Monday 28 July 2014

میں آرزوئے جان لکھوں یا جان آرزو

میں آرزوئے جاں لکھوں، یا جانِ آرزو
تُو ہی بتا دے ناز سے، ایمانِ آرزو
آنسو نکل رہے ہیں تصور میں بن کے پھول
شاداب ہو رہا ہے گلستان آرزو
ایمان و جاں نثار تِری اک نگاہ پر
تُو جانِ آرزو ہے تو ایمانِ آرزو

ناحق نہ درد عشق کی ہمدم دوا کریں

ناحق نہ دردِ عشق کی ہمدم دوا کریں
تا حشر یہ خلش نہ مٹے، یہ دعا کریں
شکوے سے کی ہے نامۂ الفت کی ابتدا
جی چاہتا ہے آج پھر ان کو خفا کریں
الزامِ پارسائی نہ آئے شباب میں
جو پارسا ہوں، وہ مِرے حق میں دعا کریں

کس کی آنکھوں کا لئے دل پہ اثر جاتے ہیں

کس کی آنکھوں کا لیے دِل پہ اثر جاتے ہیں
 مۓ کدے ہاتھ بڑھاتے ہیں، جدھر جاتے ہیں
دل میں ارمانِ وصال، آنکھ میں طوفانِ جمال
ہوش باقی نہیں جانے کا، مگر جاتے ہیں
 بھولتی ہی نہیں دل کو تِری مستانہ نگاہ
ساتھ جاتا ہے یہ مۓ خانہ جدھر جاتے ہیں

وہ کبھی مل جائیں تو کیا کیجیے

وہ کبھی مِل جائیں تو کیا کیجئے
رات دن صورت کو دیکھا کیجئے
چاندنی راتوں میں اِک اِک پھول کو
بے خودی کہتی ہے, سجدہ کیجئے
جو تمنا بر نہ آئے عمر بھر
عمر بھر اس کی تمنا کیجئے

آشنا ہو کر تغافل آشنا کیوں ہو گئے

آشنا ہو کر تغافل آشنا کیوں ہو گئے
باوفا تھے تم، تو آخر بے وفا کیوں ہو گئے
اور بھی رہتے ابھی کچھ دن نظر کے سامنے
دیکھتے ہی دیکھتے، ہم سے خفا کیوں ہو گئے
ان وفاداری کے وعدوں کو الٰہی کیا ہوا
وہ وفائیں کرنے والے، بے وفا کیوں ہو گئے

Saturday 26 July 2014

فراتِ فکر کا مارا ہوا کہاں جاؤں

فراتِ فکر کا مارا ہوا کہاں جاؤں
صلیبِ غم پہ اتارا ہوا کہاں جاؤں
میں جنگ جیت کے آیا ہوں موت سے، لیکن
اب اپنی زیست سے ہارا ہوا کہاں جاؤں
کہاں پہ جاؤں تِری خلق کا ستایا ہوا
میں سُوئے دار پکارا ہوا کہاں جاؤں

یہ مجھ پہ تہمتیں کیسی کہ انحراف کیا

یہ مجھ پہ تہمتیں کیسی کہ انحراف کیا
اے عشق! تجھ سے تو لاکھوں نے اختلاف کیا
نہیں ہے میری ہتھیلی میں زندگی کی لکیر
کل ایک جوتشی نے مجھ پہ انکشاف کیا
مٹا دی اس نے مِری آخری گواہی بھی
بڑی صفائی سے قاتل نے خون صاف کیا

پس زندان سر راہ گزر آتے ہیں

پسِ زندان، سرِ راہ گزر آتے ہیں
 ہم کو ہر حال میں جینے کے ہنر آتے ہیں
 لوگ پتھر لیے ہاتھوں میں لپکتے ہیں ادھر
جب کسی پیڑ پہ دو چار ثمر آتے ہیں
 میں حقیقت کی حقیقت کو سمجھتا ہوں، مگر
 لوگ ویسے بھی نہیں، جیسے نظر آتے ہیں

Friday 25 July 2014

کتاب الحسن کا یہ مکھ صفا تیرا صفا دستا

کتاب الحسن کا یہ مُکھ صفا، تیرا صفا دِستا
تِرے ابرو کے وو مصرع سوں اس کا ابتدا دستا
تِرا مکھ حسن کا دریا و موجاں چین پیشانی
اُپر ابرو کی کشتی کے یوں تل جیوں ناخدا دستا
تِرے لب ہیں برنگِ حوضِ کوثر مخزنِ خوبی
یہ خالِ عنبریں تس پر بلال آسا کھڑا دستا

دلربا آیا نظر میں آج میری خوش ادا

دل ربا آیا نظر میں آج میری خوش ادا
خوش ادا ایسا نئیں دیکھا ہوں دوجا دلربا
بیوفا گر تجھ کوں بولوں ہے بجا اے نازنین
نازنین عالم منیں ہوتے ہیں اکثر بے وفا
کم نما ہے نوجواں میرا برنگ ماہِ نو
ماہِ نو ہوتا ہے اکثر اے عزیزاں کم نما

کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ

کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ
وفاداری نے دلبر کی بجھایا آتشِ غم کوں
کہ گرمی دفع کرتا ہے گلاب آہستہ آہستہ
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شبِ خلوت میں گلرو سوں
سوال آہستہ آہستہ، جواب آہستہ آہستہ

