Friday 31 July 2015

اس کے کوچے کے کہاں تک کوئی چکر کاٹے

اس کے کوچے کے کہاں تک کوئی چکر کاٹے
اب سبک دوش کرے یوں کہ مِرا سر کاٹے
صبحِ آلام، شبِ غم، کوئی کیوں کر کاٹے
دن مصیبت کے کہاں تک دلِ مضطر کاٹے
بے ستوں سے یہ ابھرتی ہے صدائے شیریں
کوئی فرہاد بنے، تیشے سے پتھر کاٹے

ظلم کر دے نہ تیرا مائل فریاد مجھے

ظلم کر دے نہ تیرا مائلِ فریاد مجھے
اِس قدر بھی نہ ستا او ستم ایجاد! مجھے
رات پڑتی ہے تو آتا ہے کوئی یاد مجھے 
تُو نے رکھا نہ کہیں قابلِ ناشاد مجھے
جو خوشی آپ کی وہ میری خوشی بسم اللہ
آپ کرتے ہیں تو کر دیجئے برباد مجھے

دل نے جاناں کو جو شب نامہ ہجراں لکھا

دل نے جاناں کو جو شب نامۂ ہجراں لکھا
اشک خونیں کا چراغاں، سرِ مژگاں لکھا
ہم عجب شعبدہ گر ہیں، بندھے ہاتھوں ہم نے
اس کی بانہوں سے ملاقات کا ارماں لکھا
زلف کو اس کی بھلا مجھ سے شکایت کیوں ہے
جو پریشاں تھا اسے میں نے پریشاں لکھا

اسی میں ہو چکا اب کیا نہ چاہوں

اسی میں ہو چکا، اب کیا نہ چاہوں
سزا ہونے کی ہے، ہونا نہ چاہوں
تُو میرے بعد رکھے گا یاد مجھے
میں اپنے بعد اک لمحہ نہ چاہوں
جدھر دیکھو ادھر بے پردگی ہے
کدھر دیکھوں کہ میں پردہ نہ چاہوں

یہ غم کیا دل کی عادت ہے نہیں تو

یہ غم کیا دل کی عادت ہے، نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ہے، نہیں تو
کسی کے بِن، کسی کی یاد کے بِن
جیئے جانے کی ہمت ہے، نہیں تو
ہے وہ اک خوابِ بے تعبیر، اس کو
بھلا دینے کی نیت ہے، نہیں تو

ترے فرق ناز پہ تاج ہے مرے دوش غم پہ گلیم ہے

تِرے فرقِ ناز پہ تاج ہے، مِرے دوشِ غم پہ گلیم ہے
تِری داستاں بھی عظیم ہے، مِری داستاں بھی عظیم ہے
مِری کتنی سوچتی صبحوں کو یہ خیال زہر پِلا گیا
کسی تپتے لمحے کی آہ ہے کہ خرامِ موجِ نسیم ہے
تہِ خاک، کِرمکِ دانہ جُو بھی شریکِ رقصِ حیات ہے
نہ بس ایک جلوۂ طُور ہے، نہ بس ایک شوقِ کلیمؑ ہے

سفر کی موج میں تھے وقت کے غبار میں تھے

سفر کی موج میں تھے، وقت کے غبار میں تھے
وہ لوگ، جو ابھی اس قریۂ بہار میں تھے
وہ ایک چہرے پہ بکھرے عجب عجب سے خیال
میں سوچتا تو وہ غم میرے اختیار میں تھے
وہ ہونٹ، جن میں تھا میٹھی سی ایک پیاس کا رس
میں جانتا تو وہ دریا مِرے کنار میں تھے

کیا کہیے کیا حجاب حیا کا فسانہ تھا

کیا کہیے کیا حجابِ حیا کا فسانہ تھا 
سب کچھ بس اک نگاہِ کرم کا بہانہ تھا
دیکھا تو ہر تبسمِ لب والہانہ تھا
پرکھا تو ایک حیلۂ صنعت گرانہ تھا
دنیا، امیدِ دید کی دنیا تھی دیدنی
دیوار و در اداس تھے، موسم سہانہ تھا

