو گی اتنی ہو گئی آرائش
جب مضمون سے لفط ہوں زائد سمجھو عبادت ختم ہوئی

الزام تھا دیے پہ نہ تقصیر رات کی

الزام تھا دیے🪔 پہ نہ تقصیر رات کی
ہم نے تو بس ہوا کے تعلق سے بات کی
ہر صبح جب کہ صبحِ قیامت کی طرح آئے
ایسے میں کون ہو گا جو سوچے ثبات کی
تکلیف تو ہوئی، مگر اے ناخنِ ملال
کھلنے لگی گرہ بھی کوئی اپنی ذات کی

رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں

رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں
شبِ وصال کا جیسے خُمار آنکھوں میں
مٹا سکے گی اسے گردِ ماہ و سال کہاں
کھنچی ہوئی ہے جو تصویرِ یار آنکھوں میں
بس ایک شب کی مسافت تھی اور اب تک ہے
مہ و نجوم کا سارا غبار آنکھوں میں

نظر بھی آیا اسے اپنے پاس بھی دیکھا

نظر بھی آیا اسے اپنے پاس بھی دیکھا
میری نگاہ نے یہ التباس بھی دیکھا
بہت دنوں پہ چلے اور گھر سے چلتے وقت
کسی کی آنکھ سے اپنا لباس بھی دیکھا
یہی کہا کہ نہیں اس کا راستہ تھا الگ
پھر اس کے بعد ہی خود کو اداس بھی دیکھا

تھک گیا ہے دل وحشی مرا فریاد سے بھی

تھک گیا ہے دلِ وحشی مِرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
اے ہوا! کیا ہے جو اب نظمِ چمن اور ہوا
صید سے بھی ہیں مراسم ترے، صیاد سے بھی
کیوں سِرکتی ہوئی لگتی ہے زمیں یاں ہر دَم
کبھی پوچھیں تو سبب شہر کی بنیاد سے بھی

سمندروں کے ادھر سے کوئی صدا آئی

سمندروں کے ادھر سے کوئی صدا آئی
دلوں کے بند دریچے کھلے، ہوا آئی
سرک گئے تھے جو آنچل، وہ پھر سنور گئے
کھلے ہوئے تھے جو سر، ان پہ پھر رِدا آئی
اتر رہی ہیں عجب خوشبوئیں رگ و پے میں
یہ کس کو چھو کے مِرے شہر میں صبا آئی

مسجد میں بیٹھ کر بھی نمازِ بتاں پڑھی

مسجد میں بیٹھ کر بھی نمازِ بُتاں پڑھی
اے ہم سِنو! یہ کُفر کی پٹّی، کہاں پڑھی
رسمی سا میل جول تھا، سمجھا کہ عشق ہے
دل نے بڑے یقیں سے، کتابِ گُماں پڑھی
پہلے تو اپنی راکھ سے تازہ جنم لیا
پھر اپنے کان میں بڑی اونچی اذاں پڑھی

صراط مستقیم آیا، نظر آیا، نہیں آیا

صراطِ مستقیم آیا، نظر آیا، نہیں آیا
مساجد میں کہیں پر رب کا گھر آیا، نہیں آیا
نہیں پہنچا کوئی مکتوب تیرا آسمانوں سے
فرستادہ ترا، وہ نامہ بر آیا، نہیں آیا
کتاب آئی، تلاوت بھی ہوئی اور وعظ بھی برسا
تو کیا اس سے تدبر کا ہنر آیا، نہیں آیا

امت ہے کس وبال میں، حالات کو سمجھ

امت ہے کس وبال میں، حالات کو سمجھ
یا شیخ، اختلاف نہ کر بات کو سمجھ
اِن شعبہ ہائے کذب و جہالت کو بند کر
تُو نے جو خود لگائی ہے اُس گھات کو سمجھ
پیتل کو کب سے سونا کہے جا رہا ہے تُو
یہ کیمیا گری ہے تری، دھات کو سمجھ