یارو کہاں تک اور محبت نبھاؤں میں

یارو! کہاں تک اور محبت نبھاؤں میں
دو مجھ کو بددعا کہ اسے بھول جاؤں میں
دل تو جلا گیا ہے وہ شعلہ سا آدمی
اب کس کو چھو کے ہاتھ بھی اپنا جلاؤں میں
سنتا ہوں اب کسی سے وفا کر رہا ہے وہ
اے زندگی! خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں میں

سہما سہما سا اک سایہ مہکی مہکی سی اک چاپ

سہما سہما سا اک سایہ مہکی مہکی سی اک چاپ
پچھلی رات مرے آنگن میں آ پہنچے وہ اپنے آپ
ذکر کریں وہ اور کسی کا بیچ میں آئے میرا نام 
اِن کے ہونٹوں پر ہے اب تک میرے پیار کی گہری چھاپ
اندھیاروں کی دیواروں کو پھاند کے چاند کہاں پہنچا
جہاں پیا کا آنا مشکل، اور پلک جھپکانا پاپ

جو خود اس کا رستہ روکیں ان کے آگے جھکتی ہے

جو خود اس کا رستہ روکیں ان کے آگے جھکتی ہے
ورنہ، ہر دروازے پر تقدیر بھلا کب رکتی ہے
میری گلی کے لٹنے والے شور مچاتے ہیں لیکن
تب امداد پہنچتی ہے جب بربادی ہو چکتی ہے
ساون تو ہے ایک مگر کیا کہیے اس دو رنگی کو
باہر پڑے پھوار تو اندر جان ہماری پُھکتی ہے

اتنا سا گلہ ہے مجھے اربابِ حرم سے

اتنا سا گلہ ہے مجھے اربابِ حرم سے
نفرت وہ کئے جاتے ہیں میرے ہی صنم سے
وہ جب سے گیا، شہر میں ہے قحطِ رقیباں
اس شہر کی رونق تھی اسی شخص کے دم سے
سچ یہ ہے کہ ہم اس سے بچھڑ کر بھی جئیں گے
مرتا نہیں دنیا میں کوئی ہجر کے غم سے

کیا کچھ ہونے والا ہے یہ تم کو نہیں اندازہ

کیا کچھ ہونے والا ہے، یہ تم کو نہیں اندازہ
شہر کے لوگو! کھلا نہ رکھنا کوئی بھی دروازہ
جس کے ہاتھ میں خنجر ہو گا وہی بنے گا منصف
یوں ہم اپنی فریادوں کا بھگتیں گے خمیازہ
سو سو بار یہاں سب کو مصلوب کیا جائے گا
اِک اِک شخص کا نکلے گا اب سو سو بار جنازہ

ہر طرف سطوت ارژنگ دکھائی دے گی

ہر طرف سطوتِ ارژنگ دکھائی دے گی
رنگ برسیں گے زمیں دنگ دکھائی دے گی
بارشِ خونِ شہیداں سے وہ آئے گی بہار
ساری دھرتی ہمیں گلرنگ دکھائی دے گی
پربتوں سے نکل آئیں گے تھرکتے پیکر
نغمہ زن خامشئ سنگ دکھائی دے گی

Thursday 24 July 2014

گزرا ہے بے گانہ بن کر کیسا وہ

گزرا ہے بے گانہ بن کر کیسا وہ
کبھی نہیں تھا آج سے پہلے ایسا وہ
اندر اندر ٹوٹا سا اِک پیمانہ
باہر باہر لال گلابی مئے سا وہ
میں نے جھانک کے دیکھا اُسکی آنکھوں میں 
وہ لگتا ہے جیسا، نہیں تھا ویسا وہ

ان جھیل سی نیلی آنکھوں میں لہرائے کنول کیوں یادوں کے

ان جھیل سی نیلی آنکھوں میں، لہرائے کنول کیوں یادوں کے
تُو بیتے دنوں میں قید ہے کیوں، یہ کام نہیں آزادوں کے
کس خواب کے پیچھے بھاگی تُو، کس نگری میں برباد ہوئی
جو توڑ گئے ہیں دل تیرا، کیا نام تھے ان شہزادوں کے
بے موسم تیرے آنگن میں، برسات کا موسم کیوں آیا
تُو ساتھ کہاں سے لے آئی، یہ بادل ساون بھادوں کے

زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا

زندگی کے غم لاکھوں اور چشمِ نم تنہا
حسرتوں کی میت پر رو رہے ہیں ہم تنہا
مل سکا نہ کوئی بھی ہمسفر زمانے میں
کاٹتے رہے برسوں جادۂ الم تنہا
کھیل تو نہیں یارو! راستے کی تنہائی
کوئی ہم کو دکھلائے چل کے دو قدم تنہا

کچھ راحتوں کی کھوج میں آئی تھی زندگی

کچھ راحتوں کی کھوج میں آئی تھی زندگی
دیکھا تو اِک لحد میں سمائی تھی زندگی
کیا کیا نہ ایک شخص نے رکھی سنبھال کر
معلوم اب ہوا کہ پرائی تھی زندگی
ہو جائے ریزہ ریزہ لگے جب ذرا سی ٹھیس
کیا سوچ کر خدا نے بنائی تھی زندگی

جب اپنے اعتماد کے محور سے ہٹ گیا

جب اپنے اعتماد کے محور سے ہٹ گیا
میں ریزہ ریزہ ہو کے حریفوں میں بٹ گیا
دشمن کے تن پہ گاڑ دیا میں نے اپنا سر
میدانِ کارزار کا پانسا پلٹ دیا
تھوڑی سی اور زخم کو گہرائی مل گئی
تھوڑا سا اور درد کا احساس گھٹ گیا

