Sunday 22 November 2015

سفر کی راہ میں اک ریگزار ایسا تھا

سفر کی راہ میں اک ریگزار ایسا تھا
نظر نہ آتا تھا کچھ بھی غبار ایسا تھا
ہمارے قتل میں ہو جیسے ہاتھ اس کا بھی
ہماری موت پہ وہ سوگوار ایسا تھا
اسیرِ دائرۂ کائنات ہی رہی ذات
کسی طرح بھی نہ ٹوٹا حصار ایسا تھا
رہے نہ یاد ملے تھے جو زخم پچھلے برس
کچھ اب کے سال میں رنگِ بہار ایسا تھا
ہمیں جو چھاؤں کہیں ملتی تپتے صحرا میں
کہاں کوئی شجرِ سایہ دار ایسا تھا
اس آتی جاتی بہار و خزاں پہ تہمت کیا
کہ دل کا نخل ہی بے برگ و بار ایسا تھا

محسن زیدی

No comments:

Post a Comment