Monday 23 February 2015

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
جس کی آواز میں سلوٹ ہو نگاہوں میں شکن
ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے
شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا، تھوڑا
جانے والوں کے لئے دل نہیں توڑا کرتے

ہاں میرے غم تو اٹھا لیتا ہے غم خوار نہیں

ہاں میرے غم تو اٹھا لیتا ہے، غمخوار نہیں 
دل پڑوسی ہے مگر میرا طرفدار نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی 
گھر میں دروازہ تو ہے، پیچھے کی دیوار نہیں
آپ کے بعد یہ محسوس ہوا ہے ہم کو 
جینا مشکل نہیں اور مرنا بھی دشوار نہیں

ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا

ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مِرے افسانے کا
ایک دروازہ سا کھلتا ہے کتب خانے کا
ایک سناٹا دبے پاؤں گیا ہو جیسے
دل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا
بُلبُلا پھر سے چلا پانی میں غوطہ کھانے
نہ سمجھنے کا اسے وقت نہ سمجھانے کا

کانچ کے پیچھے چاند بھی تھا اور کانچ کے اوپر کائی بھی

کانچ کے پیچھے چاند بھی تھا اور کانچ کے اوپر کائی بھی
تینوں تھے ہم، وہ بھی تھے، اور میں بھی تھا، تنہائی بھی
یادوں کی بوچھاڑوں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں
سوندھی سوندھی لگتی ہے تب، ماضی کی رسوائی بھی
دو دو شکلیں دِکھتی ہیں اس بہکے سے آئینے میں
میرے ساتھ چلا آیا ہے، آپ کا ایک سودائی بھی

خمار غم ہے مہکتی فضا میں جیتے ہیں

خمارِ غم ہے، مہکتی فضا میں جیتے ہیں 
تیرے خیال کی آب و ہوا میں جیتے ہیں
بڑے تپاک سے ملتے ہیں ملنے والے مجھے 
وہ میرے دوست ہیں، تیری وفا میں جیتے ہیں
فراقِ یار میں سانسوں کو روک کے رکھتے ہیں 
ہر ایک لمحہ گزرتی قضا میں جیتے ہیں

اک رات چلو تعمیر کریں

اک رات چلو تعمیر کریں 
خاموشی کے سنگِ مرمر پہ
تان کے تاریکی سر پہ
دو شمعیں جلائیں جسموں کی
دبے پاؤں اوس اترے
تو آہٹ بھی نہ پائے سانسوں کی

پوچھے جو کوئی میری نشانی رنگ حنا لکھنا

پوچھے جو کوئی میری نشانی رنگِ حنا لکھنا 
گورے بدن پہ انگلی سے میرا نام ادا لکھنا
کبھی کبھی آس پاس چاند رہتا ہے
کبھی کبھی آس پاس شام رہتی ہے
آؤ ناں آؤ ناں جہلم میں بہہ لیں گے
وادی کے موسم بھی اِک دن تو بدلیں گے

Friday 20 February 2015

غم اس کے پاس ہی سے گزرنے نہیں دیا

غم اس کے پاس ہی سے گزرنے نہیں دیا
اس کی گلی میں پاؤں بھی دھرنے نہیں دیا
آنکھیں تو ڈبڈبائیں تِری یاد میں، مگر
پلکوں پہ آنسوؤں کو اترنے نہیں دیا
دل آئینہ شکار ہوا ٹوٹ پھوٹ کا
لیکن تمہارا عکس بکھرنے نہیں دیا

ایسا چپ چاپ سا نہیں ہوتا

ایسا چپپ چاپ سا نہیں ہوتا
جس کو کوئی گِلہ نہیں ہوتا
گر مِرا سامنا نہیں ہوتا
آئینہ، آئینہ نہیں ہوتا
جب کوئی قافلہ نہیں ہوتا
راستہ، راستہ نہیں ہوتا

جاتے جاتے وہ کوئی گل تو کھلا ہی دیں گے

جاتے جاتے وہ کوئی گُل تو کھِلا ہی دیں گے
نامِ تعمیر پہ گُلشن کو تباہی دیں گے
بس یہی، بزم سے وہ ہم کو اٹھا ہی دیں گے
بات ہم بھی تو مگر اپنی سنا ہی دیں گے
اور کچھ بھی نہ سہی، اشک ستارے ہی سہی
جیسے تیسے تِری راہوں کو سجا ہی دیں گے

مجھ سے ناراض ہوئے دوست پرانے میرے

مجھ سے ناراض ہوئے دوست پرانے میرے
رابطے توڑ دئیے میری انا نے میرے
میری آنکھیں کسی ویران کھنڈر جیسی ہیں
لے گیا چھین کے وہ خواب سہانے میرے
ورنہ میں گردشِ دوراں سے کہاں بچتا تھا
مسئلے حل کیے سب ماں کی دعا نے میرے

Thursday 19 February 2015

اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو

اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
دیوانۂ گل، قیدیٔ زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو

