Sunday 28 June 2015

ہاتھ بھی چھوٹا کسی کا مل گیا آرام بھی

ہاتھ بھی چھُوٹا کسی کا، مِل گیا آرام بھی
کتنی آسانی سے ہو جاتے ہیں مشکل کام بھی
ٹوٹ جانے کو بنی تھی اک قیامت کی شبیہہ
اور کیا ہوتا ہمارے خواب کا انجام بھی
موت کی خوشبو نے پاگل کی طرح لِپٹا لیا
ہم ادھورا چھوڑ آئے اک ضروری کام بھی

آسماں کیا مری زمیں بھی نہیں

آسماں کیا مِری زمیں بھی نہیں
تیری دنیا میں، میں کہیں بھی نہیں
دور رہیے ذہین لوگوں سے
ان کی ہاں بھی نہیں، نہیں بھی نہیں
جس کے ڈسنے سے زندگی مِل جائے
اب تو وہ مارِ آستیں بھی نہیں

Wednesday 24 June 2015

عشق کوہ گراں ہے لگتا ہے​

عشق کوہِ گراں ہے، لگتا ہے​
یہ حقیقت گماں ہے، لگتا ہے​
وصل لمحوں میں سوچ اگتی ہے​
ہجر بھی درمیاں ہے، لگتا ہے​
مِل گئے ہیں دو چاہنے والے​
یہ کوئی داستاں ہے، لگتا ہے​

Tuesday 23 June 2015

ہجوم رنگ ہے میری ملول آنکھوں میں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

ہجومِ رنگ ہے میری ملول آنکھوں میں
بسا ہے جب سے ریاضِ رسولؐ آنکھوں میں
تصورات کے صحرا میں وہ حرم ابھرا
کھِلے گلاب میری دھول دھول آنکھوں میں
فضائے فکر و نظر دُھل کے ہو گئی اجلی
ہُوا وہ رحمتِ حق کا نزول آنکھوں میں

اک درد سا پہلو میں مچلتا ہے سر شام

اِک درد سا پہلو میں مچلتا ہے سرِ شام
جب چاند جھروکے میں نکلتا ہے سرِ شام
بے نام سی اک آگ دِہک اٹھتی ہے دل میں
مہتاب جو ٹھنڈک سی اگلتا ہے سرِ شام
کچھ دیر شفق پھولتی ہے جیسے افق پر
ایسے ہی مِرا حال سنبھلتا ہے سرِ شام

Saturday 20 June 2015

وہی ہوا نا

وہی ہوا نا

کہا نہیں تھا کہ عہد الفت، سمجھ کے باندھو
نِبھا سکو گے
مجھے سَمے کی تمازتوں سے
بچا سکو گے؟
بہت کہا تھا

اک یہی وصف ہے اس میں جو امر لگتا ہے

اک یہی وصف ہے اس میں جو امر لگتا ہے
وہ کڑی دھوپ میں برگد کا شجر لگتا ہے
یوں تو چاہت میں نہاں جون کی حِدت ہے مگر
سرد "لہجے" میں "دسمبر" کا "اثر" لگتا ہے
جب سے جانا کہ وہ ہم شہر ہے میرا، تب سے
شہر "لاہور" بھی "جادو" کا "نگر" لگتا ہے

خود سے ملتی نہیں نجات ہمیں

خود سے ملتی نہیں نجات ہمیں
قید رکھتی ہیں خواہشات ہمیں
میں نے مانگی سکون کی چادر
رنج بولے کہ بیٹھ، کات ہمیں
کچھ تو عادت ہے بے یقینی کی
اور کچھ ہیں تحیرات ہمیں

اس موسم کا بیج

اس موسم کا بیج 

چپ کی فصل اگانے والوں سے کون پوچھے
کل وہ کیا لے کر گھر جائیں گے
کھلیانوں میں کون سی دعائیں بھریں گے
صحراؤں کے سفر میں
بے سمتی کا زادِ راہ
اونٹوں پر لادنے والوں سے کون کہے

Friday 19 June 2015

قریہ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے

قریۂ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے
وہ مِرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے
میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مِرے گھر کے در و بام سجانے آئے
اس سے اِک بار تو روٹھوں میں اسی کی مانند
اور مِری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے

سیر دنیا کرے دل باغ کا در تو کھولے

سیرِ دنیا کرے دل، باغ کا در تو کھولے
یہ پرندہ کبھی پرواز کو پر تو کھولے
میں تو تاعمر، تِرے شہر میں رکنا چاہوں
کوئی آ کر مِرا اسبابِ سفر تو کھولے
خود بھی جنگل کو مجھے کاٹنا آ جائے گا
پر وہ شہزادہ مِرے نیند کا در تو کھولے

سکوں بھی خواب ہوا نیند بھی ہے کم کم پھر

سکوں بھی خواب ہوا، نیند بھی ہے کم کم پھر
قریب آنے لگا دوریوں کا موسم پھر
بنا رہی ہے تِری یاد مجھ کو سلکِ کُہر
پِرو گئی مِری پلکوں میں آج شبنم پھر
وہ نرم لہجے میں کچھ کہہ رہا ہے پھر مجھ سے
چھڑا ہے پیار کے کومل سُروں میں مدھم پھر

ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو

ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو
کبھی تو رنگ مِرے ہاتھ کا حِنائی ہو
کوئی تو ہو جو مِرے تن کو روشنی بھیجے
کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہو
گلابی پاؤں مِرے چمپئ بنانے کو
کسی نے صحن میں مہندی کی باڑھ اگائی ہو

سحاب تھا کہ ستارہ گریز پا ہی لگا

سحاب تھا کہ ستارہ، گریز پا ہی لگا
وہ اپنی ذات کے ہر رنگ میں ہوا ہی لگا
میں ایسے شخص کی معصومیت پہ کیا لکھوں
جو مجھ کو اپنی خطاؤں میں بھی، بھلا ہی لگا
زباں سے چپ ہے، مگر آنکھ بات کرتی ہے
نظر اٹھائی ہے جب بھی، تو بولتا ہی لگا

Thursday 18 June 2015

ترے بعد جانے یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے

تیرے بعد جانے یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے
گھِرے ہم بھنور میں کچھ اس طرح کھلے بادباں کو ترس گئے
مِرے شہر کے جو چراغ تھے انہیں آندھیوں نے بُجھا دیا
چلی ایسی اب کے ہوائے دل کہ مکِیں مکاں کو ترس گئے
یہ عجیب خوف و ہراس ہے کوئی دُور ہے، کوئی پاس ہے
وہ جو آشیاں کے تھے پاسباں وہی آشیاں کو ترس گئے

کوئی موسم بھی ہم کو راس نہیں

کوئی موسم بھی ہم کو راس نہیں
وہ نہیں ہے تو کچھ بھی پاس نہیں
ایک مدت سے دل کے پاس ہے وہ
ایک مدت سے دل اداس نہیں
جب سے دیکھا ہے شام آنکھوں میں
تب سے قائم میرے حواس نہیں

وہ باخبر ہے کبھی بے خبر نہیں ہوتا

وہ باخبر ہے کبھی بے خبر نہیں ہوتا
ہماری بات کا جس پر اثر نہیں ہوتا
مثالِ نکہتِ صبح وصال ہوتا ہے
بِنا تِرے کوئی لمحہ بسر نہیں ہوتا
چراغِ ہِجر مسلسل جلائے بیٹھے ہیں
کبھی ہوا کا اِدھر سے گزر نہیں ہوتا

جیسا جسے چاہا کبھی ویسا نہیں ہوتا

جیسا جسے چاہا کبھی ویسا نہیں ہوتا
دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوتا
ملنے کو تو ملتے ہیں بہت لوگ جہاں میں
پر ان میں کوئی بھی تیرے جیسا نہیں ہوتا
دولت سے کبھی پیار کو تولا نہیں جاتا
معیارِ محبت کبھی پیسا نہیں ہوتا

Tuesday 16 June 2015

دل ہو حساس تو جینے میں بہت گھاٹا ہے

دل ہو حساس تو جینے میں بہت گھاٹا ہے
میں نے خود اپنے ہی زخموں کا لہو چاٹا ہے
مجھ پہ احسان ہے مری تیشہ بکف سانسوں کا
زندگی تجھ کو پہاڑوں کی طرح کاٹا ہے
ڈوب کر دیکھ، سمندر ہوں میں آوازوں کا
طالبِ حسنِ سماعت میرا سناٹا ہے

لہرو پہنا دو پهولوں کے ہار مجهے

لہرو پہنا دو پهولوں کے ہار مجهے
جلتی ناؤ پہ جانا ہے اس پار مجهے
اِتنی گہرائی تو میں بهی رکهتا ہوں
دریا ہی سمجهے گا ہر منجدھار مجهے
دروازوں میں سے میں نے گزرنا چهوڑ دیا
اب کیا روکے گی کوئی دیوار مجهے

کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا

کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
زخمِ دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا
تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کر بھی میں تیرے دریا سے پیاسا نکلا
جب کبھی تجھ کو پکارا مِری تنہائی نے
بُو اڑی پھول سے، تصویر سے سایہ نکلا

میری تصویر میں رنگ اور کسی کا تو نہیں

میری تصویر میں رنگ اور کسی کا تو نہیں
گھیر لیں مجھ کو سب آنکھیں، میں تماشا تو نہیں
زندگی تجھ سے ہر اک سانس پہ سمجھوتہ کروں
شوق جینے کا ہے مجھ کو، مگر اتنا تو نہیں
روح کو درد ملا، درد کو آنکھیں نہ ملیں
تجھ کو محسوس کیا ہے، تجھے دیکھا تو نہیں

Monday 15 June 2015

ہے یہی اصل خودی خود سے گزر جا مرے دوست

ہے یہی اصلِ خودی، خود سے گزر جا مرے دوست
زندہ رہنا ہے تو پھر عشق میں مر جا مرے دوست
جس طرف یار کے قدموں کے نشاں جاتے ہیں
ترک کن راہِ دِگر، صرف اُدھر جا مرے دوست
ہاں مرے پاس کوئی فقر، کوئی رمز نہیں 
سن لیا تُو نے، چل اٹھ خیر سے گھر جا مرے دوست

کاسنی زمانوں سے وجد کے جہانوں سے

کاسنی زمانوں سے 
وجد کے جہانوں سے 
دھیان آسمانوں سے 
کم سخن ستاروں کی
کچھ بزرگ یاروں کی 
با وقار تنہائی 
مجھ سے ملنے آئی ہے 