تری آنکھوں میں جب کھلتے ہوئے دیکھے کنول میں نے

تری آنکھوں میں جب کھلتے ہوئے دیکھے کنول میں نے
ستاروں کو سنائی دیر تک اپنی غزل میں نے
وہ تیرے جسم سے چھنتی ہوئی کچھ دِلربا کرنیں
نہ دیکھا تھا کبھی یوں جلوۂ حسنِ ازل میں نے
غموں کی دھوپ جن کے روزنوں سے جھانک سکتی ہے
سجائے تیرے سایوں سے وہ خوابوں کے محل میں نے

لے گیا اپنی سب ریکھائیں اپنے ساتھ

لے گیا اپنی سب ریکھائیں اپنے ساتھ
دروازے پر دستک دینے والا ہاتھ
آپ سنبھل جائے گا ٹھوکر کھانے پر
دِل کو میں سمجھاؤں، میری کیا اوقات 
یاد نہ وہ آئے تو آنکھیں کیا برسیں
جب چھائے گا بادل تب ہو گی برسات

ہوا کی لہر کوئی چھو کے میرے یار سے آئی

ہوا کی لہر کوئی چُھو کے میرے یار سے آئی 
کوئی تازہ خبر یوں بھی سمندر پار سے آئی
لبوں سے کم اور آنکھوں سے بہت کرتا ہے وہ باتیں
بلاغت اس میں یہ پابندئ اظہار سے آئی 
وہ اس کی گفتگو، کلیاں چٹکنے کی صدا جیسے
یہ نرمی اس کے لہجے میں ہمارے پیار سے آئی 

اپنے لبوں کو دشمن اظہار مت بنا

اپنے لبوں کو دشمنِ اظہار مت بنا
سچے ہیں جو انہی کو گنہگار مت بنا
دل کو دبا دبا کے نہ رکھ دھڑکنوں تلے
بے چینیوں کے لطف کو آزار مت بنا
جتنے بھی لفظ ہیں وہ مہکتے گلاب ہیں
لہجے کے فرق سے انہیں تلوار مت بنا

Wednesday 23 July 2014

رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں

رقص کرنے کا مِلا حکم جو دریاؤں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لئے پاؤں میں
ان کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں
اے میرے ہمسفرو! تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کرو چھاؤں میں

چارہ گر دل بیتاب کہاں آتے ہیں

چارہ گر دلِ بے تاب، کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یک مُشت اسے سونپ دوں سب کچھ لیکن
ایک مٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں
مدتوں بعد اسے دیکھ کے دل بھر آیا
ورنہ صحراؤں میں یہ سیلاب کہاں آتے ہیں

Saturday 19 July 2014

یہ بات نرالی دل خود دار کرے ہے

یہ بات نرالی دلِ خود دار کرے ہے
تڑپے ہے مگر درد سے انکار کرے ہے
دنیا کا یہ انداز سمجھ میں نہیں آتا
دیکھے ہے حقارت سے کبھی پیار کرے ہے
تسلیم اسے کوئی بھی دل سے نہیں کرتا
وہ فیصلہ جو جبر کی تلوار کرے ہے

کسی جبیں پر شکن نہیں ہے کوئی بھی مجھ سے خفا نہیں ہے

کسی جبیں پر شکن نہیں ہے کوئی بھی مجھ سے خفا نہیں ہے
بغور میرا پیام شاید ابھی جہاں نے سنا نہیں ہے
سفینۂ عہدِ نو پہ چھایا ہوا ہے بہروپیوں کا لشکر
یہاں ہر اک ناخدا نما ہے مگر کوئی ناخدا نہیں ہے
خیال کے دیوتا بھی جھوٹے عمل کے سب سورما بھی جھوٹے
خرد بھی فریاد رس نہیں ہے جنوں بھی مشکل کشا نہیں ہے

اف رے شکایت جفا واہ رے شکوۂ ستم

اف رے شکایتِ جفا، واہ رے شکوۂ ستم
ہنستے رہے حضور میں، رو دیے دور جا کے ہم
دستِ ہوس میں سیف ہے، جہل کے ہاتھ میں قلم
معرکۂ حیات میں رہ گئے خالی ہاتھ ہم
ہائے یہ کیا مقام ہے، ہائے یہ کیا نظام ہے
عشق کی آستیں بھی نم، حُسن کی آستیں بھی نم

ہر سکوں کی تہ میں سو آتش فشاں رکھتا ہوں میں

ہر سکوں کی تہ میں سو آتش فشاں رکھتا ہوں میں
ضبط کا اک رخ نمایاں، اک نہاں رکھتا ہوں میں
اے پرستارانِ نغمہ! چھوڑ کر تارِ 🎸 رباب
آج کچھ دُکھتی رگوں پر انگلیاں رکھتا ہوں میں
ہائے رے نیرنگیاں ہوں تو چراغ اب بھی، مگر
روشنی رکھتا تھا پہلے اب دھواں رکھتا ہوں میں

Friday 18 July 2014

لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا

لوحِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخرو ہوئے
اچھا ہوا کہ نام گیا، ننگ رہ گیا
ہوتی نہ ہم کو سایۂ دیوار کی تلاش
لیکن محیطِ زیست بہت تنگ رہ گیا

