Sunday 29 March 2015

سانحہ کتنا بڑا ہے سانحے کو کیا پتہ

سانحہ کتنا بڑا ہے، سانحے کو کیا پتہ
کون زَد میں آ گیا ہے، حادثے کو کیا پتہ
چلنے والا عمر بھر چلتا رہے اس پر، مگر
کس کی منزل کس طرف ہے، راستے کو کیا پتہ
دو دلوں کے درمیاں زنجیر کی صورت رہا
کس نے توڑا، کیسے توڑا، رابطے کو کیا پتہ

غم کی جاگیر کو کچھ اور بڑھا سکتے ہو


غم کی جاگیر کو کچھ اور بڑھا سکتے ہو
تم اگر چاہو مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہو
خواب میں ساتھ تھے ہم، چاند مِری مُٹھی میں
تم جو چاہو اسے تعبیر بنا سکتے ہو
آئینہ ٹوٹ کے حصوں میں بٹا ہے کیسے
میں ہوں خاموش اگر، تم تو بتا سکتے ہو

عشق کار محال ہے کیا ہے

عشق کارِ محال ہے، کیا ہے
آپ کا یہ خیال ہے، کیا ہے
خط میں بھیجا گیا گلاب مگر
وصل کا یہ سوال ہے، کیا ہے
جو مِلا، بھولتا گیا آخر
یہ ستاروں کی چال ہے، کیا ہے

عہد و پیمان بھولتا ہی نہیں

عہد و پیمان بھولتا ہی نہیں
عشق، پہچان بھولتا ہی نہیں
وہ بھی حیران تھا بھلا کے ہمیں
اتنا حیران، بھولتا ہی نہیں
گھاؤ دل کا تو بھر گیا لیکن
ترا احسان بھولتا ہی نہیں

Friday 27 March 2015

کس قدرصاحب کردارسمجھتے ہیں مجھے

کس قدرصاحبِ کردارسمجھتے ہیں مجھے
مجھ کو تھا زعم، مِرے یار سمجھتے ہیں مجھے
اب تو کچھ اور بھی گہری ہیں مِری بنیادیں
اب تو گھر والے بھی دیوارسمجھتے ہیں مجھے
میں تو بازار میں اترا تھا کہ رونق ہے یہاں
اور یہ لوگ خریدار سمجھتے ہیں مجھے

جو بظاہر نظر آتا ہے نہاں سا کچھ ہے

جو بظاہر نظر آتا ہے نہاں سا کچھ ہے
یہ جو ٹہرے ہوئے پانی میں رواں سا کچھ ہے
 یہ جو اٹھتا ہے تواتر سے دھواں سا کچھ ہے
آگ پکڑی ہے کہیں ہم نے گماں سا کچھ ہے
 مجھ کو یہ عیب محبت نہیں کرنے دیتا
دل میں جو وسوسۂ سود و زیاں سا کچھ ہے

اسی کے نور سے یہ روشنی بچی ہوئی تھی

اسی کے نور سے یہ روشنی بچی ہوئی تھی
میرے نصیب میں جو تیرگی بچی ہوئی تھی
ہمارے بیچ میں اک پختگی بچی ہوئی تھی
بچی ہوئی تھی مگر عارضی بچی ہوئی تھی
کمال یہ تھا کہ ہم بحث ہار بیٹھے تھے
ہمارے لہجے کی شائستگی بچی ہوئی تھی

Wednesday 25 March 2015

کل شب ہوئی کسی سے ملاقات رقص میں

کل شب ہوئی کسی سے ملاقات رقص میں
وہ کب تھی، زندگی تھی مِرے ساتھ رقص میں
اک دوسرے کو تھامے ہوئے بے سبب نہ تھے
محسوس کی ہے گردشِ حالات رقص میں
اس کے بدن کی آنچ مِرے دل تک آ گئی
آوارہ ہو رہے تھے مِرے ہاتھ رقص میں

ذکر جاناں سے جو شہر سخن آراستہ ہے​

ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے​
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے​
یوں پھِریں باغ میں بالا قد و قامت والے​
تو کہے سرو و سمن سے چمن آراستہ ہے​
خوش ہو اے دل! کہ تِرے ذوقِ اسیری کیلئے​
کاکلِ یار، شکن در شکن آراستہ ہے​

یوں تو میخانے میں مے کم ہے نہ پانی کم ہے

یوں تو مے خانے میں مے کم ہے نہ پانی کم ہے
پھر بھی کچھ کشتئ صہبا میں روانی کم ہے
سچ تو یہ ہے کہ زمانہ جو کہے پھرتا ہے
اس میں کچھ رنگ زیادہ ہے، کہانی کم ہے
آؤ! ہم خود ہی درِ یار سے ہو آتے ہیں
یہ جو پیغام ہے قاصد کی زبانی، کم ہے

فراز تم نے عبث شوق سے سجائے سخن

فراز تم نے عبث شوق سے سجائے سخن
کہاں وہ قامتِ جاناں، کہاں قبائے سخن
بیان اس گُلِ رعنا کا بے قیاس نہ کر
کہ عندلیب کا دل چاہیے برائے سخن
کہ ذکرِ یار تو جان و جگر کا سودا ہے
کہ خونِ دل تو نہیں ہے فقط بہائے سخن

جنت گوش بنی مجھ سے گنہگار کی بات

جنتِ گوش بنی مجھ سے گنہگار کی بات
آ گئی تھی مِرے لب پر میرے دلدار کی بات
وہ نہیں ہے تو یونہی دل کو دُکھانے کے لئے
چھیڑ دی ہم نے کسی یارِ دلآزار کی بات
اس ستمگر کو سبھی لوگ برا کہتے ہیں
کوئی سنتا ہی نہیں مِرے غمخوار کی بات