اگر یہ دل تیرے ہونے سے معتبر ہو جائے

اگر یہ دل تیرے ہونے سے معتبر ہو جائے
تو کیا عجب مِرا عشق کارگر ہو جائے
میں اس لئے بھی تجھے آنکھ بھر کے دیکھتا ہوں 
کہ تجھ پہ اپنا نہیں تو میرا اثر ہو جائے
پناہ مانگ میاں! قریۂ تمنا سے
یہ وہ زمین نہیں ہے جو باروَر ہو جائے

آدمی سے بڑی توقع تھی

آدمی سے بڑی توقع تھی
کیا کِیا تیرے آدمی نے بھی
اس کی قسمیں اٹھا رہے ہیں سب
اس کو دیکھا نہیں کسی نے بھی
ان پہ کیا رمز کھولئے کہ یہ لوگ 
اک تو منکر ہیں، پھر کمینے بھی 

زبان شیخ پہ ذکر عوام آیا ہے

زبانِ شیخ پہ ذکرِ عوام آیا ہے
مطالبہ ہے غریبوں کو حق دیا جائے
مطالبہ تو بہت سرخ ہے، مگر یا شیخ
پھر آپ ایسے امیروں کا کیا کِیا جائے
یہ کالا دھن یہ نحوست کی منڈیاں یا شیخ
یہ آپ ایسے امیران ہی چلاتے ہیں

مگر زمین پہ وہ دن ہی واقعی دن تھے

مگر زمین پہ وہ دن ہی واقعی دن تھے
غریب لوگ تھے لوگوں کے آخری دن تھے
بوقتِ صبح، تووں پر بہار جاگتی تھی
دہکتی روٹیوں والے قلندری دن تھے
کمینگی نظر آتی تھی خال خال کہیں
خلوص یافتہ سینوں کے سرمئی دن تھے

جاناں دل کا شہر نگر افسوس کا ہے

جاناں! دل کا شہر، نگر افسوس کا ہے
تیرا میرا سارا سفر، افسوس کا ہے
کس چاہت سے زہرِ تمنا مانگا تھا
اور اب ہاتھوں میں ساغر افسوس کا ہے
اک دہلیز پہ جا کر دل خوش ہوتا تھا
اب تو شہر میں ہر اک دَر افسوس کا ہے

تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو

تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
اب ہو چلا یقیں کہ برے ہم ہیں‌ دوستو
کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے کیا کریں
آنکھیں‌ تو دشمنوں‌ کی بھی پرنم ہیں دوستو
اپنے سوا ہمارے نہ ہونے کا غم کسے
اپنی تلاش میں تو ہم ہی ہم ہیں دوستو

Sunday 14 June 2015

عشق پیشہ نہ رہے داد کے حق دار یہاں

عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں
پیش آتے ہیں رعونت سے جفاکار یہاں
سر پٹک کر درِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا
ہے دریچہ نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں
عہد و پیمانِ وفا، پیار کے نازک بندھن
توڑ دیتی ہے زر و سیم کی جھنکار یہاں

پردہ شب کی اوٹ میں زہرہ جمال کھو گئے

پردۂ شب کی اوٹ میں زہرہ جمال کھو گئے
دل کا کنول بجھا تو شہر تیرہ و تار ہو گئے
ایک ہمیں ہی اے سحر! نیند نہ آئی رات بھر
زانوئے شب پہ رکھ کر سر، سارے چراغ سو گئے
راہ میں تھے ببول بھی رودِ شرر بھی دھول بھی
جانا ہمیں ضرور تھا گل کے طواف کو گئے

یہ جلوہ گاہ ناز تماشائیوں سے ہے

یہ جلوہ گاہِ ناز تماشائیوں سے ہے
رونق جہاں کی انجمن آرائیوں سے ہے
روتے ہیں دل کے زخم تو ہنستا نہیں کوئی
اتنا تو فائدہ مجھے تنہائیوں سے ہے
دیوانۂ حیات کو اک شغل چاہیے
نادانیوں سے کام نہ دانائیوں سے ہے

ہوائے شب سے نہ بجھتے ہیں اور نہ جلتے ہیں

ہوائے شب سے نہ بجھتے ہیں اور نہ جلتے ہیں
کسی کی یاد کے جگنو دھواں اگلتے ہیں
شبِ بہار میں مہتاب کے حسیں سائے
اداس پا کے ہمیں، اور بھی مچلتے ہیں
اسیرِ دام جنوں ہیں، ہمیں رہائی کہاں
یہ رنگ و بُو کے قفس اپنے ساتھ چلتے ہیں

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا، اب خواہشِ دنیا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
جب کشتی ثابت و سالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

ملے غم سے اپنے فرصت تو سناؤں وہ فسانہ

ملے غم سے اپنے فرصت تو سناؤں وہ فسانہ
کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے عشرتِ شبانہ
یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرت
یہی زندگی حقیقت، یہی زندگی فسانہ
کبھی درد کی تمنا، کبھی کوششِ مداوا
کبھی بجلیوں کی خواہش، کبھی فکرِ آشیانہ