وہ اکثر باتوں باتوں میں اغیار سے پوچھا کرتے ہیں

وہ اکثر باتوں باتوں میں اغیار سے پوچھا کرتے ہیں
یہ سر بہ گریباں دیوانے کس شے کا تقاضا کرتے ہیں
اک دن تھا، کہ ساحل پر بیٹھے طوفاں پہ تبسم کرتے تھے
اب مایوسی کے عالم میں، ساحل کا تماشا کرتے ہیں
خطرہ ہے وفا کے لٹنے کا، مجبورئ دل بھی لازم ہے
جینے کی تمنا کرتے ہیں، مرنے کا تقاضا  کرتے ہیں

تری چشم طرب کو دیکھنا پڑتا ہے پرنم بھی

تِری چشمِ طرب کو دیکھنا پڑتا ہے پرنم بھی
محبت خندۂ بے باک بھی ہے، گریہ غم بھی
تھکن تیرے بدن کی عذر کوئی ڈھونڈ ہی لیتی
حدیثِ محفلِ شب کہہ رہی ہے زلفِ برہم بھی
بقدرِ دل یہاں سے شعلۂ جاں سوز ملتا ہے
چراغِ حسن کی لو شوخ بھی ہے اور مدھم بھی

فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے

فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے
بت کو یوں پوج رہے ہیں کہ خدا ہو جیسے
ایک پر پیچ غنا، ایک حریری نغمہ
ہاۓ وہ حسن کہ جنگل کی صدا ہو جیسے
عشق یوں وادئ ہجراں میں ہوا محوِ خرام
خار زاروں میں کوئی آبلہ پا ہو جیسے

ساغر اچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے

ساغر اچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے
ہر شے میں ان کا حسنِ نظر دیکھتے رہے
گلشن کو ہم برنگِ دِگر دیکھتے رہے
ہر گام پر خزاں کا خطر دیکھتے رہے
ہم نے تو کروٹوں میں جوانی گزار دی
حسرت سے بزمِ غیر کا در دیکھتے رہے

Monday 14 July 2014

کتنے اہل ہوش کس کس طرح بہکانے اٹھے

کتنے اہلِ ہوش کس کس طرح بہکانے اٹھے
آپ کے کوچے سے اٹھنے تھے نہ دیوانے اٹھے
رنج و راحت کا وہ یوں مفہوم سمجھانے اٹھے
راہ میں کانٹے بچھا کر پھول برسانے اٹھے
ظرفِ ساقی ہی نہ جب دیکھا تو پھر کیا بیٹھتے
آنسوؤں سے بھر کے ہم آنکھوں کے پیمانے اٹھے

کہاں کے مالک و مختار ہم تو کچھ بھی نہیں

کہاں کے مالک و مختار ہم تو کچھ بھی نہیں
فریب دے نہ درِ یار ہم تو کچھ بھی نہیں
مِری جھجک پہ وہ ساقی سے شیخ کا ارشاد
بس اک یہی تو ہیں دِیندار ہم تو کچھ بھی نہیں
‘‘کہاں وہ گرمئ گفتار ’’ہم ہی سب کچھ ہیں
‘‘کہاں یہ سردئ کردار ’’ہم تو کچھ بھی نہیں

Sunday 13 July 2014

آباد رہیں گے ویرانے شاداب رہیں گی زنجیریں

آباد رہیں گے ویرانے، شاداب رہیں گی زنجیریں
جب تک دیوانے زندہ ہیں پھولیں گی پھلیں گی زنجیریں
آزادی کا دروازہ بھی خود ہی کھولیں گی زنجیریں
ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی جب حد سے بڑھیں گی زنجیریں
جب سب کے لب سل جائیں گے ہاتھوں سے قلم چھن جائیں گے
باطل سے لوہا لینے کا اعلان کریں گی زنجیریں

سمٹے بیٹھے ہو کیوں بزدلوں کی طرح

سمٹے بیٹھے ہو کیوں بزدلوں کی طرح
آؤ میدان میں غازیوں کی طرح
کون رکھتا ہمیں موتیوں کی طرح
مل گئے خاک میں آنسوؤں کی طرح
روشنی کب تھی اتنی مِرے شہر میں
جل رہے ہیں مکاں مشعلوں کی طرح

دل فروشوں کے لیے کوچہ و بازار بنے

دل فروشوں کے لیے کوچہ و بازار بنے
اور جانبازوں کی خاطر رسن و دار بنے
بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
تیری دیوار سے اونچی مِری دیوار بنے
چھین کر غیر سے اپنوں نے مجھے قتل کیا
آپ ہی ڈھال بنے، آپ ہی تلوار بنے

گداز دل سے ملا سوزش جگر سے ملا

گداز دل سے ملا، سوزشِ جگر سے ملا
جو قہقہوں میں گنوایا تھا چشم تر سے ملا
تعلقات کے اے دل💚! ہزار پہلو ہیں
نہ جانے مجھ سے وہ کس نقطۂ نظر سے ملا
کبھی تھکن کا کبھی فاصلوں کا رونا ہے
سفر کا حوصلہ مجھ کو نہ ہمسفر سے ملا

Saturday 12 July 2014

ہر ایک بات پہ تلوار کھینچتا کیوں ہے

ہر ایک بات پہ تلوار کھینچتا کیوں ہے
تُو میرے سر سے یہ دستار کھینچتا کیوں ہے
تُو صاف کیوں نہیں کہتا، کہ چھوڑ جا مجھ کو
قدم قدم پہ یہ دیوار کھینچتا کیوں ہے
میں وه نہیں ہوں جو دنیا سمجھ رہی ہے مجھے
میں وه نہیں ہوں تو انکار کھینچتا کیوں ہے