جاوداں قدروں کی شمعیں بجھ گئیں تو جل اٹھی تقدیر دل

جاوِداں قدروں کی شمعیں بجھ گئیں تو جل اٹھی تقدیرِ دل
اب تو اس مٹی کے ہر ذی روح ذرے میں بھی ہے تصویرِ دل
اپنے دل کی راکھ چن کر، کاش ان لمحوں کی بہتی آگ میں
میں بھی اک سیال شعلے کے ورق پر لکھ سکوں، تفسیرِ دل
میں نہ سمجھا، ورنہ ہنگاموں بھری دنیا میں، اک آہٹ کے سنگ 
کوئی تو تھا، آج جس کا قہقہہ دل میں ہے دامن گیرِ دل

مجھ کو آتا ہے تیمم نہ وضو آتا ہے

مجھ کو آتا ہے تیمّم، نہ وضُو آتا ہے
سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تُو آتا ہے
یوں تو شِکوہ بھی ہمیں آئینہ رُو آتا ہے
ہونٹ سِل جاتے ہیں جب سامنے تُو آتا ہے
ہاتھ دھوئے ہوئے ہوں نِیستی و ہستی سے
شیخ کیا پوچھتا ہے مجھ سے، وضُو آتا ہے

بتوں کے واسطے تو دین و ایماں بیچ ڈالے ہیں

بُتوں کے واسطے تو دِین و اِیماں بیچ ڈالے ہیں
یہ وہ معشوق ہیں جو ہم نے کعبے سے نکالے ہیں
وہ دیوانہ ہوں جس نے کوہ و صحرا چھان ڈالے ہیں
انہیں تلووں سے تو ٹوٹے ہوئے کانٹے نکالے ہیں
تراشی ہیں وہ باتیں، اس سِتم گر نے سرِ محفل
کلیجے سے ہزاروں تیر چُن چُن کر نکالے ہیں

انس اپنے میں کہیں پایا نہ بے گانے میں تھا

انس اپنے میں کہیں پایا نہ بیگانے میں تھا
کیا نشہ ہے سارا عالم ایک پیمانے میں تھا
آہ، اتنی کاوشیں یہ شور و شر، یہ اضطراب
ایک چٹکی خاک کی، دو پر، یہ پروانے میں تھا
آپ ہی اس نے انا الحق کہہ دیا، الزام کیا
ہوش کس نے لے لیا تھا، ہوش دیوانے میں تھا

جان دیتے ہی بنی عشق کے دیوانے سے

جان دیتے ہی بنی عشق کے دیوانے سے
شمع کا حال نہ دیکھا گیا پروانے سے
آتشِ عشق سے جل جل گئے پروانے
پہلے یہ آگ لگی کعبہ و بت خانے سے
ساقیا! گِریۂ غم سے مجھے مجبور سمجھ
خون رِستا ہے یہ ٹوٹے ہوئے پیمانے سے

جب تلک جوش جنوں عشق پہ حاوی نہ ہوا

جب تلک جوشِ جنوں عشق پہ حاوی نہ ہوا
کوئی بھی کام محبت میں مثالی نہ ہوا
مشورہ "ترکِ" تعلق کا "دیا" تھا اس نے
میں تو راضی تھا، مگر دل مِرا راضی نہ ہوا
فیصلے میں‌ بھی کِیا کرتا اسی کے حق میں
وہ تو اچھا ہوا، اس دور کا قاضی نہ ہوا

Thursday 30 July 2015

میں دور دور رہا بھی تو تیرے پاس رہا

میں دور دور رہا بھی تو تیرے پاس رہا
مگر یہ سچ ہے کہ جاناں! بہت اداس رہا
نہ بچ کے جا سکا تیرے بدن کی خوشبو سے
ہوا کا جھونکا بھی آشفتۂ حواس رہا
ملی نہ فرصتِ یک لمحہ اس کو اپنے سے
نظر شناس رہا وہ، نہ غم شناس رہا