کسی کا در نہ کوئی آستانہ آگے تھا

کسی کا در، نہ کوئی آستانہ آگے تھا
اس آشنا کا تو دل میں ٹھکانہ آگے تھا
میں خوش نشیں تھا کہ دوگام ہی تو جانا تھا
میں دیکھتا ہوں تو کوسوں زمانہ آگے تھا
کہانیاں بھی اِنہیں سانحوں سے بنتی ہیں
جو رنج جھیل رہا ہوں، فسانہ آگے تھا

احساں کئے تھے اس نے جور عتاب کر کے

احساں کئے تھے اس نے جور عتاب کر کے
ہم کس قدر ہیں نادم اس سے حساب کر کے
اس سے کِیا تقاضا ہم عبث وفا کا
اچھی بھلی محبت رکھ دی عذاب کر کے
کس درجہ بدمزہ تھا واعظ کا وعظ یوں تو
کچھ چاشنی سی آئی ذکرِ شراب کر کے

اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ

اجل سے خوفزدہ، زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
سو جی رہے ہیں مِرے شہر میں مِرے ہوئے لوگ
یہ بے دلی، کسی آفت کا پیش خیمہ نہ ہو
کہ چشم بستہ ہیں زانو پہ سر دھرے ہوئے لوگ
نہ کوئی یاد نہ آنسو، نہ پھول ہیں نہ چراغ
تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے ہوئے لوگ

پیش جاناں سخن آشفتہ سری ہے خاموش

پیشِ جاناں، سخن آشفتہ سری ہے، خاموش
تُو جو گویا ہے، تِری بے خبری ہے، خاموش
دل کو ایک فیصلہ کرنا ہے تِرے بارے میں
اِس گھڑی جان ہتھیلی پہ دھری ہے، خاموش
اب کے شب گزری تو اک تیری مِری بات نہیں
شہر کا شہر, چراغِ سحری ہے، خاموش

اب اور نہیں ڈرنا

اب اور نہیں ڈرنا

یہ کون ہیں، جن کی دنیا میں دہشت کی حکومت چلتی ہے
اور جن کی قاتل آنکھوں میں بس موت کی وحشت ناچتی ہے
یہ کون ہیں، جن کا دین دھرم
اک جھوٹ پہ قائم جنت کی دوزخ سے گواہی لینا ہے
سورج سے آنکھ چرانا ہے، راتوں سے سیاہی لینا ہے

گلیڈی ایٹرز: ہم اپنے قتل ہونے کا تماشا دیکھتے ہیں

گلیڈی ایٹرز

ہم اپنے قتل ہونے کا تماشا دیکھتے ہیں
تو اپنی تیز ہوتی سانس کے کانوں میں کہتے ہیں
ابھی جو ریت پر لاشہ گرا تھا“
میں نہیں تھا
میں تو زندہ ہوں،،، یہاں
دیکھو

تیرا کیا بنے گا اے دل

تیرا کیا بنے گا اے دل

کسی خواب سے فروزاں کسی یاد میں سمٹ کر
کسی حُسن سے درخشاں کسی نام سے لپٹ کر
وہ جو منزلیں وفا کی مِرے راستوں میں آئیں
وہ جو لذتیں طلب کی مِرے شوق نے اٹھائیں
انہیں اب میں جمع کر کے کبھی دھیان میں جو لاؤں
تو ہجومِ رنگ و بو میں کوئی راستہ نہ پاؤں

اپنے گھر کی کھڑکی سے میں آسمان کو دیکھوں گا

اپنے گھر کی کھڑکی سے میں آسمان کو دیکھوں گا
جس پر تیرا نام لکھا ہے اُس تارے کو ڈھونڈوں گا
تم بھی ہر شب دیا جلا کر پلکوں کی دہلیز پہ رکھنا
میں بھی روز اک خواب تمہارے شہر کی جانب بھیجوں گا
ہجر کے دریا میں تم پڑھنا لہروں کی تحریریں بھی
پانی کی ہر سطر پہ میں کچھ دل کی باتیں لکھوں گا

دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے

دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے
دروازہ ہم کو تیز ہوا کھولنے تو دے
اپنے لہو کی تال پہ خواہش کے مور کو
اے دشتِ احتیاط! کبھی ناچنے تو دے
سودا ہے عمر بھر کا کوئی کھیل تو نہیں
اے چشمِ یار! مجھ کو ذرا سوچنے تو دے

Sunday 22 March 2015

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی میرا ہے

بستی بھی، سمندر بھی، بیاباں بھی میرا ہے
آنکھیں بھی میری خوابِ پریشاں بھی میرا ہے
جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری
جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی میرا ہے
جو ہاتھ اٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے
جو چاک ہوا ہے وہ گریباں بھی میرا ہے

فضا میں وحشت سنگ و سناں کے ہوتے ہوئے

فضا میں وحشتِ سنگ و سِناں کے ہوتے ہوئے
قلم ہے رقص میں آشوبِ جاں کے ہوتے ہوئے
ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
بضد ہے دل کہ نئے راستے نکالے جائیں
نشانِ رہگزرِ رفتگاں کے ہوتے ہوئے

حجرہ جاں میں باغ کی جانب ایک نیا در باز کیا

حجرۂ جاں میں باغ کی جانب ایک نیا در باز کیا
ہم نے میرؔ سے رُوتابی کی بدعت کا آغاز کیا
خوابوں کی پسپائی کے چرچے گلی گلی تھے جب ہم نے
دل کے ہاتھ پہ بیعت کر لی، دنیا کو ناراض کیا
جانے وہ کیسا موسم تھا جس نے بھری بہار کے بعد
اس گُل کو شادابی بخشی، ہم کو دست دراز کیا