بیاں جب کلیم اپنی حالت کرے ہے

بیاں جب کلیم اپنی حالت کرے ہے
غزل کیا پڑھے ہے قیامت کرے ہے
بھلا آدمی تھا، پہ ناداں نکلا
سنا ہے کسی سے محبت کرے ہے
کبھی شاعری اس کو کرنی نہ آتی
اسی بے وفا کی بدولت کرے ہے

جس جگہ بیٹھنا دکھ درد ہی گانا ہم کو

جس جگہ بیٹھنا دکھ درد ہی گانا ہم کو
اور آتا ہی نہیں کوئی فسانہ ہم کو
کل ہر اک زلف سمجھتی رہی شانہ ہم کو
آج آئینہ دکھاتا ہے زمانہ ہم کو
عقل پھرتی ہے لیے خانہ بہ خانہ ہم کو
عشق اب تُو ہی بتا کوئی ٹھکانہ ہم کو

حقیقتوں کا جلال دیں گے صداقتوں کا جمال دیں گے

حقیقتوں کا جلال دیں گے، صداقتوں کا جمال دیں گے
تجھے بھی اے غمِ زمانہ! غزل کے سانچے میں ڈھال دیں گے
تپش پتنگوں کی بخش دیں گے، لہو چراغوں میں ڈال دیں گے
ہم ان کی محفل میں رہ گئے ہیں تو ان کی محفل سنبھال دیں گے
نہ بندۂ عقل و ہوش دیں گے، نہ اہلِ فکر و خیال دیں گے
تمہاری زلفوں کو جو درازی تمہارے آشفتہ حال دیں گے

ہم نے بے فائدہ چھیڑی غم ایام کی بات

ہم نے بے فائدہ چھیڑی غمِ ایام کی بات
کون بے کار یہاں ہے کہ سنے کام کی بات
شمع کی طرح کھڑا سوچ رہا ہے شاعر
صبح کی بات سنائے کہ کہے شام کی بات
ہم غریبوں کو تو عادت ہے جفا سہنے کی
ڈھونڈ ہی لیتے ہیں تکلیف میں آرام کی بات

دل بے تاب تک ہے یا جہاں تم ہو وہاں تک ہے

دل بیتاب تک ہے، یا جہاں تم ہو وہاں تک ہے
نہیں معلوم میرے درد کی دنیا کہاں تک ہے
کبھی وابستہ کر دے گی حدودِ قید و آزادی
یہ زنجیرِ تصور جو قفس سے آشیاں تک ہے
ہوئی جب ناامیدی پِھر کہاں یہ لطف جینے کا
فریبِ زندگانی اعتبارِ دوستاں تک ہے

جب کبھی عالم مستی میں غزل کہتے ہیں

جب کبھی عالمِ مستی میں غزل کہتے ہیں
آج کہہ دیتے ہیں ہم، لوگ جو کل کہتے ہیں
وہ بہاتا ہے لہو، اور غزل سنتا ہے
ہم لہو گھونٹتے ہیں اور غزل کہتے ہیں
درد و غم جمع کیا میرؔ نے، ہم نے بھی کیا
وہ بھی کہتے تھے غزل، ہم بھی غزل کہتے ہیں

Wednesday 18 February 2015

اور کوئی دم کی ہے مہماں گزر جائے گی رات

اور کوئی دم کی ہے مہماں گزر جائے گی رات
ڈھلتے ڈھلتے آپ اپنی موت مر جائے گی رات
زندگی میں اور بھی کچھ زہر بھر جائے گی رات
اب اگر ٹھہری، رگ و پے میں اتر جائے گی رات
ہے افق سے ایک سنگِ آفتاب آنے کی دیر
ٹوٹ کر مانندِ آئینہ بکھر جائے گی رات

آج مئی کا پہلا دن ہے آج کا دن مزدور کا دن ہے

آج مئی کا پہلا دن ہے، آج کا دن مزدور کا دن ہے
ظلم و ستم کے مدِ مقابل، حوصلۂ جمہور کا دن ہے
آج کا دن ہے علم و ہنر کا، فکر و عمل کی فتح و ظفر کا
آج شکستِ ظلمتِ شب ہے، آج فروغِ نور کا دن ہے
صدیوں کے مظلوم انساں نے، آج کے دن خود کو پہچانا
آج کا دن ہے یوم انا الحق، آج کا دن منصور کا دن ہے

اے جنوں کچھ تو کھلے آخر میں کس منزل میں ہوں

اے جنوں کچھ تو کھُلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوارِ یار میں، یا کوچۂ قاتل میں ہوں
پابجولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب
میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں
جشن فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے
حال میں ہوں اور زندہ اپنےمستقبل میں ہوں

