Wednesday 30 September 2015

مانا حجاب دید مری بیخودی ہوئی

مانا حجاب دید مِری بے خودی ہوئی
تم وجہِ بے خودی نہیں یہ ایک ہی ہوئی
دل ہے وہ طاقِ غمکدۂ عمر دوش کا
رکھی ہے جس پہ شمعِ تمنا بجھی ہوئی
میں منزلِ فنا کا نشانِ شکستہ ہوں
تصویرِ گربادِ وفا ہوں مِٹی ہوئی

تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا

تِری تِرچھی نظر کا تیر ہے، مشکل سے نکلے گا
دل اس کے ساتھ نکلے گا، اگر یہ دل سے نکلے گا
شبِ غم میں بھی، میری سخت جانی کو نہ موت آئی
تِرا کام اے اجل، اب خنجرِ قاتل سے نکلے گا
نگاہِ شوق، میرا مدعا تو ان کو سمجھا دے
مِرے منہ سے تو حرفِ آرزو مشکل سے نکلے گا

یہ کس قیامت کی بیکسی ہے زمیں ہی اپنا نہ یار میرا

یہ کس قیامت کی بے کسی ہے زمیں ہی اپنا نہ یار میرا
نہ خاطر بے قرار میری، نہ دیدۂ اشکبار میرا
نشان عبرت عیاں نہیں ہے نہیں کہ باقی نشاں نہیں ہے
مزار میرا کہاں نہیں ہے، کہیں نہیں ہے مزار میرا
وصال تیرا خیال تیرا جو ہو تو کیونکر نہ ہو تو کیونکر
نہ تجھ پہ کچھ اختیار دل کا نہ دل پہ کچھ اختیار میرا

وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا

وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
حیراں ہوں کہ دوں انہیں اس کا جواب کیا
دل، اور وہ بھی مِرا درد مند دل
تیری نگاہ نے کیا، یہ انتخاب کیا
جاتی نہیں خلش المِ روزگار کی
اے آسماں ہُوا وہ تیرا انقلاب کیا

سنگ در دیکھ کے سر یاد آیا

سنگِ در دیکھ کے سر یاد آیا
کوئی دیوانہ مگر یاد آیا
پھر وہ انداز نظر یاد آیا
چاک دل تا بہ جگر یاد آیا
ذوقِ اربابِ نظر یاد آیا
سجدہ بے منتِ سر یاد آیا

جلوہ عشق حقیقت تھی حسن مجاز بہانہ تھا

جلوۂ عشق حقیقت تھی، حسن مجاز بہانہ تھا
شمع جسے ہم سمجھتے تھے شمع نہ تھی پروانہ تھا
شعبدے آنکھوں کے ہم نے ایسے کتنے دیکھے ہیں
آنکھ کھلی تو دنیا تھی، بند ہوئی افسانہ تھا
عہدِ جوانی ختم ہوا، اب مرتے ہیں نہ جیتے ہیں
ہم بھی جیتے تھے جب تک مر جانے کا زمانہ تھا

یاں ہوش سے بے زار ہوا بھی نہیں ‌جاتا​

یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں ‌جاتا​
اس بزم میں ‌ہشیار ہوا بھی نہیں‌ جاتا​
کہتے ہو کہ ہم وعدۂ پرسش نہیں ‌کرتے​
یہ سن کے تو بیمار ہوا بھی نہیں ‌جاتا​
دشوارئ انکار سے طالب نہیں ‌ڈرتے​
یوں سہل تو اقرار ہوا بھی نہیں ‌جاتا​

جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے

جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
اب دل کا یہ عالم ہے نہ دنیا ہے نہ دِیں ہے
گم ہیں رہِ تسلیم میں طالب بھی طلب بھی
سجدہ ہی درِ یار ہے، سجدہ ہی جبِیں ہے
کچھ مظہرِ باطن ہوں تو کچھ محرمِ ظاہر
میری ہی وہ ہستی ہے کہ ہے اور نہیں ہے

ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا

ہوش ہستی سے تو بے گانہ بنایا ہوتا
کاش تُو نے مجھے دیوانہ بنایا ہوتا
دل میں اک شمع سی جلتی نظر آتی ہے مجھے
آ کے اس شمع کو پروانہ بنایا ہوتا
تیرے سجدوں میں نہیں شانِ محبت زاہد
سر کو خاکِ درِ جانانہ بنایا ہوتا