جنوں کا رنگ بھی ہو شعلہ نمو کا بھی ہو

جنوں کا رنگ بھی ہو شعلہ نمو کا بھی ہو
سکوتِ شب میں اک انداز گفتگو کا بھی ہو
میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں
عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو
وہ جس کے چاک گریباں پہ تہمتیں ہیں بہت
اسی کے ہاتھ میں شاید ہنر رفو کا بھی ہو

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
صبح سویرے رن پڑتا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے

ہم تو دیوانے ہیں رمزیں نہ کنایہ جانیں

ہم تو دیوانے ہیں، رمزیں نہ کنایہ جانیں
جُز غمِ عشق ہر اک زخم کو مایا جانیں
کجکلاہی پہ نہ جائیں کہ یہ سب آپ کی نذر
شہِ خوباں ہمیں بس اپنی رعایا جانیں
آج کے بعد تو ہم پر بھی یہ لازم ہے کہ ہم
اپنی بوئی ہوئی فصلوں کو پرایا جانیں

سمندر اس قدر شوریدہ سر کیوں لگ رہا ہے

سمندر، اس قدر شوریدہ سر کیوں لگ رہا ہے
کنارے پر بھی ہم کو اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے
وہ جس کی جرأتِ پرواز کے چرچے بہت تھے
وہی طائر ہمیں بے بال و پر کیوں لگ رہا ہے
وہ جس کے نام سے روشن تھے مستقبل کے سب خواب
وہی چہرہ، ہمیں نامعتبر کیوں لگ رہا ہے

میرا شرف کہ تو مجھے جواز افتخار دے

میرا شرف کہ تُو مجھے جوازِ افتخار دے
فقیرِ شہرِ علم ہوں،۔۔ زکوٰۃِ اعتبار دے
میں جیسے تیسے ٹوٹے پھوٹے لفظ گھڑ کے آ گیا
کہ اب یہ تیرا کام ہے، بگاڑ دے، سنوار دے
مِرے امین آنسوؤں کی نذر ہے، قبول کر
مِرے کریم اور کیا تِرا گناہگار دے

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں

فریب کھا کے بھی اک منزلِ قرار میں ہیں
وہ اہلِ ہجر کے آسیبِ اعتبار میں ہیں
زمین جن کے لیے بوجھ تھی وہ عرش مزاج
نہ جانے کون سے موبر پہ کس مدار میں ہیں
پرانے درد، پرانی محبتوں کے گلاب
جہاں بھی ہیں خس و خاشاک کے حصار میں ہیں

Saturday 21 March 2015

میر کے شعر کو سینے سے لگائے ہوئے تم

میرؔ کے شعر کو سینے سے لگائے ہوئے تم
اچھے لگتے ہو محبت کو سمجھتے ہوئے تم
وہم، ادراک، گماں، شک کی سبھی تاویلیں
میں تمہیں اور مجھے اتنا پرکھتے ہوئے تم
کتنے ہمدرد لگے شام کی وحشت میں مجھے
اپنے دامن میں مرے غم کو سمیٹے ہوئے تم

Friday 20 March 2015

مجھے گر کر سنبھلنے میں‌‌ ذرا سی دیر باقی ہے

ابھی منظر بدلنے میں‌ ذرا سی دیر باقی ہے
مجھے گر کر سنبھلنے میں‌‌ ذرا سی دیر باقی ہے
ابھی پوری طرح جاگا نہیں میں خواب غفلت سے
طبیعت کے سنبھلنے میں‌ ذرا سی دیر باقی ہے
دیا بجھنے نہ دینا تم کسی بھی طور سے دل کا
ہوا کا رخ بدلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے

آنکھوں میں سما جانا یادوں میں مکیں رہنا

آنکھوں میں سما جانا، یادوں میں مکیں رہنا
اس شوخ کی عادت ہے، بس پردہ نشیں رہنا
خلوت کو سجا دینا، خوابوں کو بسا دینا
جس رنگ میں بھی رہنا، کچھ اور حسیں رہنا
اس جانِ صباحت کی تقدیر میں لکھا ہے
محبوبِ نظر ہونا، فرخندہ جبیں رہنا

بے کلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے

بے کلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے
دل وہ بگڑا ہوا بالک، جو کھلونا چاہے
حسن معصوم ہے پر خواب خزانوں کے بُنے
کبھی ہیرے، کبھی موتی، کبھی سونا چاہے
تجھ سے بچھڑا ہے تو گھائل کی عجب حالت ہے
بیٹھے بیٹھے کبھی ہنسنا، کبھی رونا چاہے

بے سبب روٹھ گیا چھوڑ کے جانے والا

بے سبب روٹھ گیا چھوڑ کے جانے والا
پھر سے شاید وہ نہیں لوٹ کے آنے والا
وہ جو برسا نہ کھلا، ابرِ گریزاں کی طرح
چشمِ مے گوں سے میری پیاس بجھانے والا
وہ دھنک تھا کہ شفق، پیکرِ خوشبو بن کر
دل کے آنگن میں نئے پھول کھلانے والا

شام سویرے یاد تمہاری ملنے آتی ہے

شام سویرے یاد تمہاری ملنے آتی ہے
تم تو جیسے بھول گئے ہو، یہ تڑپاتی ہے
کون ہے جو ان کرب کے لمحوں میں دَمساز ہے
دل ہی اپنا یار ہے اب تو درد بھی ذاتی ہے
بالے پن کے دھندلے سپنے زندہ رہتے ہیں
تنہائی سو بار جنہیں اکثر دہراتی ہے

اک نظر سوئے بام کر چلئے

اک نظر سوئے بام کر چلیے
چلتے چلتے سلام کر چلیے
گردشِ وقت سے نکل کے ذرا
شرکتِ دورِ جام کر چلیے
ہوش کی دھوپ جی جلاتی ہے
خم کے سائے میں شام کر چلیے