خیال و خواب سے باب یقیں تک آیا ہوں

خیال و خواب سے بابِ یقیں تک آیا ہوں
میں ایک لمبے سفر میں زمیں تک آیا ہوں
یہ آسمان مرے سامنے بنے ہوئے ہیں
میں پہلے بھی ترے عرشِ بریں تک آیا ہوں
اے بد قماش زمانے! مجھے فریب نہ دے
میں سر اٹھائے محبت کے دِیں تک آیا ہوں

Thursday 10 July 2014

حادثے کے لئے تیار مجھے کرتا ہے

حادثے کے لیے تیار مجھے کرتا ہے
روز اک خواب خبردار مجھے کرتا ہے
یہ تو میں ہوں جو کناروں میں سمٹ جاتا ہوں
تُو سمجھتا ہے کہ تُو پار مجھے کرتا ہے
پہلے میں راستہ ہموار کیا کرتا تھا
اور اب راستہ ہموار مجھے کرتا ہے

بہار آئے گی اور میں نمو نہیں نہیں کروں گا

بہار آئے گی اور میں نمو نہیں نہیں کروں گا
خزاں کو اب کے برس سرخرو نہیں کروں گا
دکھاؤں گا تِری بے چہرگی تجھے کسی دن
اور آئینہ بھی تِرے رو برو نہیں کروں گا
یہ دودھ کوزۂ آلودہ کے لئے نہیں ہے
میں ہر کسی سے تِری گفتگو نہیں کروں گا

Tuesday 8 July 2014

نہ شوخیوں سے نہ سنجیدگی سے ملتی ہیں

نہ شوخیوں سے نہ سنجیدگی سے ملتی ہیں
وہ لذتیں جو تِری برہمی سے ملتی ہیں
جب اسکے غم کے سوا زیست کچھ نہیں ہوتی
وہ ساعتیں بڑی خوش قسمتی سے ملتی ہیں
نہیں ضرور کہ قربت ہو وصل کا حاصل
کہ دوریاں بھی تو وابستگی سے ملتی ہیں

وادئ حسن ہم اس سیر و سفر سے گزرے

وادئ حُسن ہم اس سیر و سفر سے گزرے
دل لرز اٹھا وہ نظارے نظر سے گزرے
راہ روکے ہوئے خود راہنما بیٹھے ہیں
اب کوئی قافلہ گزرے تو کدھر سے گزرے
اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہگزر سے گزرے

دار و رسن نے کس کو چنا دیکھتے چلیں

دار و رسن نے کس کو چنا دیکھتے چلیں
یہ کون سر بلند ہوا، دیکھتے چلیں
آئے گا پھر چمن پہ تصرف کا وقت بھی
پہلے قفس کی آب وہوا دیکھتے چلیں
جاتے تھے ہم تو پھیر کے منہ جلوہ گاہ سے
لیکن دل و نظر نے کہا، دیکھتے چلیں

باد صبا یہ ظلم خدارا نہ کیجیو

بادِ صبا! یہ ظلم خدارا نہ کیجیو
اس بے وفا سے ذکر ہمارا نہ کیجیو
غم کی کمی نہیں ہے جہانِ خراب میں
اے دل! ترس ترس کے گزارا نہ کیجیو
بدتر ہے موت سے بھی غلامی کی زندگی
مر جائیو،۔ مگر یہ گوارا نہ کیجیو

کہاں یہ سطح پسندی ادب کو لے آئی

کہاں یہ سطح پسندی ادب کو لے آئی 
جہاں نظر کی بلندی نہ دل کی گہرائی 
اب آدمی کا ٹھکانہ، نہ کائنات کی خیر 
سنا ہے اہلِ خِرد ہو گئے ہیں سودائی
ہزار حیف کہ ہم تیرے بے وفا ٹھہرے 
ہزار شکر کہ ہم کو ہوس نہ راس آئی 

مہرباں وہ لبِ جو آج ہوا پانی پر

مہرباں وہ لبِ جو آج ہوا پانی پر
چھیڑ کر پاؤں سے احسان کیا پانی پر
ہو گیا شیخ کی مہمان نوازی کا شکار
اکتفا رِند🍷 کو کرنا ہی پڑا پانی پر
لیجیے مل گئی بے چارے غریبوں کو دوا
پڑھ کے اک شخص نے کچھ پھونک دیا پانی پر

نہیں ہوتیں کبھی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ

نہیں ہوتیں کبھی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ
ہماری کشتیاں رہتی ہیں طوفانوں سے وابستہ
ہمارا ہی جگر ہے یہ، ہمارا ہی کلیجا ہے
ہم اپنے زخم رکھتے ہیں نمکدانوں سے وابستہ
نہ لے چل خانقاہوں کی طرف شیخِ حرم مجھ کو
مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ

بزم تکلفات سجانے میں رہ گیا

بزمِ تکلفات سجانے میں رہ گیا
میں زندگی کے ناز اٹھانے میں رہ گیا
تاثیر کے لیے جہاں تحریف کی گئی
اک جھول بس وہیں پہ فسانے میں رہ گیا
سب مجھ پہ مہرِ جرم لگاتے چلے گئے
میں سب کو اپنے زخم دکھانے میں رہ گیا

ایسی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ

ایسی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ
جب بھڑکتی ہے تو بھڑکے ہی چلی جاتی ہے آگ
خاک سرگرمی دکھائیں بے حسی کے شہر میں
برف کے ماحول میں رہ کر ٹھٹھر جاتی ہے آگ
پاسباں آنکھیں ملے، انگڑائی لے، آواز دے
اتنے عرصے میں تو اپنا کام کر جاتی ہے آگ