اس بت کے ہر فریب پہ قربان سے رہے

اس بت کے ہر فریب پہ قربان سے رہے
اک عمر اپنے مٹنے کے سامان سے رہے
اس جاں نواز کوچے میں ہم بھی رہے، مگر
بے دل کبھی رہے، کبھی بے جان سے رہے
رِندانِ مۓ کدہ ہیں کہ تنگ آ کے اٹھ گئے
یارانِ مۓ کدہ ہیں کہ انجان سے رہے

Friday 12 June 2015

میرا کچھ سامان تمہارے پاس پڑا ہے

میرا کچھ سامان تمہارے پاس پڑا ہے
وہ بھجوا دو
میرا وہ ساماں لوٹا دو
ایک اکیلی چھتری میں جب 
آدھے آدھے بھیگ رہے تھے
آدھے گیلے آدھے سُوکھے 
سُوکھا تو میں‌ لے آئی تھی
گیلا من شاید بستر کے پاس پڑا ہو
وہ بھجوا دو

فراق: وہ شب جس کو تم نے گلے سے لگا کر

فراق

وہ شب جس کو تم نے گلے سے لگا کر
مقدس لبوں کی حسِیں لوریوں میں
سلایا تھا سینے پہ  ہر روز
لمبی کہانی سنا کر
وہ شب جس کی عادت بگاڑی تھی تم نے
وہ شب آج بستر پہ اوندھی پڑی رو رہی ہے

گلزار

پھولوں کی طرح لب کھول کبھی

پھولوں کی طرح لب کھول کبھی
خوشبو کی زباں میں بول کبھی
الفاظ پرکھتا رہتا ہے
آواز ہماری تول کبھی
کھڑکی میں کٹی ہیں سب راتیں
کچھ چورس اور کچھ گول کبھی
یہ دل بھی دوست زمیں کی طرح
ہو جاتا ہے ڈانوا ڈول کبھی

گلزار

شرارت: آؤ تم کو اٹھالوں کندھوں پر

شرارت

آؤ تم کو اٹھالوں کندھوں پر
تم اُچک کر شریرہونٹوں سے
چُوم لینا یہ چاند کا ماتھا
آج کی رات تم نے دیکھا نہیں
کیسے جھُک جھُک کے کہنیوں کے بَل
چاند انتا قریب آیا ہے

گلزار

اس ملک کو گر باپ کی جاگیر کرو گے

اس ملک کو گر باپ کی جاگیر کرو گے
تو صورتِ حالات کو گھمبیر کرو گے
چاند اور ستارے کے وطن میں ہے اندھیرا
اِک ایٹمی طاقت کی یہ تشہیر کرو گے
زِندان سے ایوان میں پہنچے ہوئے لوگو
تم کس طرح اس ملک کی تطہیر کرو گے

زر پرستی حیات ہو جائے

زر پرستی حیات ہو جائے
اس سے بہتر وفات ہو جائے
پھر میں دنیا میں گھوم سکتا ہوں
جسم سے گر نجات ہو جائے
ایک دیوی کی آنکھ ایسے لگی
جیسے مندر میں رات ہو جائے

چاند پر اک میکدہ آباد ہونا چاہیے

چاند پر اک مے کدہ آباد ہونا چاہیے
یا محبت کو یہیں آزاد ہونا چاہیے
قاضئ محشر! تِری مرضی، ہماری سوچ ہے
ظالموں کو دنیا میں برباد ہونا چاہیے
روح کے بے رنگ افق پر، رات بھر گونجی ندا
دل پرندہ، فکر سے آزاد ہونا چاہیے

غرور بیچیں گے نہ التجا خریدیں گے

غرور بیچیں گے نہ التجا خریدیں گے
نہ سر جھکائیں گے نہ سر جھکا خریدیں گے
قبول کر لی ہے دیوارِ چین آنکھوں نے
اب اندھے لوگ ہی رستہ نیا خریدیں گے
جھکیں تو اس کو سخاوت لگے یہ جھکنا بھی
اب اپنے قد کا کوئی دیوتا خریدیں گے

اشک در اشک دہائی کا ثمر دیتے ہیں

اشک در اشک، دہائی کا ثمر دیتے ہیں
ان کے آثار، جدائی کی خبر دیتے ہیں
غالباً یہ مِرے چپ رہنے کا خمیازہ ہے
تجھ کو آواز مِرے شام و سحر دیتے ہیں
مسکرا کر مجھے دے دیتے ہیں وہ اِذنِ فرار
پر مِری ذات کو اندر سے جکڑ دیتے ہیں

ہم بھی بدل گئے تری طرزِ ادا کے ساتھ ساتھ

ہم بھی بدل گئے تِری طرزِ ادا کے ساتھ ساتھ
رنگِ حِنا کے ساتھ ساتھ، شوخئ پا کے ساتھ ساتھ
نکہتِ زلف لے اڑی، مثلِ خیال چل پڑی
چلتا ہے کون دیکھئے آج حِنا کے ساتھ ساتھ
اتنی جفا طرازیاں، اتنی ستم شعاریاں
تم بھی چلے ہو کچھ قدم اہلِ وفا کے ساتھ ساتھ