ڈسنے لگی جو گردشِ ایام پی گیا

ڈسنے لگی جو گردشِ ایام، پی گیا
بے چارگی میں لے کے تیرا نام پی گیا
سوزِ فراق، دردِ محبت، جفائے دہر
گل مے کے ساتھ میں غم و آلام پی گیا
ساغر بدست کب سے پریشاں خیال تھا
ملتے ہی تیری آنکھ کا پیغام پی گیا

اس کو منزل ملی نہ گھر ہی رہا

اس کو منزل ملی نہ گھر ہی رہا
تم سے بچھڑا تو دربدر ہی رہا
آنکھ کچھ منظروں پہ رکتی رہی
دل تو آمادۂ سفر ہی رہا
ایک عالم کی فکر تھی جس کو
میری حالت سے بے خبر ہی رہا

Thursday 19 March 2015

میں ذرا دور ہٹوں پاس بلاتی جائے

میں ذرا دور ہٹوں پاس بلاتی جائے
موت بھی کیا ہے مرا ساتھ نبھاتی جائے
ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں پیارے رخصت
ایک اک کر کے سبھی یار اٹھاتی جائے
جانے کیا ہے کہ ہوئی جاتی ہیں ‌آنکھیں بوجھل
جانے کیا ہے کہ کوئی چیز رلاتی جائے

کھو گیا غم تو کھو گئے ہم بھی

کھو گیا غم تو کھو گئے ہم بھی
رک گیا دل کے ساتھ ماتم بھی
تم تو رونے کی بات کرتے ہو
کون کرتا ہے آنکھ کو نم بھی
اب مری موت کی دعا مانگو
کچھ تو ہو جائے زندگی کم بھی

کبھی سحر تو کبھی شام لے گیا مجھ سے

کبھی سحر تو کبھی شام لے گیا مجھ سے
تمہارا درد کئی کام لے گیا مجھ سے
مجھے خبر نہ ہوئی اور زمانہ جاتے ہوئے
نظر بچا کے ترا نام لے گیا مجھ سے
اسے زیادہ ضرورت تھی گھر بسانے کی
وہ آ کے میرے در و بام لے گیا مجھ سے

سمے سمے کی خلش میں تیرا ملال رہے

سمے سمے کی خلش میں تیرا ملال رہے
جدائیوں میں بھی یوں عالمِ وصال رہے
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے، لیکن
پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
رہِ جنوں میں یہی زادِ راہ ہوتا ہے
کہ جستجو بڑھے، دیوانگی بحال رہے

لاکھ دوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا

لاکھ دوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا
جب بھی بارش ہو میرا سوگ مناتے رہنا
تم گئے ہو تو سرِ شام یہ عادت ٹھہری
بس کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا
جانے اس دل کو یہ آداب کہاں سے آئے
اس کی راہوں میں نگاہوں کو بچھاتے رہنا

Wednesday 18 March 2015

تری طرح کوئی بھی غمگسار ہو نہیں سکا

تِری طرح کوئی بھی غمگسار ہو نہیں سکا
بچھڑ کے تجھ سے پھر کسی سے پیار ہو نہیں سکا
جو خونِ دل کے رنگ میں ٹپک پڑے تھے آنکھ سے
ان آنسوؤں کا مجھ سے کاروبار ہو نہیں سکا
وہی تھا وہ، وہی تھا میں، شکستِ دل کے بعد بھی
وہ مجھ سے اور میں اس سے شرمسار ہو نہیں سکا

کوئی بھیڑ جیسی یہ بھیڑ ہے کسی دوسرے کا پتا نہیں

کوئی بھیڑ جیسی یہ بھیڑ ہے کسی دوسرے کا پتا نہیں
یہ تو برق و بار کا شہر ہے کوئی رہنے بسنے کی جا نہیں
مِرے شہر میں تو ابھی تلک انہی یکوں تانگوں کا دور ہے
مِرے ذہن میں جو مکان ہیں وہاں اتنی آہ و بکا نہیں
تِرے ہم خیال کدھر گئے، کہیں مر گئے کہ بکھر گئے
میں ضرور اس سے یہ پوچھتا کوئی کوچہ گرد ملا نہیں

کہا اس نے کہ آخر کس لیے بیکار لکھتے ہیں

کہا اس نے کہ آخر کِس لیے بے کار لکھتے ہیں
یہ شاعر لوگ کیوں اتنے دکھی اشعار لکھتے ہیں
کہا ہم نے کہ ازخود کچھ نہیں لکھتے یہ بیچارے
انہیں مجبور جب کرتا ہے دل، ناچار لکھتے ہیں
یہ سن کر مسکرائی، غور سے دیکھا ہمیں، بولی
تو اچھا آپ بھی اس قسم کے اشعار لکھتے ہیں

چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ

چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ
لوگ زندہ ہیں عجب صورتِ حالات کے ساتھ
فیصلہ یہ تو بہرحال "تجھے" کرنا ہے
ذہن کے ساتھ سُلگنا ہے کہ جذبات کے ساتھ
گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر
اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ

بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں

بھیڑ ہے بر سرِ بازار کہیں اور چلیں
آ مِرے دل مِرے غمخوار کہیں اور چلیں
کوئی کھڑکی نہیں کھلتی کسی باغیچے میں
سانس لینا بھی ہے دشوار کہیں اور چلیں
تُو بھی مغموم ہے میں بھی ہوں بہت افسردہ
دونوں اس دکھ سے ہیں دوچار کہیں اور چلیں

یہ تو ہم کہتے نہیں، سایہ ظلمت کم ہے

یہ تو ہم کہتے نہیں، سایۂ ظلمت کم ہے
روشنی ہے تو سہی جب ضرورت کم ہے
دل کا سودا ہے یہ مٹی کے کھلونے کا نہیں
اور تخفیف نہ کر، پہلے ہی قیمت کم ہے
اس نے کھڑکی مِرے کمرے کی مقفل کر دی
گویا تنہائی میں جلنے کی اذیت کم ہے

چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترک تعلق کی

چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی
کہیں ہم سے نہ ہو جائے خطا ترکِ تعلق کی
بناوٹ گفتگو میں، گفتگو بھی اُکھڑی اُکھڑی سی
تعلق رسمی رسمی سا، ادا ترکِ تعلق کی
ہمیں وہ صبر کے اس موڑ تک لانے کا خواہاں ہے
کہ تنگ آ جائیں ہم، مانگیں دعا ترکِ تعلق کی

وہ یکسر مختلف ہے منفرد پہچان رکھتا ہے

وہ یکسر مختلف ہے، منفرد پہچان رکھتا ہے
اک آئینے کی صورت شہر کو حیران رکھتا ہے
کوئی اس میں بھی ہوگی اس کی منطق پوچھ لیں گے ہم
بہاروں میں وہ خالی کس لیے گلدان رکھتا ہے
تعلق کس لیے ترک تعلقِ پر بھی قائم ہے
وہ کیوں اپنے سرہانے اب مِرا دیوان رکھتا ہے

مال و زر کے کسی انبار سے کیا لینا ہے

مال و زر کے کسی انبار سے کیا لینا ہے
عشق کو گرمئ بازار سے کیا لینا ہے
تیرے کنبے کی وراثت سے ہمیں کیا مطلب
تجھ سے مطلب ہے، پریوار سے کیا لینا ہے
عمر بھر ساتھ نبھانا ہے تو پھر بات کرو
ہم کو "مہمان اداکار" سے کیا لینا ہے

نکل کر قصر سے تیرے ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا

نکل کر قصر سے تیرے ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا
میں کوئی ٹوٹا پھوٹا آشیانہ ڈھونڈ ہی لیتا
خدا کی سرزمیں پر کچھ نہ کچھ تو مل ہی جانا تھا
کوئی بھوکا پرندہ آب و دانہ ڈھونڈ ہی لیتا
اگر تم صاف کہہ دیتے کہ اس گھر سے نکل جاؤ
تو میں اپنے لیے کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا

آخر ہم نے کب دینے والے کا رزق حلال کیا

آخر ہم نے کب دینے والے کا رزق حلال کیا
اک دو غزلیں کہہ ڈالیں تو کون سا ایسا کمال کیا
موتی کا اک ہار لپیٹے اپنے کالے جوڑے میں
خوشبو جیسی اس لڑکی نے ایسا استقبال کیا
صبح ہوئی پلکوں سے چلتے اس کو ہونٹوں کی کلیاں
رات کسی نے روشن دے کر ایسا مالا مال کیا

کسی کا نام سنتے ہی لرز اٹھتے ہیں لب اس کے

کسی کا نام سنتے ہی لرز اٹھتے ہیں لب اس کے
کہ اس کے ساتھ بھی شاید نہیں اعصاب اب اس کے
ہمارے ہوش بھی آخر ٹھکانے آ ہی جائیں گے
اسے بھی راس آ جائیں گے شائد روز و شب اس کے
سرِ ساحل وہ اپنی بالکونیوں میں ہی آ جاتا
اور آ کر دیکھتا کس حال میں ہیں تشنہ لب اس کے

ہمارا حال کچھ یوں ہے ترے دربان کے آگے

ہمارا حال کچھ یوں ہے تِرے دربان کے آگے
کہ یخ بستہ مسافر جیسے آتشدان کے آگے
ہمارے پیر لیکن اس زمیں نے تھام رکھے ہیں
بہت سے شہر ہوں گے اور بھی، ملتان کے آگے
اک آندھی گردش حالات کی حاوی ہوئی مجھ پر
کہاں تک جلتا رہتا وقت کے طوفان کے آگے

مجھے ایسا لطف عطا کیا، جو ہجر تھا نہ وصال تھا

مجھے ایسا لطف عطا کیا، جو ہجر تھا نہ وصال تھا
مِرے موسموں کے مزاج داں! تجھے میرا کتنا خیال تھا
کسی اور چہرے کو دیکھ کر، تِری شکل ذہن میں آ گئی
تیرا نام لے کے ملا اسے، میرے حافظے کا یہ حال تھا
کبھی موسموں کے سراب میں، کبھی بام و در کے عذاب میں
وہاں عمر ہم نے گزار دی، جہاں سانس لینا محال تھا

نہ دوائیں پراثر ہیں نہ دعائیں کیا بتائیں

نہ دوائیں پُراثر ہیں نہ دُعائیں، کیا بتائیں
تجھے اپنے دل کی حالت جو بتائیں کیا بتائیں
جو چراغِ آرزو تھا وہ تو بجھ چکا کبھی کا
کسے ڈھونڈتی ہیں اب تک یہ ہوائیں، کیا بتائیں
کبھی دور کے نگر سے، کبھی پاس کی گلی سے
ہمیں کون دے رہا ہے یہ صدائیں، کیا بتائیں

کہیں گھر بار حائل ہے کہیں سنسار حائل ہے

کہیں گھر بار حائل ہے کہیں سنسار حائل ہے
ہمارے اور تمہارے بیچ ہر دیوار حائل ہے
مجھے معلوم ہے وہ رو رہا ہے سامنے میرے
مگر چہرے کے آگے آج کا اخبار حائل ہے
کھلا رکھتا ہے وہ زینے کا دروازہ مِری خاطر
مِرے رستے میں لیکن شب کا چوکیدار حائل ہے