افق اگرچہ پگھلتا دکھائی پڑتا ہے

افق اگرچہ پگھلتا دکھائی پڑتا ہے
مجھے تو دور سویرا دکھائی پڑتا ہے
ہمارے شہر میں بے چہرہ لوگ بستے ہیں
کبھی کبھی کوئی چہرہ دکھائی پڑتا ہے
چلو کہ اپنی محبت سبھی کو بانٹ آئیں
ہر ایک پیار کا بھوکا دکھائی پڑتا ہے

اپنا کوئی ملے تو گلے سے لگائیے

اپنا  کوئی ملے تو گلے سے لگائیے
کیا کیا کہیں گے لوگ اسے بھول جائیے
قدموں سے چل کے پاس تو آتے ہیں غیر بھی
آپ آ رہے ہیں پاس تو کچھ دل سے آئیے
ہم دھڑکنوں کے پاس ہیں دل کے قریب ہیں
ہے شرط یہ کہ ڈھونڈ کر ہم کو دکھائیے

Monday 2 February 2015

کوئی حد نہیں ہے کمال کی

کوئی حد نہیں ہے کمال کی
کوئی حد نہیں ہے جمال کی
وہی قرب و دور کی منزلیں
وہی شام خواب و خیال کی
نہ مجھے ہی اس کا پتہ کوئی
نہ اسے خبر مِرے حال کی

نواح وسعت میداں میں حیرانی بہت ہے

نواحِ وسعتِ میداں میں حیرانی بہت ہے
دلوں میں اس خرابی سے پریشانی بہت ہے
کہاں سے ہے، کہاں تک ہے، خبر اس کی نہیں ملتی
یہ دنیا اپنے پھیلاؤ میں انجانی بہت ہے
بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجرِ یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے

بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آ کے سامنے

بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آ کے سامنے
میں ہی بس ہوتا ہوں اس کی اس ادا کے سامنے
تیز تھی اتنی کہ سارا شہر سونا کر گئی
دیر تک بیٹھا رہا میں اس ہوا کے سامنے
رات اِک اُجڑے مکاں پہ جا کے جب آواز دی
گونج اُٹھے بام و در میری صدا کے سامنے

باد بہار غم میں وہ آرام بھی نہ تھا

بادِ بہارِ غم میں وہ آرام بھی نہ تھا 
وہ شوخ آج شام لبِ بام بھی نہ تھا
درد فراق ہی میں کٹی ساری زندگی
گرچہ تِرا وصال بڑا کام بھی نہ تھا
رستے میں ایک بھُولی ہوئی شکل دیکھ کر
آواز دی تو لب پہ کوئی نام بھی نہ تھا

ہوائے شوق کے رنگیں دیار جلنے لگے

ہوائے شوق کے رنگیں دیار جلنے لگے
ہوئی جو شام تو جھکڑ عجیب چلنے لگے
نشیبِ در کی مہک راستے سجانے لگی 
فرازِ بام کے مہتاب دل میں ڈھلنے لگے
وہاں رہے تو کسی نے بھی ہنس کے بات نہ کی
چلے وطن سے تو سب یار ہاتھ ملنے لگے

Sunday 1 February 2015

ساری دنیا کی نظروں میں جھوٹے ہیں

ساری دُنیا کی نظروں میں جھُوٹے ہیں 
اندرسے ہم لوگ جو ٹُوٹے پھُوٹے ہیں
کھُل کر سامنے اب آیا وہ ہرجائی
برسوں بعد پرانے قیدی چھُوٹے ہیں
کبھی نہ اُترا کوئی جن کے ساحل پر
وہ گُمنام جزیرے کس نے لُوٹے ہیں

کرنوں کی جہاں چاپ سنائی ہمیں دے گی

کرنوں کی جہاں چاپ سنائی ہمیں دے گی
کب چاند کی نگری وہ دکھائی ہمیں دے گی
اب دور تلک پھیلی نظر آتی ہیں راہیں
اب لطفِ سفر، آبلہ پائی ہمیں دے گی
زنجیر بھی جس میں تری زلفوں کی طرح ہو
اس قید سے قسمت ہی رہائی ہمیں دے گی

ان گیسوؤں کی چھاؤں میں دم لینا چاہیے

ان گیسوؤں کی چھاؤں میں دم لینا چاہیے
تپتی رُتوں میں لطفِ اِرم لینا چاہیے
ہے دُشمنِ قرار، غمِ عاشقی، مگر
جاں دے کے بھی مِلے تو یہ غم لینا چاہیے
پھیلا ہے اتنا حسن کہ اس کائنات میں
انساں کو بار بار جنم لینا چاہیے

غم حیات کو حیرت میں ڈالتے رہنا

غمِ حیات کو حیرت میں ڈالتے رہنا
جہاں تلک بھی ہو ساغر اچھالتے رہنا
جلی ہوئی ہیں جو شمعیں اداس پلکوں پر
انہی سے قریۂ جان کو اجالتے رہنا
عدو سے ربط بڑھا کر بھی کب روا ٹھہرا
یہ ہم کو وعدۂ فردا پہ ٹالتے رہنا