اطہر تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا

اطہر تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا، یا سب جیسا احوال ہوا
ایک سفر ہے وادئ جاں میں تیرے دردِ ہجر کے ساتھ
تیرا دردِ ہجر جو بڑھ کر لذتِ کیفِ وصال ہوا
راہِ وفا میں جاں دینا بھی پیشرؤوں کا شیوہ تھا
ہم نے جب سے جینا سیکھا، جینا کارِ مثال ہوا

دل کی مسرتیں نئی جاں کا ملال ہے نیا

دل کی مسرتیں نئی، جاں کا ملال ہے نیا
میری غزل میں آج پھر ایک سوال ہے نیا
اب جو کھِلے ہیں دل میں پھول، ان کی بہار ہے نئی
اب جو لگی ہے دل میں آگ، اس کا جلال ہے نیا
اس کے لیے بھی غمزہ ناز و ادا کا وقت ہے
اپنے لئے بھی موسمِ ہجر و وصال ہے نیا

پھر کوئی نیا زخم نیا درد عطا ہو

پھر کوئی نیا زخم، نیا درد عطا ہو
اس دل کی خبر لے جو تجھے بھول چلا ہو
اب دل میں سرِ شام چراغاں نہیں ہوتا
شعلہ تِرے غم کا کہیں بجھنے نہ لگا ہو
کب عشق کِیا کس سے، کیا جھوٹ ہے یارو
بس بھول بھی جاؤ جو کبھی ہم سے سنا ہو

سوچتے اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں

سوچتے اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں
اپنے گم گَشتہ کناروں کے لیے بہتا ہوں میں
جل گیا سارا بدن ان موسموں کی آگ میں
ایک موسم روح کا ہے جس میں اب زندہ ہوں میں
میرے ہونٹوں کا تبسم دے گیا دھوکا تجھے
تُو نے مجھ کو باغ جانا، دیکھ لےصحرا ہوں میں

کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا

کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا
ہوتا رہتا ہے یوں ہی قرض برابر میرا
ٹوٹ جاتے ہیں کبھی میرے کنارے مجھ سے
ڈوب جاتا ہے کبھی مجھ میں سمندر میرا
کسی صحرا میں بچھڑ جائیں گے سب یار میرے
کسی جنگل میں بھٹک جائے گا لشکر میرا

دم بدم بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا شہر والو سنو

دم بدم بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا، شہر والو سنو
جیسے آئے دبے پاؤں شہرِ بلا، شہر والو سنو
خاک اڑاتی نہ تھی اس طرح تو ہوا اس کو کیا ہو گیا
دیکھو آواز دیتا ہے اک سانحہ، شہر والو سنو
عمر بھر کا سفر جس کا حاصل ہے اک لمحہٴ مختصر
کس نے کیا کھو دیا کس نے کیا پا لیا، شہر والو سنو

Wednesday 10 June 2015

سب کو رسوا باری باری کیا کرو

سب کو رُسوا باری باری کیا کرو 
ہر موسم میں فتوے جاری کیا کرو 
راتوں کا نیندوں سے رِشتہ ٹوٹ چکا
اپنے گھر کی پہرے داری کیا کرو
قطرہ قطرہ شبنم گِن کر کیا ہو گا
دریاؤں کی دعوے داری کیا کرو

زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر

زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر
راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر
ٹوٹ کر بکھری ہوئی تلوار کے ٹکڑے سمیٹ
اور اپنے ہار جانے کا سبب معلوم کر
جاگتی آنکھوں کے خوابوں کو غزل کا نام دے
رات بھر کی کروٹوں کا ذائقہ منظوم کر

جا کے یہ کہہ دے کوئی شعلوں سے چنگاری سے

جا کے یہ کہہ دے کوئی شعلوں سے، چنگاری سے
پھول اس بار کھِلے ہیں بڑی تیاری سے
اپنی ہر سانس کو نیلام کیا ہے میں نے
لوگ آسان ہوئے ہیں بڑی دشواری سے
ذہن میں جب تِرے خط کی عبارت چمکی
ایک خوشبو سی نکلنے لگی الماری سے

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے
ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر
یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے
لہولہان پڑا تھا زمیں پہ اک سورج
پرندے اپنے پروں سے ہوائیں کرنے لگے

Tuesday 9 June 2015

تو اس کا دھیان مرے مصرع حسیں پہ نہیں

تو اس کا دھیان مِرے مصرعِ حسیں پہ نہیں
شکن ابھی کوئی ابروئے نکتہ چیں پہ نہیں
مکان چھوڑ گئے لوگ، ڈھونڈتے ہو کِسے
کوئی ستارہ اب اس بامِ انجمن پہ نہیں
بہت مِلی تھیں دعائیں فلک نشینی کی
ہمارا کچھ بھی بدن کے سوا زمیں پہ نہیں

ختم ہو جنگ خرابے پہ حکومت کی جائے

ختم ہو جنگ خرابے پہ حکومت کی جائے 
آخری معرکۂ صبر ہے، عجلت کی جائے
ہم نہ زنجیر کے قابل ہیں نہ جاگیر کے اہل 
ہم سے انکار کیا جائے، نہ بیعت کی جائے
مملکت اور کوئی بعد میں ارزانی ہو 
پہلے میری ہی زمیں مجھ کو عنایت کی جائے