Monday 7 July 2014

بڑے ادب سے غرورِ ستمگراں بولا

بڑے ادب سے غرورِ ستمگراں بولا
جب انقلاب کے لہجے میں بے زباں بولا
’’تکو گے یونہی ہواؤں کا منہ بھلا کب تک‘‘
یہ ناخداؤں سے اک روز بادباں بولا
ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پرستوں کے
ابھی میں بزم میں آیا، ابھی کہاں بولا

سوز نہ ہو تو سازِ حیات

سوز نہ ہو تو سازِ حیات
بس اک روکھی پھیکی بات
جل اٹھ، جل اٹھ، شمعِ یقیں
رات ہے اور اندھیری رات
آہ، یہ حسن کی نایابی
اف یہ جلووں کی بہتات

چاہے تن من سب جل جائے

چاہے تن من سب جل جائے
سوزِ دروں پر آنچ نہ آئے
شیشہ ٹوٹے، غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
بحرِ محبت توبہ، توبہ
تیرا جائے نہ ڈوبا جائے

کارواں چاہے مختصر ہو جائے

کارواں چاہے مختصر ہو جائے
کوئی رہزن نہ ہمسفر ہو جائے
خام اب بھی نہیں ہے عشق، مگر
چوٹ کھا لے تو پختہ تر ہو جائے
بارِ مرہم بھی زخم پر منظور
تاکہ تسکینِ چارہ گر ہو جائے

آخرش چوٹ کھا گئی دنیا

آخرش چوٹ کھا گئی دنیا
اپنی ہی زد میں آ گئی دنیا
آدمی نے کب آنکھ کھولی ہے
آہ، جب مٹ مٹا گئی دنیا
ہم ابھی جرم بھی سمجھ نہ سکے
فیصلہ بھی سنا گئی دنیا

بے سہاروں کا انتظام کرو

بے سہاروں کا انتظام کرو
یعنی اک اور قتلِ عام کرو
خیر خواہوں کا مشورہ یہ ہے
ٹھوکریں کھاؤ اور سلام کرو
دب کے رہنا ہمیں نہیں منظور
ظالمو! جاؤ اپنا کام کرو

ہم توجہ کے سزاوار نہ تھے

ہم توجہ کے سزاوار نہ تھے
سیدھے سادے تھے اداکار نہ تھے
ہم سے کیوں بچ کے زمانہ گزرا
ہم کوئی سنگ نہ تھے خار نہ تھے
اس لیے گر گئے نظروں سے تِری
ہم تِرے حاشیہ بردار نہ تھے

اس دور بے ضمیر میں جینا سکھا دیا

اس دورِ بے ضمیر میں جینا سکھا دیا
حالات نے ہمیں بھی منافق بنا دیا
جب اس نے میرے فن کا مجھے واسطہ دیا
اک نام اپنی نظم سے میں نے ہٹا دیا
جینے ہی دے مجھے نہ وہ مرنے ہی دے مجھے
خنجر چلا دیا، کبھی مرہم لگا دیا

چھیڑ دو دل کی داستاں لوگو

چھیڑ دو دل کی داستاں لوگو
آپ بندھ جائے گا سماں لوگو
میں نے اقبالِ جرم کر تو لیا
دیر اب کیا ہے حکمراں لوگو
ظلم تھک کر سوال کرتا ہے
کیوں نہیں مرتے سخت جاں لوگو

Sunday 6 July 2014

ترے دیار میں ہم سر جھکائے پھرتے ہیں

تِرے دیار میں ہم سر جھکائے پھرتے ہیں 
نگاہِ ناز کے احسان اٹھائے پھرتے ہیں 
کسی کی زُلف پریشان، کسی کا دامن چاک 
جنون کو لوگ تماشا بنائے پھرتے ہیں 
قدم قدم پہ لیا انتقام دنیا نے 
تجھ ہی کو جیسے گلے سے لگائے پھرتے ہیں 

دل دیوانہ عرض حال پر مائل تو کیا ہو گا

دلِ دیوانہ عرضِ حال پر مائل تو کیا ہو گا
مگر وہ پوچھ بیٹھے خود ہی حالِ دل تو کیا ہو گا
ہمارا کیا، ہمیں تو ڈوبنا ہے، ڈوب جائیں گے
مگر، طوفان جا پہنچا لبِ ساحل تو کیا ہو گا
زرابِ ناب ہی سے ہوش اڑ جاتے ہیں انساں کے
تِرا کیفِ نظر بھی ہو گیا شامل تو کیا ہو گا

Friday 4 July 2014

تھوڑی سی روشنی کے وہ آثار کیا ہوئے

تھوڑی سی روشنی کے وہ آثار کیا ہوئے
رکھے تھے جو دِیے سرِ دیوار کیا ہوئے
چارہ گروں کی سازشِ چارہ گری گئی
اے شہرِ آرزو! تِرے بیمار کیا ہوئے
کندہ تھے جتنے حرف وہ کتبوں سے مِٹ گئے
قبروں سے پوچھتا ہوں مِرے یار کیا ہوئے

لباس تن پہ سلامت ہیں ہاتھ خالی ہیں

لباس تن پہ سلامت ہیں، ہاتھ خالی ہیں
ہم ایک ملکِ خداداد کے سوالی ہیں
منافقت نے لہو تن میں اتنا گرمایا
کہ گفتگو میں ریاکاریاں سجا لی ہیں
ہمارے دل میں ہیں اب آماجگاہ حرص و ہوس
کہ ہم نے سینوں میں تاریکیاں اگا لی ہیں