کچھ عجب طرح کا طوفان اٹھا ہے دل میں

کچھ عجب طرح کا طوفان اٹھا ہے دل میں
دل کی دھڑکن ہے کہ آسیب بلا ہے دل میں
اب کہاں ڈھونڈنے جاتے ہو بھلا تم اس کو
وہ تو آنکھوں کی نمی بن کے چھپا ہے دل میں
خشک آنکھوں کو ابھی رونے کی حسرت ہے بہت
اس کو تھمنے دو، جو کہرام مچا ہے دل میں

رات تیری یادوں نے اس قدر ستایا ہے

رات تیری یادوں نے اس قدر ستایا ہے
جتنا مسکرائے ہیں اتنا جی بھر آیا ہے
فصلِ گُل جو آئی ہے، شامِ غم بھی چمکے گی
ہم نے اشک بوئے تھے، ہم نے دل جلایا ہے
آؤ دام پوچھیں گے، کوئی شخص سنتے ہیں
اپنی عمر کا حاصل، بیچنے کو لایا ہے

صلیب دوش پہ زخموں سے چور چور بھی ہیں

صلیبِ دوش پہ زخموں سے چور چور بھی ہیں 
ہمارے سینے میں جھانکو کہ اور طور بھی ہیں 
خدا نہ دے کسی دشمن کو ایسی محرومی
کہ تیرے پاس بھی ہیں اور تجھ سے دور بھی ہیں 
اب اس کو کیا کریں، کیسے کہیں، کسے سمجھائیں 
وہ جان و دل سہی، لیکن وہی نفور بھی ہیں 

Wednesday 29 July 2015

اہل دل آنکھ جدھر کھولیں گے

اہلِ دل آنکھ جدھر کھولیں گے
اک دبستانِ ہنر کھولیں گے
وہیں رک جائیں گے تاروں کے قدم
ہم جہاں رختِ سفر کھولیں گے
بحر ایجاز خطرناک سہی
ہم ہی اب اس کے بھنور کھولیں گے

دل میں اک ہوک سی اٹھی ہے ابھی

دل میں اک ہوک سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
کچھ تو نازم مزاج ہیں ہم بھی
اور یہ سوچ بھی لگی ہے ابھی

کہاں گئے وہ سخنور جو میر محفل تھے

کہاں گئے وہ سخنور جو میرِ محفل تھے
ہمارا کیا ہے بھلا ہم کہاں کے کامل تھے
بھلا ہوا کہ ہمیں یوں بھی کوئی کام نہ تھا
جو ہاتھ ٹوٹ گئے ٹوٹنے کے قابل تھے
حرام ہے جو صراحی کو منہ لگایا ہو
یہ اور بات کہ ہم بھی شریکِ محفل تھے

اک خلش کو حاصل عمر رواں رہنے دیا

اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا
آرزوئے قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا

بخشے پھر اس نگاہ نے ارماں نئے نئے

بخشے پھر اس نگاہ نے ارماں نئے نئے
محسوس ہو رہے ہیں دل و جاں نئے نئے
یوں قیدِ زندگی نے رکھا مضطرب ہمیں
جیسے ہوئے ہوں داخلِ زنداں نئے نئے
کس کس سے اس امانتِ دِیں کو بچائیے
ملتے ہیں روز دشمنِ ایماں نئے نئے

رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے

فلمی گیت

رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے
پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہو گئے
دن بدن بڑھتی گئیں اس حسن کی رعنائیاں
پہلے گل پھر گلبدن پھر گل بداماں ہو گئے
آپ تو نزدیک سے نزدیک تر آتے گئے
پہلے دل پھر دلربا پھر دل کے مہمان ہو گئے

ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا

فلمی گیت

ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
ذرا سی ٹھیس پہنچے گی، یہ شیشہ ٹوٹ جائے گا
یہاں کے لوگ تو دو گام چل کے چھوڑ دیتے ہیں
ذرا سی دیر میں برسوں کے رشتے توڑ دیتے ہیں
خبر کیا تھی کہ قسمت کا ستارہ ٹوٹ جائے گا
جو ملتے ہیں بظاہر دوست بن کر، رازداں بن کر

عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی

عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی
اس قدر الجھن میں پہلے زندگی دیکھی نہ تھی
یہ تماشا بھی عجب ہے ان کے اُٹھ جانے کے بعد
میں نے دن میں اس سے پہلے تیرگی دیکھی نہ تھی
آپ کیا آئے کہ رخصت سب اندھیرے ہو گئے
اس قدر گھر میں کبھی بھی روشنی دیکھی نہ تھی

وہ تو نہ مل سکے ہمیں رسوائیاں ملیں

وہ تو نہ مل سکے، ہمیں رسوائیاں ملیں
لیکن ہمارے عشق کو رعنائیاں ملیں
آنکھوں میں ان کی ڈوب کے دیکھا ہے بارہا
جِن کی تھی آرزو، نہ وہ گہرائیاں ملیں
آئینہ رکھ کے سامنے آواز دی اسے
اس کے بغیر جب مجھے تنہائیاں ملیں

جیتے ہیں کیسے ایسی مثالوں کو دیکھئے

جیتے ہیں کیسے ایسی مثالوں کو دیکھیے
پردہ اٹھا کے چاہنے والوں کو دیکھیے
دل کیا جگر ہے چاہنے والوں کو دیکھیے
میرے سکوت اپنے سوالوں کو دیکھیے
اب بھی ہیں ایسے لوگ کہ جن سے سبق ملے
دل مردہ ہے تو زندہ مثالوں کو دیکھیے

یہ مشورے بہم اٹھے ہیں چارہ جو کرتے

یہ مشورے بہم اٹھے ہیں چارہ جو کرتے
اب اس مریض کو اچھا تھا قبلہ رو کرتے
زبان رک گئی آخر سحر کے ہوتے ہی
تمام رات کٹی دل سے گفتگو کرتے
سوادِ شہرِ خموشاں کا دیکھیے منظر
سنا نہ ہو جو خموشی کو گفتگو کرتے

Tuesday 28 July 2015

اب تبسم کا ہے یہ رنگ دھواں ہو جیسے ​

اب تبسم کا ہے یہ رنگ، دھواں ہو جیسے ​
آج نغمہ کا یہ عالم ہے، فغاں ہو جیسے​
کچھ نہ کہنے پہ بھی سب کچھ ہے زمانے پہ عیاں ​
خامشی حسن و محبت کی زباں ہو جیسے​
قافلہ مہر و وفا کا یہ کہاں آ پہونچا​
زندگی راہ میں خود سنگِ گراں ہو جیسے​

ہم ڈوبنے والے موجوں کی توہین گوارا کیا کرتے

ہم ڈوبنے والے، موجوں کی توہین گوارا کیا کرتے
کشتی کا سہارا کیوں لیتے، ساحل کی تمنا کیا کرتے
ہستی کا دھوکا کیوں کھاتے، ہم خواہشِ دنیا کیا کرتے
جلوے پہ نظر رکھنے والے، پردوں کا نظارہ کیا کرتے
بجلی کی چمک، بادل کی گرج،  پرزور ہوا، تاریک فضا
خود آگ نشیمن کو دے دی تنکوں پہ بھروسا کیا کرتے

ہم تو ڈبو کر کشتی کو خود ہی پار لگائیں گے

ہم تو ڈبو کر کشتی کو، خود ہی پار لگائیں گے
طوفاں سے گر بچ نکلی، ساحل سے ٹکرائیں گے
کہہ تو دیا، الفت میں ہم جان کے دھوکا کھائیں گے
حضرتِ ناصح!خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے
یہ تو سب سچ ہے مجھ پر آپ کرم فرمائیں گے
لیکن اتنا دھیان رہے، لوگ بہت بہکائیں گے