رات اک شہر نے تازہ کئے منظر اپنے

رات اک شہر نے تازہ کئے منظر اپنے
نیند آنکھوں سے اڑی کھول کے شہپر اپنے
تم سرِ دشت و چمن مجھ کو کہاں ڈھونڈتے ہو
میں تو ہر رُت میں بدل دیتا ہوں پیکر اپنے
یہی ویرانہ بچا تھا تو خدا نے آخر
رکھ دیے دل میں مِرے سات سمندر اپنے

ہر طرف ڈوبتے سورج کا سماں دیکھئے گا

ہر طرف ڈوبتے سورج کا سماں دیکھئے گا
اک ذرا منظرِ غرقابئ جاں دیکھئے گا
سیرِ غرناطہ و بغداد سے فرصت پا کر
اس خرابے میں بھی خوابوں کے نشاں دیکھئے گا
یہ در و بام، یہ چہرے، یہ قبائیں، یہ چراغ
دیکھئے، بارِ دگر ان کو کہاں دیکھئے گا

پتھر کا اس کا دل ہے تو محفل کا اس کا جسم

پتھر کا اس کا دل ہے تو محفل کا اس کا جسم
میداں ہے اس کی آنکھ میں، بادل کا اس کا جسم
شاید نظر پڑے جو درِ روشنی کھُلے
اتنی سیاہ رات میں کاجل کا اس کا جسم
موسم کی مستیوں میں اسے دیکھنا ذرا
ٹھنڈی ہوا کی زد پہ ہے پیپل کا اس کا جسم

سحر کے خواب کا مجھ پر اثر کچھ دیر رہنے دو

سحر کے خواب کا مجھ پر اثر کچھ دیر رہنے دو
کسی کے حال کی مجھ کو خبر کچھ دیر رہنے دو
جڑے ہیں ان سے نادیدہ پرانے بام و دروازے
نئے شہروں میں یہ ویران گھر کچھ دیر رہنے دو
کہیں گزرے ہوئے ایام پھر واپس نہ آ جائیں
دلِ بے خوف میں اس کا خطر کچھ دیر رہنے دو

کوئی اک عمر خوشیوں کی بہت ہی دور ہے اس کو

کوئی اک عمر خوشیوں کی بہت ہی دور ہے اس کو
سراپا دشت ہے لیکن چمن مستور ہے اس کو
کوئی مخفی حقیقت ہے بظاہر ابتر عالم میں
کوئی پوشیدہ نظارہ ہے جو مجبور ہے اس میں
خواب میں دیکھو اسے اور شہر میں ڈھونڈو اسے
وقفے وقفے سے رونق میں بیٹھے دیکھنا

رات اتنی جا چکی ہے اور سونا ہے ابھی

رات اتنی جا چکی ہے اور سونا ہے ابھی
اس نگر میں اِک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی
کیوں دیا دل اس بتِ کم سِن کو ایسے وقت میں
دل سی شے جس کے لیے بس اک کھلونا ہے ابھی
ایسی یادوں میں گھِرے ہیں جن سے کچھ حاصل نہیں
اور کتنا وقت ان یادوں میں کھونا ہے ابھی

Saturday 6 June 2015

جھیل آنکھیں تھیں گلابوں سی جبیں رکھتا تھا

جھیل آنکھیں تھیں گلابوں سی جبِیں رکھتا تھا
شام زلفوں میں چھپا کر وہ کہیں رکھتا تھا
دھوپ چھاؤں سا وہ اِک شخص مِرے شہر میں تھا
دل میں ہاں اور وہ ہونٹوں پہ نہیں رکھتا تھا
اس کے ہونٹوں پہ مہکتے تھے وفاؤں کے کنول
اپنی آنکھوں میں جو اشکوں کے نگِیں رکھتا تھا

دل کا کہنا مان لیا تو لوگوں نے سو سو باتیں کیں

دل کا کہنا مان لیا تو لوگوں نے سو سو باتیں کیں
تنہائی کا زہر پیا تو لوگوں نے سو سو باتیں کیں
ہم نے جب کچھ کہنا چاہا، تم نے بھی آوارہ جانا
تنگ آ کر ہونٹوں کو سِیا تو لوگوں نے سو سو باتیں کیں
یہ دنیا گورکھ دھندہ ہے، لوگ یہاں کیا کچھ نہیں کرتے
ہم نے بس اِک پیار کیا تو لوگوں نے سو سو باتیں کیں

Friday 5 June 2015

طعنہ زن کیوں ہے مری بے سروسامانی پر

طعنہ زن کیوں ہے مِری بے سروسامانی پر
اِک نظر ڈال ذرا شہر کی ویرانی پر
واعظو! میں نے بھی انساں کی عبادت کی ہے
پر کوئی نقش نہیں ہے مِری پیشانی پر
ان کے ملبوس میں پیوند مِرے جسم کے ہیں
اور یاروں کی نظر ہے مِری عریانی پر

مستقل محرومیوں پر بھی دل تو مانا نہیں

مستقل محرومیوں پر بھی دل تو مانا نہیں
لاکھ سمجھایا کہ اس محفل میں اب جانا نہیں
خود فریبی ہی سہی، کیا کیجیے دل کا علاج
تُو نظر پھیرے تو ہم سمجھیں کہ پہچانا نہیں
ایک دنیا منتظر ہے، اور تیری بزم میں
اس طرح بیٹھے ہیں ہم جیسے کہیں جانا نہیں