سر پہ تیغ بے اماں ہاتھوں میں پیالہ زہر کا

سر پہ تیغِ بے اماں ہاتھوں میں پیالہ زہر کا
کس طرح ہونٹوں پہ لاؤں حال اپنے شہر کا
بہہ رہے ہیں پانیوں میں گھر سفینوں کی طرح
ساحلوں سے اس طرح اچھلا ہے پانی نہر کا
اس بدن پر اب قبائے شہریاری تنگ ہے
جس نے چھینا ہے کفن تک ہر غریبِ شہر کا

میں کسی طور سخن ساز مثالی نہ بنا

میں کسی طور سخن سازِ مثالی نہ بنا
میر و غالب تو کجا مومن و حالی نہ بنا
آسمانوں کے مکیں میری زمینوں کو سجا
عرشِ بے مایہ پر فردوسِ خیالی نہ بنا
پُر ہوا جام سے کچھ پہلے مرا کاسۂ عمر
اے خدا! شکر ہے میں ترا سوالی نہ بنا

یہ اطمینان دل کو ہے کہ ہم گھر بار رکھتے ہیں

یہ اطمینان دل کو ہے کہ ہم گھر بار رکھتے ہیں
شکستہ ہیں مگر اپنے در و دیوار رکھتے ہیں
جدا ہے مفلس و زردار سے ملنے کا پیمانہ
ہر انسان کے لیے ہم اک الگ معیار رکھتے ہیں
وہی ہیں ان دنوں مقبول تمثیلِ سیاست میں
جو سارے کھیل میں اک مرکزی کردار رکھتے ہیں

بجھا کے رکھ دے یہ کوشش بہت ہوا کی تھی

بجھا کے رکھ دے یہ کوشش بہت ہوا کی تھی
مگر، چراغ میں کچھ روشنی انا کی تھی ​
مری شکست میں کیا کیا تھے مضمرات نہ پوچھ ​
عدو کا ہاتھ تھا، اور چال آشنا کی تھی ​
فقیہِ شہر نے بے زار کر دیا، ورنہ ​
دلوں میں قدر بہت خانۂ خدا کی تھی​

Thursday 3 July 2014

وہ اور تھے جو ملے بزدلی کی راہ تجھے

وہ اور تھے جو ملے بزدلی کی راہ تجھے
سہوں گا جان پہ اے حسنِ بے پناہ تجھے
فقیر کیوں تجھے مرنے کی بد دعا دے گا
ترا غرور ہی کر جائے گا تباہ تجھے
رخِ سفید! کبھی اپنےاندرون سے پوچھ
وہ بات کیا تھی کہ جو کر گئی سیاہ تجھے

ہم اپنے عہد کے وہ مطمئن منافق ہیں

ہم اپنے عہد کے وہ مطمئن منافق ہیں
جو اپنے آپ کو ترتیب سے گنوا رہے ہیں
ہوائے عصر! کوئی تعزیت تو کر ہم سے
ہم اپنے ملک میں ہجرت کا دکھ اٹھا رہے ہیں
یہ بد ترین سیاہی بھِی اپنے بخت میں تھی
خود اپنے گھر کو جلا کر بھی مسکرا رہے ہیں

زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں

زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں
تجھ کو لپٹ پڑیں گے یہ دیوانے آدمی ہیں
غیروں کی دوستی پر کیوں اعتبار کیجیے
یہ دشمنی کریں گے بے گانے آدمی ہیں
جو آدمی پہ گزری وہ اک سوا تمہارے
کیا جی لگا کے سنتے افسانے آدمی ہیں

غضب ہے جس کو وہ کافر نگاہ میں رکھے

غضب ہے جس کو وہ کافر نگاہ میں رکھے
خدا نگاہ سے اُس کی پناہ میں رکھے
برا ہوں میں تو مجھے رکھیے اپنے پیش نظر
برے کو چاہیے انسان نگاہ میں رکھے
پہنایا ہار گلے کا پھر اس پہ یہ طرہ
کہ پھول غیر کے تم نے کلاہ میں رکھے

وہ دشمن جاں جان سے پیارا بھی کبھی تھا

وہ دشمنِ جاں، جان سے پیارا بھی کبھی تھا
اب کس سے کہیں کوئی ہمارا بھی کبھی تھا
اترا ہے رگ و پے میں تو دل کٹ سا گیا ہے
یہ زہرِ جدائی کہ گوارا بھی کبھی تھا
ہر دوست جہاں ابرِ گریزاں کی طرح ہے
یہ شہر کبھی شہر ہمارا بھی کبھی تھا

چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا

چل نکلتی ہیں غمِ یار سے باتیں کیا کیا
ہم نے بھی کیں در و دیوار سے باتیں کیا کیا
بات بن آئی ہے پھر سے کہ مِرے بارے میں
اس نے پوچھیں مِرے غمخوار سے باتیں کیا کیا
لوگ لب بستہ اگر ہوں تو نکل آتی ہیں
چپ کے پیرایۂ اظہار سے باتیں کیا کیا

یہ میں بھی کیا ہوں اسے بھول کر اسی کا رہا

یہ میں بھی کیا ہوں، اسے بھول کر اسی کا رہا
کہ جس کے ساتھ نہ تھا، ہمسفر اسی کا رہا
وہ بُت کہ دشمنِ دِیں تھا بقول ناصح کے
سوالِ سجدہ جب آیا تو در اسی کا رہا
ہزار چارہ گروں نے ہزار باتیں کیں
کہا جو دل نے سخن معتبر اسی کا رہا

