ہجومِ رنگ ہے میری ملول آنکھوں میں
بسا ہے جب سے ریاضِ رسولؐ آنکھوں میں
تصورات کے صحرا میں وہ حرم ابھرا
کھِلے گلاب میری دھول دھول آنکھوں میں
فضائے فکر و نظر دُھل کے ہو گئی اجلی
ہُوا وہ رحمتِ حق کا نزول آنکھوں میں
اِک درد سا پہلو میں مچلتا ہے سرِ شام
جب چاند جھروکے میں نکلتا ہے سرِ شام
بے نام سی اک آگ دِہک اٹھتی ہے دل میں
مہتاب جو ٹھنڈک سی اگلتا ہے سرِ شام
کچھ دیر شفق پھولتی ہے جیسے افق پر
ایسے ہی مِرا حال سنبھلتا ہے سرِ شام
اک یہی وصف ہے اس میں جو امر لگتا ہے
وہ کڑی دھوپ میں برگد کا شجر لگتا ہے
یوں تو چاہت میں نہاں جون کی حِدت ہے مگر
سرد "لہجے" میں "دسمبر" کا "اثر" لگتا ہے
جب سے جانا کہ وہ ہم شہر ہے میرا، تب سے
شہر "لاہور" بھی "جادو" کا "نگر" لگتا ہے
خود سے ملتی نہیں نجات ہمیں
قید رکھتی ہیں خواہشات ہمیں
میں نے مانگی سکون کی چادر
رنج بولے کہ بیٹھ، کات ہمیں
کچھ تو عادت ہے بے یقینی کی
اور کچھ ہیں تحیرات ہمیں
چپ کی فصل اگانے والوں سے کون پوچھے
کل وہ کیا لے کر گھر جائیں گے
کھلیانوں میں کون سی دعائیں بھریں گے
صحراؤں کے سفر میں
بے سمتی کا زادِ راہ
اونٹوں پر لادنے والوں سے کون کہے
قریۂ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے
وہ مِرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے
میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مِرے گھر کے در و بام سجانے آئے
اس سے اِک بار تو روٹھوں میں اسی کی مانند
اور مِری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے
سیرِ دنیا کرے دل، باغ کا در تو کھولے
یہ پرندہ کبھی پرواز کو پر تو کھولے
میں تو تاعمر، تِرے شہر میں رکنا چاہوں
کوئی آ کر مِرا اسبابِ سفر تو کھولے
خود بھی جنگل کو مجھے کاٹنا آ جائے گا
پر وہ شہزادہ مِرے نیند کا در تو کھولے
سکوں بھی خواب ہوا، نیند بھی ہے کم کم پھر
قریب آنے لگا دوریوں کا موسم پھر
بنا رہی ہے تِری یاد مجھ کو سلکِ کُہر
پِرو گئی مِری پلکوں میں آج شبنم پھر
وہ نرم لہجے میں کچھ کہہ رہا ہے پھر مجھ سے
چھڑا ہے پیار کے کومل سُروں میں مدھم پھر
ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو
کبھی تو رنگ مِرے ہاتھ کا حِنائی ہو
کوئی تو ہو جو مِرے تن کو روشنی بھیجے
کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہو
گلابی پاؤں مِرے چمپئ بنانے کو
کسی نے صحن میں مہندی کی باڑھ اگائی ہو
سحاب تھا کہ ستارہ، گریز پا ہی لگا
وہ اپنی ذات کے ہر رنگ میں ہوا ہی لگا
میں ایسے شخص کی معصومیت پہ کیا لکھوں
جو مجھ کو اپنی خطاؤں میں بھی، بھلا ہی لگا
زباں سے چپ ہے، مگر آنکھ بات کرتی ہے
نظر اٹھائی ہے جب بھی، تو بولتا ہی لگا
تیرے بعد جانے یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے
گھِرے ہم بھنور میں کچھ اس طرح کھلے بادباں کو ترس گئے
مِرے شہر کے جو چراغ تھے انہیں آندھیوں نے بُجھا دیا
چلی ایسی اب کے ہوائے دل کہ مکِیں مکاں کو ترس گئے
یہ عجیب خوف و ہراس ہے کوئی دُور ہے، کوئی پاس ہے
وہ جو آشیاں کے تھے پاسباں وہی آشیاں کو ترس گئے
کوئی موسم بھی ہم کو راس نہیں
وہ نہیں ہے تو کچھ بھی پاس نہیں
ایک مدت سے دل کے پاس ہے وہ
ایک مدت سے دل اداس نہیں
جب سے دیکھا ہے شام آنکھوں میں
تب سے قائم میرے حواس نہیں