جمال پر حجاب خدوخال کر دیا گیا

جمال پر حجابِ خد و خال کر دیا گیا
نگاہ دے کے دیکھنا محال کر دیا گیا
کمال سارے مائلِ زوال کر دئیے گئے
زوال تھا کہ جسے لازوال کر دیا گیا
ہمارے خالی ہاتھ میں تھما کے کاسۂ طلب
جواب کیا دیا گیا سوال کر دیا گیا

یہ کیسی تیرگی ہے کہ چبھتی ہے آنکھ میں

یہ کیسی تیرگی ہے کہ چبھتی ہے آنکھ میں
اب ہو بھی جائے صبح کہ سویا نہیں ہوں میں
دیکھا نہیں ہے خود کو سرِ منزلِ یقیں
جنگل میں واہموں کے تو کھویا نہیں ہوں میں
عرصہ ہوا کہ بوجھ سا سینے پہ ہے مِرے
مدت ہوئی کہ دوستو! رویا نہیں ہوں میں

اب اپنی آنکھ میں مرے اشکوں کو تھام کر

اب اپنی آنکھ میں مِرے اشکوں کو تھام کر
جانے سے پہلے آ کے یہ حجت تمام کر
اتنی ذرا سی بات کو اتنا نہ طول دے
اس "داستانِ" عمر کا اب "اختتام" کر
اے عہدِ ناسپاس! بس حدِ ادب میں رہ
خواہش ہوں میں خدا کی، مِرا احترام کر

بدن بھی میری جاں کب تک رہے گا

بدن بھی میری جاں کب تک رہے گا
کرائے کا مکاں کب تک رہے گا
الاؤ پر "دھواں" رہتا ہے کب تک
زمیں پر آسماں کب تک رہے گا
ہمیں پھر بے زماں ہونا پڑے گا
کہ دورِ جاوداں کب تک رہے گا

Sunday 26 July 2015

یہ کافر بت جنہیں دعویٰ ہے دنیا میں خدائی کا

یہ کافر بت جنہیں دعویٰ ہے دنیا میں خدائی کا
ملیں محشر میں مجھ عاصی کو صدقہ کبریائی کا
یہ مجھ سے سخت جاں پر شوق خنجر آزمائی کا
خدا حافظ مِرے قاتل! تِری نازک کلائی کا
تم اچھے، غیر اچھا، غیر کی تقدیر بھی اچھی
یہ آخر ذکر کیوں ہے میری قسمت کی برائی کا

آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا

آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا
دیکھا کسے کہ شمع سے پروانہ ہو گیا
گُل کر کے شمع سوئے تھے ہم نامراد آج
روشن کسی کے آنے سے کاشانہ ہو گیا
منہ چوم لوں یہ کس نے کہا مجھ کو دیکھ کر
دیوانہ تھا ہی، اور بھی دیوانہ ہو گیا

شراب ناب سے ساقی جو ہم وضو کرتے

شرابِ ناب سے ساقی جو ہم وضو کرتے
حرم کے لوگ طوافِ خم و سبو کرتے
وہ مَل کے دستِ حنائی سے دل لہو کرتے
ہم آرزو تو حسیں خونِ آرزو کرتے
کلیمؑ کو نہ غش آتا، نہ طور ہی جلتا
دبی زبان سے اظہارِ آرزو کرتے

وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا

وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا
کس گھر میں خوشی ہوتی ہے ماتم نہیں ہوتا
تم جا کے چمن میں گل و بلبل کو تو دیکھو
کیا لطف تہِ چادرِ شبنم نہیں ہوتا
کیا سُرمہ بھری آنکھوں سے آنسو نہیں گِرتے
کیا مہندی لگے ہاتھوں سے ماتم نہیں ہوتا