گھر کی دہلیز سے بازار میں مت آ جانا

گھر کی دہلیز سے بازار میں مت آ جانا
تم کسی چشمِ خریدار میں مت آ جانا
خاک اڑانا انہی گلیوں میں بھلا لگتا ہے
چلتے پھرتے کسی دربار میں مت آ جانا
یونہی خوشبو کی طرح پھیلتے رہنا ہر سُو
تم کسی دامِ طلب گار میں مت آ جانا

پھول تھے رنگ تھے لمحوں کی صباحت ہم تھے

پھول تھے رنگ تھے لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
سب خِرد مند بنے پھرتے تھے، ماشاء اللہ
 بس تِرے شہر میں اک صاحبِ وحشت ہم تھے
نام بخشا ہے تجھے کس کے وفورِ غم نے
گر کوئی تھا تو تِرے مجرمِ شہرت ہم تھے

یہ نہیں کہ میری محبتوں کو کبھی خراج نہیں ملا

یہ نہیں کہ میری محبتوں کو کبھی خراج نہیں ملا
مگر اتفاق کی بات ہے، کوئی ہم مزاج نہیں ملا
مجھے ایسا باغ نہیں ملا، جہاں گل ہوں میری پسند کے
جہاں زندہ رہنے کا شوق ہو مجھے وہ سماج نہیں ملا
کسی داستانِ قدیم میں، مِرے دو چراغ بھی دفن ہیں
میں وہ شاہزادہ بخت ہوں جسے طاق و تاج نہیں ملا

ہم مر گئے کہ پیاس میں پانی نہیں ملا

ہم مر گئے کہ پیاس میں پانی نہیں مِلا
ہم کو ثبوتِ تشنہ دہانی نہیں مِلا
اوجھل ہوئے وہ شہر تو پھر مِل نہیں سکے
جیسے ہمارا عہدِ جوانی نہیں مِلا
اتنے بڑے جہاں میں کمی تو نہ تھی کوئی
جاناں تو سینکڑوں تھے وہ جانی نہیں مِلا

ذرا ٹھہرو دعا کے ساتھ ہی انعام لے جانا

ذرا ٹھہرو، دُعا کے ساتھ ہی انعام لے جانا
ادھر تم جا رہے ہو میرا اک پیغام لے جانا
مِرے آنسو ذرا دامن سے اپنے پونچھتے جاؤ
اگر لے جا سکو میری اکیلی شام لے جانا
اسے کہنا ضروری ہو اگر قیمت شبِ غم کی
تو یہ ٹُوٹا ہوا دل چُن کے اپنے دام لے جانا

جانے کس چاہ کے کس پیار کے گن گاتے ہو

جانے کس چاہ کے، کس پیار کے گُن گاتے ہو
رات دن کون سے دلدار کے گُن گاتے ہو
یہ تو دیکھو کہ تمہیں لُوٹ لیا ہے اس نے
اک تبسم پہ خریدار کے گُن گاتے ہو
اپنی تنہائی پہ نازاں ہو مِرے سادہ مزاج
اپنے سُونے در و دیوار کے گُن گاتے ہو

تمہیں خیال ذات ہے شعور ذات ہی نہیں

تمہیں خیالِ ذات ہے شعورِ ذات ہی نہیں
خطا معاف یہ تمہارے بس کی بات ہی نہیں
غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی
ہمارا "مسئلہ" فقط "قلم دوات" ہی نہیں
ہماری ساعتوں کے حصہ دار اور لوگ ہیں
ہمارے سامنے فقط ہماری ذات ہی نہیں

Sunday 15 March 2015

خمار شب میں اسے سلام کر بیٹھا

خمارِ شب میں اسے سلام کر بیٹھا
جو کام کرنا تھا مجھ کو، وہ کام کر بیٹھا
قبائے زرد پہن کر وہ بزم میں آیا
گلِ حِنا کو ہتھیلی میں تھام کر بیٹھا
چھپا گیا تھا محبت کا راز میں تو مگر
وہ بھولپن میں سخنِ دل عام کر بیٹھا

پی لی تو کچھ پتہ نہ چلا وہ سرور تھا

پی لی تو کچھ پتا نہ چلا وہ سرُور تھا
وہ اس کا سایہ تھا کہ وہی رشکِ حُور تھا
کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھے سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چُور تھا
رویا تھا کون کون مجھے کچھ خبر نہیں
میں اس گھڑی وطن سے کئی میل دور تھا

یورش سخت جبر میں خواہش جام سی کبھی

یورشِ سخت جبر میں خواہشِ جام سی کبھی
عیشِ دوام سی کبھی ان ہوئے کام سی کبھی
صبحِ بہار میں کبھی صحنِ خزاں میں بھی کبھی
بجھتا ہوا شرر کبھی رنگوں کی شام سی کبھی
اور کسی جہان میں حاضرِ جان سی کبھی
غیبوں کے سحر دور میں ساعتِ عام سی کبھی

پھر صبح کی ہوا میں جی کو ملال آئے

پھر صبح کی ہوا میں جی کو ملال آئے
جس سے جدا ہوئے تھے، اس کے خیال آئے
اس عمر میں غضب تھا اس گھر کا یاد رہنا
جس عمر میں، گھروں سے ہجرت کے سال آئے
اچھی مثال بنتیں، ظاہر اگر وہ ہوتیں
ان نیکیوں کو ہم تو دریا میں ڈال آئے

Friday 13 March 2015

تیزاب کی آمیزش یا زہر ہے پانی میں

تیزاب کی آمیزش یا زہر ہے پانی میں
مرجھانے لگے پودے کیوں عہدِ جوانی میں
تنکا ہوں کہ بہہ جاؤں برسات کے پانی میں
قائم ہوں چٹانوں سا دریا کی روانی میں
اس پر ہی نجانے کیوں ہم جان لٹا بیٹھے
معلوم نہیں کیا تھا اس دشمنِ جانی میں