وہ باخبر ہے کبھی بے خبر نہیں ہوتا
ہماری بات کا جس پر اثر نہیں ہوتا
مثالِ نکہتِ صبح وصال ہوتا ہے
بِنا تِرے کوئی لمحہ بسر نہیں ہوتا
چراغِ ہِجر مسلسل جلائے بیٹھے ہیں
کبھی ہوا کا اِدھر سے گزر نہیں ہوتا
جیسا جسے چاہا کبھی ویسا نہیں ہوتا
دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوتا
ملنے کو تو ملتے ہیں بہت لوگ جہاں میں
پر ان میں کوئی بھی تیرے جیسا نہیں ہوتا
دولت سے کبھی پیار کو تولا نہیں جاتا
معیارِ محبت کبھی پیسا نہیں ہوتا
عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں
پیش آتے ہیں رعونت سے جفاکار یہاں
سر پٹک کر درِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا
ہے دریچہ نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں
عہد و پیمانِ وفا، پیار کے نازک بندھن
توڑ دیتی ہے زر و سیم کی جھنکار یہاں
پردۂ شب کی اوٹ میں زہرہ جمال کھو گئے
دل کا کنول بجھا تو شہر تیرہ و تار ہو گئے
ایک ہمیں ہی اے سحر! نیند نہ آئی رات بھر
زانوئے شب پہ رکھ کر سر، سارے چراغ سو گئے
راہ میں تھے ببول بھی رودِ شرر بھی دھول بھی
جانا ہمیں ضرور تھا گل کے طواف کو گئے
یہ جلوہ گاہِ ناز تماشائیوں سے ہے
رونق جہاں کی انجمن آرائیوں سے ہے
روتے ہیں دل کے زخم تو ہنستا نہیں کوئی
اتنا تو فائدہ مجھے تنہائیوں سے ہے
دیوانۂ حیات کو اک شغل چاہیے
نادانیوں سے کام نہ دانائیوں سے ہے
ہوائے شب سے نہ بجھتے ہیں اور نہ جلتے ہیں
کسی کی یاد کے جگنو دھواں اگلتے ہیں
شبِ بہار میں مہتاب کے حسیں سائے
اداس پا کے ہمیں، اور بھی مچلتے ہیں
اسیرِ دام جنوں ہیں، ہمیں رہائی کہاں
یہ رنگ و بُو کے قفس اپنے ساتھ چلتے ہیں
اس ملک کو گر باپ کی جاگیر کرو گے
تو صورتِ حالات کو گھمبیر کرو گے
چاند اور ستارے کے وطن میں ہے اندھیرا
اِک ایٹمی طاقت کی یہ تشہیر کرو گے
زِندان سے ایوان میں پہنچے ہوئے لوگو
تم کس طرح اس ملک کی تطہیر کرو گے
زر پرستی حیات ہو جائے
اس سے بہتر وفات ہو جائے
پھر میں دنیا میں گھوم سکتا ہوں
جسم سے گر نجات ہو جائے
ایک دیوی کی آنکھ ایسے لگی
جیسے مندر میں رات ہو جائے
چاند پر اک مے کدہ آباد ہونا چاہیے
یا محبت کو یہیں آزاد ہونا چاہیے
قاضئ محشر! تِری مرضی، ہماری سوچ ہے
ظالموں کو دنیا میں برباد ہونا چاہیے
روح کے بے رنگ افق پر، رات بھر گونجی ندا
دل پرندہ، فکر سے آزاد ہونا چاہیے
غرور بیچیں گے نہ التجا خریدیں گے
نہ سر جھکائیں گے نہ سر جھکا خریدیں گے
قبول کر لی ہے دیوارِ چین آنکھوں نے
اب اندھے لوگ ہی رستہ نیا خریدیں گے
جھکیں تو اس کو سخاوت لگے یہ جھکنا بھی
اب اپنے قد کا کوئی دیوتا خریدیں گے
اشک در اشک، دہائی کا ثمر دیتے ہیں
ان کے آثار، جدائی کی خبر دیتے ہیں
غالباً یہ مِرے چپ رہنے کا خمیازہ ہے
تجھ کو آواز مِرے شام و سحر دیتے ہیں
مسکرا کر مجھے دے دیتے ہیں وہ اِذنِ فرار
پر مِری ذات کو اندر سے جکڑ دیتے ہیں
ہم بھی بدل گئے تِری طرزِ ادا کے ساتھ ساتھ
رنگِ حِنا کے ساتھ ساتھ، شوخئ پا کے ساتھ ساتھ
نکہتِ زلف لے اڑی، مثلِ خیال چل پڑی
چلتا ہے کون دیکھئے آج حِنا کے ساتھ ساتھ
اتنی جفا طرازیاں، اتنی ستم شعاریاں
تم بھی چلے ہو کچھ قدم اہلِ وفا کے ساتھ ساتھ
اطہر تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا، یا سب جیسا احوال ہوا
ایک سفر ہے وادئ جاں میں تیرے دردِ ہجر کے ساتھ