کہا تھا کس نے عہد وفا کرو اس سے

کہا تھا کس نے عہدِ وفا کرو اس سے
جو یوں کیا ہے تو پھر کیوں گِلہ کرو اس سے
یہ اہلِ بزم، تنک حوصلہ سہی، پھر بھی
ذرا فسانۂ دل ابتداء کرو اس سے
یہ کیا کہ تم ہی غمِ ہجر کے فسانے کہو
کبھی تو اس کے بہانے سنا کرو اس سے

دل میں اب طاقت کہاں خوننابہ افشانی کرے

دل میں اب طاقت کہاں خوننابہ افشانی کرے
ورنہ غم وہ زہر ہے، پتھر کو بھی پانی کرے
عقل وہ ناصح، کہ ہر دم لغزشِ پا کا خیال
دل وہ دیوانہ، یہی چاہے کہ نادانی کرے
ہاں مجھے بھی ہو گِلہ بے مہرئ حالات کا
تجھ کو آزردہ اگر میری پریشانی کرے

قرب جز داغ جدائی نہیں دیتا کچھ بھی

قُرب جُز داغِ جدائی نہیں دیتا کچھ بھی
تُو نہیں ہے تو دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی
دل کے زخموں کو نہ رو، دوست کا احسان سمجھ
ورنہ وہ دستِ حنائی نہیں دیتا کچھ بھی
کیا اسی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لیں
ناصحوں کو تو سُجھائی نہیں دیتا کچھ بھی

قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا

قربت بھی نہیں، دل سے اتر بھی نہیں جاتا 
وہ شخص، کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا 
دل کو تیری چاہت پہ بھروسا بھی بہت ہے 
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا 
آنکھیں ہیں کے خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے 
اور زخمِ جدائی ہے کے بھر بھی نہیں جاتا 

تو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھ

تُو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھ
پھول روئے تو اسے خندۂ شاداب سمجھ
کہیں آ جائے میسر تو مقدر تیرا
ورنہ آسودگئ دہر کو نایاب سمجھ
حسرتِ گریہ میں جو آگ ہے اشکوں میں نہیں
خشک آنکھوں کو مِری چشمۂ بے آب سمجھ

افعی کی طرح ڈسنے لگی موج نفس بھی

افعی کی طرح ڈسنے لگی موجِ نفس بھی
اے زہرِ غمِ یار! بہت ہو چکی، بس بھی
یہ حبس تو جلتی ہوئی رُت سے بھی گراں ہے
اے ٹھہرے ہوئے ابرِ کرم! اب تو برس بھی
آئینِ خرابات، معطل ہے، تو کچھ روز
اے رندِ بلا نوش و تہی جام! ترس بھی

تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں

تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں​
میں دشمنوں میں ہوں کہ تیرے دوستوں میں ہوں 
مجھے سے گریز پا ہے تو ہر راستہ بدل 
میں سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں ​
اے یارِ خوش دیار! تجھے کیا خبر کہ میں ​
کب سے اداسیوں کے گھنے جنگلوں میں ہوں ​

بے سر و ساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا

بے سر و ساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا
اس سے پہلے شہر کے لٹنے کا آوازہ نہ تھا
ظرفِ دل دیکھا تو آنکھیں کرب سے پتھرا گئیں
خون رونے کی تمنا کا یہ خمیازہ نہ تھا
آ، مِرے پہلو میں آ، اے رونقِ بزمِ خیال
لذتِ رخسار و لب کا اب تک اندازہ نہ تھا

بے نیاز غم پیمان وفا ہو جانا


بے نیازِ غمِ پیمانِ وفا ہو جانا
تم بھی اوروں کی طرح مجھ سے جدا ہو جانا
میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی بوندیں
تم بھی پا بستۂ زنجیرِ حِنا ہو جانا
گرچہ اب قرب کا امکاں ہے بہت کم پھر بھی
کہیں مِل جائیں تو تصویر نما ہو جانا

گل ہو چراغ مے تو سزاوار سنگ ہیں

گل ہو چراغِ مے تو سزاوارِ سنگ ہیں
مینا سرشت ہم بھی شہیدانِ رنگ ہیں
مطرب کی بے دلی ہے کہ محفل کی بے حسی
کس تیغ سے ہلاکِ نوا ہائے چنگ ہیں
دل خلوتِ خیال کی آرائشوں میں گم
آنکھیں، نگار خانۂ ہستی پہ دنگ ہیں

اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا

اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
لیکن شہر کی خاموشی بھی دھیان میں رکھنا
میرے جھوٹ کو کھولو بھی اور تولو بھی تم
لیکن اپنے سچ کو بھی میزان میں رکھنا
کل تاریخ یقیناً خود کو دُھرائے گی
آج کے ایک اک منظر کو پہچان میں رکھنا

کچھ نہ کسی سے بولیں گے

کچھ نہ کسی سے بولیں گے
تنہائی میں رو لیں گے
ہم بے راہرووں کا کیا
ساتھ کسی کے ہو لیں گے
خود تو ہوئے رسوا، لیکن
تیرے بھید نہ کھولیں گے