سچ کبھی ہو گا تمہارا خواب کیا

سچ کبھی ہو گا تمہارا خواب کیا
مان جائے گا دلِ بے تاب کیا
کیا بتاؤں کر کے میری غیبتیں
نوش فرماتے ہیں کچھ احباب کیا
زہر اس درجہ ہوا میں گھول کر
چاہتے ہو بارشِ تیزاب کیا؟

جدائی کا موسم یہاں سے وہاں تک

جدائی کا موسم یہاں سے وہاں تک
برستا ہوا غم یہاں سے وہاں تک
وہاں سے یہاں تک ہے جو بے قراری
وہی کچھ ہے عالم یہاں سے وہاں تک
بجھیں وصل کی شمعِ امید ساری
اندھیرا ہے پیہم یہاں سے وہاں تک

کوئی پل تو مجھ سے جدا نہیں مجھے علم ہے

کوئی پَل تُو مجھ سے جدا نہیں مجھے علم ہے
کوئی دل میں تیرے سوا نہیں مجھے علم ہے
یہ دلیلِ ترکِ وفا نہیں مجھے علم ہے
مِرا خط ہی اس کو ملا نہیں مجھے علم ہے
چلے اس کا نام بگاڑنے، چلو چپ رہو
کہ وہ شخص اتنا برا نہیں مجھے علم ہے

Thursday 12 March 2015

مشعل درد پھر اک بار جلا لی جائے

مشعلِ درد پھر اک بار جلا لی جائے
جشن ہو جائے، ذرا دھوم مچا لی جائے
خون میں جوش نہیں آیا زمانہ گزرا
دوستو! آؤ، کوئی بات نکالی جائے
جان بھی میری چلی جائے تو کچھ بات نہیں
وار تیرا نہ مگر ایک بھی خالی جائے

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دِل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حِس و بے جان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو 
تا حدِ نظر، ایک بیابان سا کیوں ہے 

تیغ پھر بے نیام ہو جائے

تیغ پھر بے نیام ہو جائے
ہاں ذرا قتلِ عام ہو جائے
دل کو کوہِ الم سے ٹکرا دوں
آج قصہ تمام ہو جائے
تجھ پہ زاہد، خدا کرے کہ شراب
خُلد میں بھی حرام ہو جائے

مجاز ہی کو حقیقت بنائے جاتے ہیں

مجاز ہی کو حقیقت بنائے جاتے ہیں
وہ ہیں کہ سارے زمانے پہ چھائے جاتے ہیں
عجیب شان سے جلوے دکھائے جاتے ہیں
مجھی سے چھپ کے، مجھی میں سمائے جاتے ہیں
مشاہدات کی دنیا بسائے جاتے ہیں
تحیرات کے سکے بٹھائے جاتے ہیں

مآل گل کی خبر کوشش صبا معلوم

مآلِ گل کی خبر کوششِ صبا معلوم
کلی کلی کو ہے گلشن کی انتہا معلوم
ہر اک قدم رہِ الفت میں ڈگمگاتا ہے
یہ ابتدا ہے تو پھر اس کی انتہا معلوم
تجلیات کی اک رو میں بہہ چلا ہے دل
نہ آرزو کی خبر ہے، نہ مدعا معلوم

دبی دبی سی ہنسی تمہارے

نظم

دبی دبی سی ہنسی تمہارے
لبوں پہ آ کے جو رک گئی ہے
اسے نہ روکو
یہ رک گئی تو
یہ سارے منظر یہ ساری دنیا
ہے چار دن کی ہماری دنیا

تیری خاموش نگاہوں میں گلہ ہے تو سہی

تیری خاموش نگاہوں میں گلہ ہے تو سہی
سلسلہ پھر بھی تیرے ساتھ جڑا ہے تو سہی
تجھ سے ہی روٹھنا، اور تجھ کو مناتے رہنا
"ایک الجھا ہوا ہاتھوں میں سِرا ہے تو سہی"
اپنی ہر بات کو منسوب تجھی سے کرنا
دل میں‌جلتا ہوا چاہت کا دِیا ہے تو سہی

Tuesday 10 March 2015

سوچا تھا اپنے آپ سے شاید سبق ملے

سوچا تھا اپنے آپ سے شاید سبق ملے
کورے کتابِ عمر کے سارے ورق ملے
ہم پر کوئی نصاب نہ تھا آج تک گراں
اب کے مگر بہت سے مضامین ادق ملے
بے سمت منزلوں کو رواں تھا وہ رہبر
چہرے تمام قافلے والوں کے فق ملے

طوفاں کوئی اٹھے نہ میرے احتجاج سے

طوفاں کوئی اُٹھے نہ میرے احتجاج سے
ڈرتا ہوں تیرے شہر کے رسم و رواج سے
کہتے ہیں ایک شخص نے کر لی ہے خودکشی
وہ انتقام لینے چلا تھا سماج سے
تَن کر کھڑا رہا تو جڑوں سے اُکھڑ گیا
واقف نہ تھا جو پیڑ ہوا کے مزاج سے

سسکیاں لیتی ہوئی غمگین ہواؤ چپ رہو

سسکیاں لیتی ہوئی غمگین ہواؤ، چُپ رہو
سو رہے ہیں درد ان کو مت جگاؤ، چُپ رہو
رات کا پتھر نہ پگھلے گا شعاعوں کے بغیر
صبح ہونے تک نہ بولو ہمنواؤ، چُپ رہو
بند ہیں سب میکدے، ساقی بنے ہیں محتسب
اے گرجتی، گونجتی کالی گھٹاؤ، چُپ رہو

ترے گلے میں اگر موتیوں کی مالا ہے

ترے گلے میں اگر موتیوں کی مالا ہے
یہ سوچ کس نے مکان اپنا بیچ ڈالا ہے
ہمیشہ جھوٹ ہم آپس میں بولتے آئے
نہ میرے دل میں، نہ تیری زباں پہ چھالا ہے
جو سب نے دیکھ لیا میں بھی اس کو دیکھ سکوں
کوئی بتائے وہ کس رنگ کا اجالا ہے