تیرا دردِ ہجر جو بڑھ کر لذتِ کیفِ وصال ہوا
راہِ وفا میں جاں دینا بھی پیشرؤوں کا شیوہ تھا
ہم نے جب سے جینا سیکھا، جینا کارِ مثال ہوا
دل کی مسرتیں نئی، جاں کا ملال ہے نیا
میری غزل میں آج پھر ایک سوال ہے نیا
اب جو کھِلے ہیں دل میں پھول، ان کی بہار ہے نئی
اب جو لگی ہے دل میں آگ، اس کا جلال ہے نیا
اس کے لیے بھی غمزہ ناز و ادا کا وقت ہے
اپنے لئے بھی موسمِ ہجر و وصال ہے نیا
پھر کوئی نیا زخم، نیا درد عطا ہو
اس دل کی خبر لے جو تجھے بھول چلا ہو
اب دل میں سرِ شام چراغاں نہیں ہوتا
شعلہ تِرے غم کا کہیں بجھنے نہ لگا ہو
کب عشق کِیا کس سے، کیا جھوٹ ہے یارو
بس بھول بھی جاؤ جو کبھی ہم سے سنا ہو
سوچتے اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں
اپنے گم گَشتہ کناروں کے لیے بہتا ہوں میں
جل گیا سارا بدن ان موسموں کی آگ میں
ایک موسم روح کا ہے جس میں اب زندہ ہوں میں
میرے ہونٹوں کا تبسم دے گیا دھوکا تجھے
تُو نے مجھ کو باغ جانا، دیکھ لےصحرا ہوں میں
کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا
ہوتا رہتا ہے یوں ہی قرض برابر میرا
ٹوٹ جاتے ہیں کبھی میرے کنارے مجھ سے
ڈوب جاتا ہے کبھی مجھ میں سمندر میرا
کسی صحرا میں بچھڑ جائیں گے سب یار میرے
کسی جنگل میں بھٹک جائے گا لشکر میرا
دم بدم بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا، شہر والو سنو
جیسے آئے دبے پاؤں شہرِ بلا، شہر والو سنو
خاک اڑاتی نہ تھی اس طرح تو ہوا اس کو کیا ہو گیا
دیکھو آواز دیتا ہے اک سانحہ، شہر والو سنو
عمر بھر کا سفر جس کا حاصل ہے اک لمحہٴ مختصر
کس نے کیا کھو دیا کس نے کیا پا لیا، شہر والو سنو
اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے
ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر
یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے
لہولہان پڑا تھا زمیں پہ اک سورج
پرندے اپنے پروں سے ہوائیں کرنے لگے
لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں
حسرتیں ہی حسرتیں ہیں، مدعا کوئی نہیں
حرفِ غم ناپید ہے، آنکھوں میں نم ناپید ہے
درد کا سیلِ رواں ہے، راستا کوئی نہیں
اپنے من کا عکس ہے، اپنی صدا کی بازگشت
دوست، دشمن، آشنا، ناآشنا کوئی نہیں
کڑی ہے دھوپ گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں
کسی کو یاد کریں، اوس میں نہاتے جائیں
یہ دل کی بھُول بھُلیاں، یہ ایک سے رَستے
ہر ایک موڑ پہ کوئی نشاں لگاتے جائیں
سیاہ کیوں ہوں یہ طاق و دریچہ و محراب
چلے ہیں گھر سے تو جلتا دِیا بُجھاتے جائیں
عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر
ہوا چراغ جلاتی رہی ہتھیلی پر
سنے گا کون مگر احتجاج خوشبو کا
کہ سانپ، زہر چھڑکتا رہا چنبیلی پر
شبِ فراق! میری آنکھ کو تھکن سے بچا
کہ نیند وار نہ کر دے تیری سہیلی پر
مستقل درد کی پوشاک پہن کر آئے
کوچۂ یار سے ہم خاک پہن کر آئے
اب یہ گستاخ نگاہوں سے شکایت کیسی
پیرہن آپ ہی بے باک پہن کر آئے
دل جو ٹکڑوں میں بٹا ہے تو عجب کیا اس میں
ہم لبادہ بھی تو صد چاک پہن کر آئے
سچ ہے عالی جناب ہوتا نہیں
دوستوں میں حساب ہوتا نہیں
جس کا ہر ایک پَل سہانا ہو
زندگی کوئی خواب ہوتا نہیں
جو حقیقت ہو صاف کہتا ہوں
مجھ سے پاسِ حجاب ہوتا نہیں