Thursday 4 June 2015

لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں

لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں
حسرتیں ہی حسرتیں ہیں، مدعا کوئی نہیں
حرفِ غم ناپید ہے، آنکھوں میں نم ناپید ہے
درد کا سیلِ رواں ہے، راستا کوئی نہیں
اپنے من کا عکس ہے، اپنی صدا کی بازگشت
دوست، دشمن، آشنا، ناآشنا کوئی نہیں

کڑی ہے دھوپ گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں

کڑی ہے دھوپ گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں
کسی کو یاد کریں، اوس میں نہاتے جائیں
یہ دل کی بھُول بھُلیاں، یہ ایک سے رَستے
ہر ایک موڑ پہ کوئی نشاں لگاتے جائیں
سیاہ کیوں ہوں یہ طاق و دریچہ و محراب
چلے ہیں گھر سے تو جلتا دِیا بُجھاتے جائیں

Monday 1 June 2015

کب سے تم نے اپنایا اس طرح کا ہو جانا

کب سے تم نے اپنایا اس طرح کا ہو جانا
شب کو جاگتے رہنا، دن میں تھک کے سو جانا
شہر میں تو مجھ جیسی بے شمار آنکھیں ہیں 
تم بھی خیر سے جاؤ، تم نہ ان میں کھو جانا
عدل کے کٹہرے میں جرم بول پڑتا ہے
داغ داغ دامن سے کچھ لہو تو دھو جانا

سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر

سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر
زندە ہوں ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر
مالی نے آج کتنی دعائیں وصول کیں 
کچھ پھول اِک فقیر کی جھولی میں ڈال کر
کل یومِ ہجر، زرد زمانوں کا یوم ہے
شب بھر نہ جاگ، مفت میں آنکھیں نہ لال کر

تر ہوئے خوں میں کبھی خاک پہن کر آئے

تر ہوئے خوں میں کبھی خاک پہن کر آئے 
ہم ہمیشہ نئی پوشاک پہن کر آئے
اِک عجب رنگ سے نکلا وہ سرِ راہ کہ لوگ
جسم پر دیدۂ بے باک پہن کر آئے
ہم نے صدیوں کی ہتھیلی پہ رکھی ہیں آنکھیں
کوئی لمحہ تِرا اِدراک پہن کر آئے 

عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر

عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر
ہوا چراغ جلاتی رہی ہتھیلی پر
سنے گا کون مگر احتجاج خوشبو کا
کہ سانپ، زہر چھڑکتا رہا چنبیلی پر
شبِ فراق! میری آنکھ کو تھکن سے بچا
کہ نیند وار نہ کر دے تیری سہیلی پر

ہوائے ہجر میں جو کچھ تھا اب کے خاک ہوا

ہوائے ہجر میں جو کچھ تھا اب کے خاک ہوا 
کہ پیرہن تو گیا تھا، بدن بھی چاک ہوا
اب اس سے ترکِ تعلق کروں تو مر جاؤں
بدن سے روح کا اس درجہ اشتراک ہوا
یہی کہ سب کی کمانیں ہمیں پہ ٹوٹی ہیں
چلو حسابِ صفِ دوستاں تو پاک ہوا

تجھ پر بھی فسوں دہر کا چل جائے گا آخر

تجھ پر بھی فسوں دہر کا چل جائے گا آخر
دُنیا کی طرح تو بھی بدل جائے گا آخر
پھیلی ہے ہر اِک سمت حوادث کی کڑی دھوپ
پتھر ہی سہی، وہ بھی پِگھل جائے گا آخر
اَے میرے بدن! روح کی دولت پہ نہ اِترا
یہ تیر بھی ترکش سے نکل جائے گا آخر

رشتہ تشنہ لبی وقت سے جوڑا جائے

رِشتہ تشنہ لبی وقت سے جوڑا جائے
لمحے لمحے کی رگِ جاں کو نچوڑا جائے
لطف تو جب ہے سفر کا کہ مِرے ہمسفرو
اپنے سائے کو بھی رَستے میں نہ چھوڑا جائے
دل تجھے بھولنا چاہے بھی تو مشکل یہ ہے
کس طرح سانس کی زنجیر کو توڑا جائے

کچھ تو عہد خوں فشانی اور ہے

کچھ تو عہدِ خوں فشانی اور ہے
کچھ مِری آنکھوں نے ٹھانی اور ہے
وسعتِ صحرائے عالم سے ادھر
دشتِ غم کی بیکرانی اور ہے
یا ادھوری ہے گواہی عشق کی
یا پھر اس کی بدگمانی اور ہے

مستقل درد کی پوشاک پہن کر آئے

مستقل درد کی پوشاک پہن کر آئے
کوچۂ یار سے ہم خاک پہن کر آئے
اب یہ گستاخ نگاہوں سے شکایت کیسی
پیرہن آپ ہی بے باک پہن کر آئے
دل جو ٹکڑوں میں بٹا ہے تو عجب کیا اس میں
ہم لبادہ بھی تو صد چاک پہن کر آئے

سچ ہے عالی جناب ہوتا نہیں

سچ ہے عالی جناب ہوتا نہیں
دوستوں میں حساب ہوتا نہیں
جس کا ہر ایک پَل سہانا ہو
زندگی کوئی خواب ہوتا نہیں
جو حقیقت ہو صاف کہتا ہوں
مجھ سے پاسِ حجاب ہوتا نہیں