وہ شخص جس کو مری زندگی میں آنا تھا

وہ شخص جس کو مِری زندگی میں آنا تھا
سنا ہے اس کے تعاقب میں اِک زمانہ تھا
نہ تھا پسند کسی کو بھی دِل کا دل سےملاپ
مگر، ہمیں تو دیے سے دِیا جلانا تھا
نہ جانے بھیگ چلی کیوں ہماری پیشانی
ہمارے سر پہ تو سورج کا شامیانہ تھا

کب تلک شمع جلی یاد نہیں

کب تلک شمع جلی، یاد نہیں
شام غم کیسے ڈھلی، یاد نہیں
اس قدر یاد ہے اپنے تھے سبھی
کس نے کیا چال چلی، یاد نہیں
ہم زمانے میں کچھ ایسے بھٹکے
اب تو ان کی بھی گلی، یاد نہیں

اپنے لبوں کو دشمن اظہار مت بنا

اپنے لبوں کو دشمنِ اظہار مت بنا
سچے ہیں جو انہی کو گنہگار مت بنا
دل کو دبا دبا کے نہ رکھ دھڑکنوں تلے
بے چینیوں کے لطف کو آزار مت بنا
جتنے بھی لفظ ہیں وہ مہکتے گلاب ہیں
لہجے کے فرق سے انہیں تلوار مت بنا

یہ بات نرالی دل خود دار کرے ہے

یہ بات نرالی دل خود دار کرے ہے
تڑپے ہے مگر درد سے انکار کرے ہے
دنیا کا یہ انداز سمجھ میں نہیں آتا
دیکھے ہے حقارت سے کبھی پیار کرے ہے
تسلیم اسے کوئی بھی دل سے نہیں کرتا
وہ فیصلہ جو جبر کی تلوار کرے ہے

عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے

عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
یہ بانکپن تھا ہمارا کہ ظلم پر ہم نے
بجائے نالہ و فریاد شاعری کی ہے
ذرا سے پاؤں بھگوئے تھے جا کے دریا میں
غرور یہ ہے کہ ہم نے شناوری کی ہے

تیرے سنگ پریتی سائیں

تیرے سنگ پریتی سائیں

تیرے سنگ پریتی سائیں
تیرے سنگ پریتی
بِسر گئی سب سُدھ بُدھ اپنی
کیا بیتی جگ بیتی سائیں
تیرے سنگ پریتی

دل نہ ازل سے راضی سائیں

دل نہ ازل سے راضی سائیں
دل نہ ازل سے راضی
ایک ہی رمز سمائی من میں
کیا مُلّا کیا قاضی سائیں
دل نہ ازل سے راضی
آدھی رات میں کُوک سخن کی
اُڑتی آتش بازی سائیں

یونہی اس عشق میں اتنا گوارا کر لیا جائے

یونہی اس عشق میں اتنا گوارا کر لیا جائے​
کسی پچھلی محبت کو دوبارہ کر لیا جائے​
شجر کی ٹہنیوں کے پاس آنے سے ذرا پہلے​
دعا کی چھاؤں میں کچھ پَل گزارا کر لیا جائے​
ہمارا مسئلہ ہے مشورے سے اب بہت آگے​
کسی دن احتیاطاً استخارا کر لیا جائے​

میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں

میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں​
کسی کی آنکھ میں پانی ہی پانی چھوڑ آیا ہوں​
ابھی تو اس سے ملنے کا بہانہ اور کرنا ہے​
ابھی تو اس کے کمرے میں نشانی چھوڑ آیا ہوں​
بس اتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو​
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیا ہوں​

مشورہ جو بھی ملا ہم نے وہی مان لیا

مشورہ جو بھی ملا ہم نے وہی مان لیا
عشق میں اچھے برے سب ہی کا احسان لیا
تم فقط خواہشِ دل ہی نہیں اب ضد بھی ہو
دل میں رہتے ہو تو پھر دل میں تمہیں ٹھان لیا 
وہ مِرے گزرے ہوئے کل میں کہیں رہتا ہے
اس لیے دور سے اس شخص کو پہچان لیا

گزر چکے ہیں جو ان کے نشاں ہی دیکھ آئیں

گزر چکے ہیں جو ان کے نشاں ہی دیکھ آئیں
بجھی ہے آگ تو اس کا دھواں ہی دیکھ آئیں
گزشتگان کی محرومیاں ہی دیکھ آئیں
کھنڈر میں بکھری ہوئی رسیاں ہی دیکھ آئیں
ضرورتیں نہ سہی، خواہشیں تو پوری ہوں
خرید سکتے نہیں، تو دکاں ہی دیکھ آئیں

تو بھی آ جائے یہاں اور مرا بچپن بھی

تُو بھی آ جائے یہاں اور مِرا بچپن بھی
ختم ہو جائے کہانی بھی ہر اک الجھن بھی
خیر اس ہجر میں آنکھیں تو چلی جاتی ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں کلائی کے نئے کنگن بھی 
بھیک مل جاتی ہے اور پانی بھی پی لیتا ہوں
ہاتھ کشکول بھی ہیں اور مِرے برتن بھی

کبھی درخت کبھی جھیل کا کنارا ہے

کبھی درخت کبھی جھیل کا کنارا ہے
یہ ہجر ہے کہ محبت کا استعارا ہے
تم آؤ اور کسی روز اس کو لے جاؤ
بس ایک سانس ہے اس پر بھی حق تمہارا ہے
خدائے عشق گلہ تجھ سے ہے جہاں سے نہیں
مِرے لہو میں محبت کو کیوں اتارا ہے