Tuesday 29 September 2015

منزلوں کے فاصلے در و دیوار میں رہ گئے

منزلوں کے فاصلے در و دیوار میں رہ گئے
کیا سفر تھا میرے سارے خواب گھر میں رہ گئے
اب کوئی تصویر بھی اپنی جگہ قائم نہیں
اب ہوا کے رنگ ہی میری نظر میں رہ گئے
جتنے منظر تھے میرے ہمراہ گھر تک آئے
اور پس منظر سواد رہگزر میں رہ گئے

​رخصت رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے

​رخصتِ رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے
سرِ منزل مگر اِک بولتی تصویر بھی ہے
میرے شانوں پر فرشتوں کا بھی ہے بارِ گراں
اور میرے سامنے اِک ملبے کی تعمیر بھی ہے
زائچہ اپنا جو دیکھا تو سر یاد آیا
جیسے ان ہاتھوں پہ کندہ کوئی تقدیر بھی ہے

خبر ملی ہے غم گردش جہاں سے مجھے

خبر ملی ہے غمِ گردشِ جہاں سے مجھے
کہ دیکھتا ہے کوئی چشمِ مہرباں سے مجھے
تِرا خیال تھا، تیری نظر کے ساتھ گیا
زمانہ ڈھونڈ کے لائے گا اب کہاں سے مجھے
کہیں یہ تم تو نہیں، میری آرزو تو نہیں
بلا رہا ہے کوئی بامِ کہکشاں سے مجھے

کلیوں کا تبسم ہو کہ تم ہو کہ صبا ہو

کلیوں کا تبسم ہو، کہ تم ہو، کہ صبا ہو
اس رات کے سناٹے میں، کوئی تو صدا ہو
یوں جسم مہکتا ہے ہوائے گلِ تر سے
جیسے کوئی پہلو سے، ابھی اٹھ کے گیا ہو
دنیا ہمہ تن گوش ہے، آہستہ سے بولو
کچھ اور قریب آؤ، کوئی سن نہ رہا ہو

میکدے کا نظام تم سے ہے

مے کدے کا نظام تم سے ہے
شیشہ تم سے ہے جام تم سے ہے
صبح تم سے ہے شام تم سے ہے
ہر طرح کا نظام تم سے ہے
سب کو سوز و گداز تم نے دیا
عشق کا فیضِ عام تم سے ہے

ہم کسی کا گلہ نہیں کرتے

ہم کسی کا گِلا٭ نہیں کرتے
نہ مِلیں، جو مِلا نہیں کرتے
چند کلیاں شگفتہ قسمت ہیں
سارے غنچے کھِلا نہیں کرتے
جن کو دستِ جنوں نے چاک کِیا
وہ گریباں سِلا نہیں کرتے

خدا جانے کہاں ہے اصغر دیوانہ برسوں سے

خدا جانے کہاں ہے اصغر دیوانہ برسوں سے
کہ اس کو ڈھونڈتے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے
تڑپنا ہے نہ جلنا ہے نہ جل کر خاک ہونا ہے
یہ کیوں سوئی ہوئی ہے فطرتِ پروانہ برسوں سے
کوئی ایسا نہیں یارب! کہ جو اس درد کو سمجھے
نہیں معلوم کیوں خاموش ہے دیوانہ برسوں سے

موجوں کا عکس ہے خط جام شراب میں

موجوں کا عکس ہے خطِ جامِ شراب میں
یاں خون اچھل رہا ہے رگِ ماہتاب میں
باقی نہ تابِ ضبط رہی شیخ و شاب میں
ان کی جھلک بھی تھی میری چشمِ پُرآب میں
کیوں شکوہ سنج گردشِ لیل و نہار ہوں
اک تازہ زندگی ہے ہر اک انقلاب میں

غموں کی رات بڑی بے کلی سے گزری ہے

غموں کی رات بڑی بے کلی سے گزری ہے
گزر گئی ہے مگر جاں کئی سے گزری ہے
مسیحؑ و خضرؑ کی عمریں نثار ہوں اس پر
وہ زندگی کی گھڑی جو خوشی سے گزری ہے
خزاں تو خیر خزاں ہے، ہمارے گلشن سے
بہار بھی بڑی آزُردگی سے گزری ہے