یہاں، نفرت پہ رد و کد نہیں ہے

یہاں، نفرت پہ رد و کد نہیں ہے
محبت کی کوئی ابجد نہیں ہے
یہ مُلّا گھر ہیں یا تیری مساجد
زمیں پر کیا کوئی معبد نہیں ہے
گزر گاہیں، ہر اِک جانب عدُو کی
وطن کی اب کوئی سرحد نہیں ہے

یہاں آئین بکتا ہے، یہاں قانون بکتا ہے

یہاں آئین بِکتا ہے، یہاں قانون بِکتا ہے
خُدا کی مملکت میں آدمی کا خون بِکتا ہے
لفافوں اور پلاٹوں کے عوض بِکتی ہے خودداری
یہاں پر میڈیا کا سیٹھ افلاطون بِکتا ہے
کوئی ڈالر میں بِکتا ہے کوئی کِک بیک کے بدلے
یہاں فرعون بِکتا ہے، یہاں قارون بِکتا ہے

Saturday 3 May 2014

حیرت ہے لوگ اب بھی اگر خوش عقیدہ ہیں

حیرت ہے لوگ اب بھی اگر خوش عقیدہ ہیں
ہم ساکنانِ قریۂ آفت رسیدہ ہیں
اس سنگ زار میں ہُنرِ آذری ہے شرط
کتنے صنم ہیں جو ابھی نا آفریدہ ہیں
ہم حرف گر، ہزار کہیں دل کے مرثیے
اس بارگاہ میں تو سراپا قصیدہ ہیں

گزرا ہوں جس طرف سے بھی پتھر لگے مجھے

گزرا ہوں جس طرف سے بھی پتھر لگے مجھے
ایسے بھی کیا تھے لعل و جواہر لگے مجھے
لو ہو چکی شفا کہ مداوائے دردِ دل
اب تیری دسترس سے بھی باہر لگے مجھے
ترسا دیا ہے ابرِ گریزاں نے اس قدر
برسے جو بوند بھی تو سمندر لگے مجھے

جیسے ہم بزم ہیں پھر یار طرحدار سے ہم

جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرحدار سے ہم​
رات مِلتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم​
سرخوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں گزرے​
کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دلدار سے ہم​
کبھی منزل، کبھی رَستے نے ہمیں ساتھ دیا​
ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم​

سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے

سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے
ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں، ہم ہی کاربندِ اُصولِ وفا نہ تھے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے 

یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ

یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ
سایۂ چشم میں‌ حیراں رُخِ روشن کا جمال
سُرخئ لب میں‌ پریشاں تری آواز کا رنگ
بے پئے ہوں، کہ اگر لطف کرو آخرِ شب
شیشۂ مے میں‌ ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ

عشق بتاں کو جی کا جنجال کر لیا ہے

عشقِ بُتاں کو جی کا جنجال کر لیا ہے
آخر یہ میں نے اپنا کیا حال کر لیا ہے
سنجیدہ بن کے بیٹھو اب کیوں نہ تم کہ پہلے
اچھی طرح سے مجھ کو پامال کر لیا ہے
نادم ہُوں جان دے کر، آنکھوں کو تُو نے ظالم
رو رو  کے بعد میرے، کیوں لال کر لیا ہے

تجھ کو پاس وفا ذرا نہ ہوا

تجھ کو پاسِ وفا ذرا نہ ہوا
ہم سے پھر بھی تِرا گلہ نہ ہوا
ایسے بِگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی
دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا
کٹ گئی احتیاطِ عشق میں عمر
ہم سے اظہارِ مُدعا نہ ہوا

رنج و غم مانگے ہے اندوہ و بلا مانگے ہے

رنج و غم مانگے ہے، اندوہ و بلا مانگے ہے
دل وہ مجرم ہے کہ خود اپنی سزا مانگے ہے
چپ ہے ہر زخمِ گلو، چپ ہے شہیدوں کا لہو
دستِ قاتل ہے جو محنت کا صِلہ مانگے ہے
تو بھی اک دولتِ نایاب ہے، پر کیا کہیے
زندگی اور بھی کچھ تیرے سوا مانگے ہے

ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر

ہم نے کاٹی ہیں تِری یاد میں راتیں اکثر
دل سے گزری ہیں تاروں کی باراتیں اکثر
عشق راہزن نہ سہی عشق کے ہاتھوں اکثر
ہم نے لٹتی ہوئی دیکھی ہیں باراتیں اکثر
ہم سے اک بار بھی جیتا ہے نہ جیتے گا کوئی
وہ تو ہم جان کے کھا لیتے ہیں ماتیں اکثر

سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی

سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی
ان سے یہی کہہ آئے کہ ہم اب نہ ملیں گے
آخر کوئی تقریبِ ملاقات بنے گی
یہ ہم سے نہ ہو گا کہ کسی ایک کو چاہیں
اے عشق! ہماری نہ تیرے ساتھ بنے گی

یاد بکھری ہے کہ سامان تمہارا مجھ میں

یاد بکھری ہے کہ سامان تمہارا مجھ میں
لگ رہا ہے کہ تم آؤ گے دوبارہ مجھ میں
تھے بھٹکتے ہوئے کچھ لوگ مِرے اندر بھی
تُو نے کیوں کوئی پیمبر نہ اتارا مجھ میں
خود سے نکلے ہوئے اک عمر ہوئی ہے مجھ کو
اور کوئی ڈھونڈتا پھرتا ہے سہارا مجھ میں

Friday 2 May 2014

تیری مرضی کے خد و خال میں ڈھلتا ہوا میں

تیری مرضی کے خد و خال میں ڈھلتا ہوا میں
خاک سے آب نہ ہو جاؤں پگھلتا ہوا میں
اے خزاں میں تجھے خوشرنگ بنا سکتا تھا
تجھ سے دیکھا نہ گیا پھولتا پھلتا ہوا میں
مجھ کو مانگی ہوئی عزت نہیں پوری آتی
ٹوٹ جاؤں نہ یہ پوشاک بدلتا ہوا میں

میں تری راکھ سے ایجاد کروں گا خود کو

میں تِری راکھ سے ایجاد کروں گا خود کو
پھر تِرے عشق میں برباد کروں گا خود کو
ہر محبت نے مِرا نام الگ رکھا تھا
جانے کس نام سے اب یاد کروں گا خود کو
اصل مجھ سے نہیں چُھپتا سو اداکاری میں
شاد کرتے ہوئے ناشاد کروں گا خود کو

عذاب زیست کی سامانیاں نہیں جاتیں

عذابِ زیست کی سامانیاں نہیں جاتیں
میری نظر سے وہ رعنائیاں نہیں جاتیں
بچھڑ کے تجھ سے بھی پرچھائیاں نہیں جاتیں
جو تیرے دَم سے تھیں شنوائیاں، نہیں جاتیں
گو ایک عمر جُدائی میں ہو گئی ہے بسر
خیال و خواب سے انگڑائیاں نہیں جاتیں

Thursday 1 May 2014

کچھ پیار محبت کے صدموں کچھ زہر بھرے پیمانوں سے

کچھ پیار محبت کے صدموں، کچھ زہر بھرے پیمانوں سے
جو ہوش گنوائے پِھرتے ہیں، کچھ کم تو نہیں دیوانوں سے
اِس حالت پر افسوس نہیں، یہ راہِ دل کا حاصل ہے
وہ عالم دل کو راس تھا کب، نفرت ہی رہی ایوانوں سے
وہ داغ کہ ان کی چاہت میں، اس دامنِ دل پر آئے ہیں
شَل رکھا اپنا دستِ طلب اور خوف رہے ارمانوں سے

وہ، جس کی یاد میں نیناں ہمارے ترسے رہے

وہ، جس کی یاد میں نیناں ہمارے ترسے رہے
اب اُس وطن کو بھی جانے سے، جاں کے ڈر سے رہے
جہاں میں جن کی توسط سے بے ثمر سے رہے
ہمارے حال سے وہ بھی تو بے خبر سے رہے
ہوا نہ ترکِ وطن سے بھی کچھ ہمیں حاصل
 دیارِ غیر میں آ کر بھی در بدر سے رہے