Saturday 25 July 2015

ایک ایک گھڑی اس کی قیامت کی گھڑی ہے

ایک ایک گھڑی اس کی قیامت کی گھڑی ہے 
جو ہجر میں تڑپائے، وہی رات بڑی ہے 
یہ ضعف کا عالم ہے کہ  تقدیر کا لکھا 
بستر پہ ہوں میں یا کوئی تصویر پڑی ہے 
بیتابئ دل کا ہے وہ دِلچسپ تماشا 
جب دیکھو شبِ ہجر مرے در پہ کھڑی ہے

بلا ہے عشق لیکن ہر بشر قابل نہیں ہوتا

بلا ہے عشق، لیکن ہر بشر قابل نہیں ہوتا
بہت پہلو ہیں ایسے بھی کہ جن میں دل نہیں ہوتا
نشانِ بے نشانی مٹ نہیں سکتا قیامت تک
یہ نقشِ حق جفائے دہر سے باطل نہیں ہوتا
جہاں میں ناامیدی کے سوا امید کیا معنی
سبھی کہتے ہیں، لیکن دل مِرا قائل نہیں ہوتا

وحشت تھی مگر چاک لبادہ بھی نہیں تھا

وحشت تھی مگر چاک لبادہ بھی نہیں تھا 
یوں زخم نمائی کا ارادہ بھی نہیں 
خلعت کے لیے قیمتِ جاں یوں بھی بہت تھی
پھر اتنا دلآویز لبادہ بھی نہیں تھا
ہم مرحبا کہتے تیرے ہر تیرِ ستم پر
سچ بات کہ دل اتنا کشادہ بھی نہیں تھا

قربت نہیں تو شدت ہجراں ضرور ہو

قربت نہیں تو شدتِ ہجراں ضرور ہو
جاناں سے کوئی سلسلہٴ جاں ضرور ہو
ہم ایسے وحشیوں کی تواضع کے واسطے
ہر گھر میں اک زرا سا بیاباں ضرور ہو
نوواردانِ مدرسۂ عشق کے لیے
درسِ وفا کا قاعدہ آساں ضرور ہو

اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی

اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
قید کو توڑ کے نکلا جب میں اٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے
دشتِ عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی

کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی

کِس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا، ٹوٹ کے "برسا" پانی
رو لئے پھوٹ کے، سینے میں جلن اب کیوں ہے
آگ "پگھلا" کے نکالا ہے یہ "جلتا" پانی
کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی امنگ
جی "بہا" لے گیا "برسات" کا "پہلا" پانی

دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے

دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
تھے وہی بت، وہی خدا ٹھہرے
ٹھہرے اس در پہ یوں تو کیا ٹھہرے
بن کے زنجیرِ بے صدا ٹھہرے
سانس ٹھہرے تو دم ذرا ٹھہرے
تیز آندھی میں شمع کیا ٹھہرے

کسی طرح تو بیاں حرف آرزو کرتے

کسی طرح تو بیاں حرفِ آرزو کرتے
جو لب سِلے تھے تو آنکھوں سے گفتگو کرتے
بس اک نعرۂ مستاں دریدہ پیرہنو
کہاں کے طوق و سلاسل بس ایک ہُو کرتے
کبھی تو ہم سے بھی اے ساکنانِ شہرِ خیال
تھکے تھکے ہوئے لہجے میں گفتگو کرتے

ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دکھا گیا

ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دُکھا گیا
کہ شامِ غم تو کاٹ لی سحر ہوئی تو چلا گیا
ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آ گئی
وہ اک دِیا بجھا تو سینکڑوں دِیے جلا گیا
سکوت میں بھی اس کے اک ادائے دلنواز تھی
وہ یارِ کم سخن کئی حکایتیں سنا گیا

Friday 24 July 2015

جنگل کو رو چکے چلو دریا کا غم کریں

جنگل کو رو چکے، چلو دریا کا غم کریں 
لگ جائیں پھر سے کام پہ دامن کو نم کریں
یہ شرط ہی غلط ہے فقط اک چراغ کی 
کس کو بجھائیں اور کسے محترم کریں
دل میں لگا رہا ہوں نئے درد کی سبیل 
توفیق دی گئی ہے جنہیں آنکھ نم کریں