Sunday 8 March 2015

مری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا

مِری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا
سمندر کو سمندر میں سہارا کون دے گا
مِرے چہرے کو چہرہ کب عنایت کر رہے ہو
تمہیں میرے سوا چہرہ تمہارا کون دے گا
مِرے دریا نے اپنے ہی کنارے کاٹ ڈالے
بپھرتے پانیوں کا اب سہارا کون دے گا

اپنے خوں کو خرچ کیا ہے اور کمایا شہر

اپنے خوں کو خرچ کیا ہے اور کمایا شہر
سارے منظر ٹوٹ گئے اور کام نہ آیا شہر
بے گھر ہونا، بے گھر رہنا سب اچھا ٹھہرا
گھر کے اندر گھر نہیں پایا، شہر میں پایا شہر
سات سمندر پار بھی آنکھیں میرے ساتھ نہ آئیں
چاروں جانب خواب ہیں میرے اور پرایا شہر

ہم سے اپنے گاؤں کی مٹی کے گھر چھینے گئے

ہم سے اپنے گاؤں کی مٹی کے گھر چھینے گئے
جس طرح شہری پرندوں سے شجر چھینے گئے
تتلیوں نے کاغذی پھولوں پہ ڈیرا کر لیا
راستے میں جگنوؤں کے بال و پر چھینے گئے
اس قدر بڑھنے لگے ہیں گھر سے گھر کے فاصلے
دوستوں سے شام کے پیدل سفر چھینے گئے

مجھ کو ایسے نہ خداؤں سے ڈرایا جائے

مجھ کو ایسے نہ خداؤں سے ڈرایا جائے
میرا کیا جرم ہے، اتنا تو بتایا جائے
میری پہچان کی گٹھڑی مجھے واپس کر دو
میرے چہرے پہ مِرا چہرہ سجایا جائے
میری آنکھوں پہ مِری آنکھیں لگائی جائیں
اب کوئی قیمتی پتھر نہ لگایا جائے

عالم ہے سر آئینہ ہو کا مرے آگے

عالم ہے سرِ آئینہ ہُو کا مِرے آگے
بے چہرہ ہوا جاتا ہے چہرہ مِرے آگے
موہوم ہوئے جاتے ہیں آنکھوں کے شرارے
ہر رنگ پڑا جاتا ہے کالا مِرے آگے
دیکھا نہیں جاتا میں دکھاتا وہ تماشا
ہوتا جو کوئی دیکھنے والا مِرے آگے

مجھ سے بنتا ہوا تو تجھ کو بناتا ہوا میں

مجھ سے بنتا ہوا تُو تجھ کو بناتا ہوا میں
گیت ہوتا ہوا تُو، گیت سناتا ہوا میں
ایک کُوزے کے تصور سے جڑے ہم دونوں
نقش دیتا ہوا تُو، چاک گھماتا ہوا میں
تم بناؤ کسی تصویر میں کوئی رستہ
میں بناتا ہوں کہیں دُور سے آتا ہوا میں

جو مری ذات کے منافی ہیں

جو مِری ذات کے منافی ہیں
میری تصدیق کو وہ کافی ہیں
کام شاید تمہارے آ جائیں
ہم جو اپنے لیے اضافی ہیں
بس وہ آنکھیں جو پھیر لیں تُو نے
تیرے ہر جرم کی تلافی ہیں

Sunday 1 March 2015

نئی تراش بھی لاؤ نئے خیال کے ساتھ

نئی تراش بھی لاؤ، نئے خیال کے ساتھ 
سخن تمام نہیں ہو رہا کمال کے ساتھ
شکم کی آگ ہی کچھ ایسی کافرانہ تھی 
حرام کرنا پڑی لقمۂ حلال کے ساتھ
یہ کون راگ میں الجھا دئیے گئے ہم لوگ 
کسی کے سُر نہیں ملتے کسی کی تال کے ساتھ

کچھ اہتمام نہ تھا شام غم منانے کو

کچھ اہتمام نہ تھا شامِ غم منانے کو 
ہوا کو بھیج دیا ہے چراغ لانے کو
ہمارے خواب سلامت رہیں تمہارے ساتھ 
یہ بات کافی ہے دنیا کی نیند اڑانے کو
ہمارا خون کسی کام کا نہیں بھائی
یہ پانی ٹھیک ہے لیکن دیے جلانے کو

سفر کا اختتام کر نہیں رہا

سفر کا اختتام کر نہیں رہا 
ابھی تو میں قیام کر نہیں رہا 
بنا رہا ہوں جو ابھی بنا نہیں 
جو بن چکا ہے عام کر نہیں رہا 
مزاجِ دشت ان دنوں عجیب ہے 
کسی کا احترام کر نہیں رہا 

اس قدر عام تو نہیں ہوتے

اس قدر عام تو نہیں ہوتے
شعر، الہام تو نہیں ہوتے
عشق میراث میں نہیں ملتا
خواب نیلام تو نہیں ہوتے
قیس، فرہاد، لیلیٰ و شیریں
یہ فقط نام تو نہیں ہوتے

روبرو عکس پریشان بھی کر سکتے ہیں

روبرو عکس پریشان بھی کر سکتے ہیں 
آئینے! ہم تجھے حیران بھی کر سکتے ہیں
کوئی مشکل ہے تو بتلاؤ، کوئی حل سوچیں
کوئی الجھن ہے تو آسان بھی کر سکتے ہیں
چھوڑ سکتے ہیں تری نیند چرانے کا خیال 
ہم تجھے بے سر و سامان بھی کر سکتے ہیں