اک خموشی ہے کہ سکتے کی طرح طاری ہے

اک خموشی ہے کہ سکتے کی طرح طاری ہے
آج کی شام طبیعت پہ بہت بھاری ہے
حوضِ کوثر میں ہو تلخی بھی ذرا سی یارب
ہم فقیروں کو ذرا عادتِ مے خواری ہے
دشمنی بندوں سے یزداں سے عقیدت اتنی
حضرتِ شیخ! یہ کس نوع کی عیاری ہے

اک رند بنا مولانا تو میں خوب ہنسا

میں خوب ہنسا

اک رِند بنا مولانا تو میں خوب ہنسا
اس نے چاہا مجھے سمجھانا تو میں خوب ہنسا
میں پہلے تو رویا واعظ کی دھمکی پر
چلتا ہی رہا مے خانہ تو میں خوب ہنسا
جس شہر سے تھی آبائے شہر کو ہمدردی
وہ شہر بنا ویرانہ تو میں خوب ہنسا

روکے لاکھ خدائی تم سچ لکھتے رہنا

روکے لاکھ خدائی، تم سچ لکھتے رہنا
یار قتیلؔ شفائی، تم سچ لکھتے رہنا
آج بہت قیمت ہے جھوٹی تحریروں کی
لیکن میرے بھائی، تم سچ لکھتے رہنا
بے ایمان یونہی بنتے ہیں لکھنے والے
چھوڑ کے دودھ ملائی، تم سچ لکھتے رہنا

اک دامن رنگیں لہرایا مستی سی فضا میں چھا ہی گئی

اک دامن رنگیں لہرایا، مستی سی فضا میں چھا ہی گئی 
جب سیرِ چمن کو وہ نکلے پھولوں کی جبیں شرما ہی گئی 
یہ صحنِ چمن یہ باغِ جہاں خالی تو نہ تھا نکہت سے مگر
کچھ دامنِ گُل سے دور تھا میں، کچھ بادِ صبا کترا ہی گئی
احساس الم اور پاسِ حیا اس وقت کا آنسوئے صہبا ہے
اس چشمِ حسِیں کو کیا کہیے جب پی نہ سکی چھلکا ہی گئی

یہ نیم باز تری انکھڑیوں کے مے خانے

یہ نِیم باز تِری انکھڑیوں کے مے خانے
نظر ملے تو چھلک جائیں دل کے پیمانے
شرابِ شوق سے بوجھل لبوں کے پیمانے
تِری نگاہ کو ایسے میں کون پہچانے
کہیں کلی نے تبسم کا راز سمجھا ہے
جو خود چمن ہے وہ اپنی بہار کیا جانے

میں بھول گیا تجھ میں محراب خدا خانہ

میں بھول گیا تجھ میں محرابِ خدا خانہ
اے سجدہ گہِ عالم، اے ابروئے جانانہ
وہ جلوۂ مستانہ، وہ زلف پسِ شانہ
برباد کنِ کعبہ، غارت گرِ بت خانہ
پیمانہ کہاں تک ہے، اے ساقئ میخانہ
ہم نے تو نہیں پائی اب تک تہِ پیمانہ

میکدہ کی جانب چل زندگی ہے مستی ہے

میکدہ کی جانب چل زندگی ہے مستی ہے
نقد عاقلی دے کر مے ملے تو سستی ہے
ہیں زمیں کے ذرے بھی سیرِ ماہ و انجم میں
کس قدر بلندی پر آج کل کی پستی ہے
کارواں کے دیوانے اس جگہ نہ منزل کر
شہرِ کم چراغاں ہے رہبروں کی بستی ہے

تجلیوں سے غم اعتبار لے کے اٹھا

تجلیوں سے غمِ اعتبار لے کے اٹھا
سکوں نہیں تھا تو دل کا قرار لے کے اٹھا
گزرنے والے مسافر سے کی امیدِ وفا
ہر ایک رہ سے کوئی انتظار لے کے اٹھا
کیے جنوں میں یہاں تک سجودِ مجبوری
کہ آستاں سے تِرے اختیار لے کے اٹھا

وہ خزاں ہو کہ بہار ہو تجھے جاگنے کا پیام ہے

وہ خزاں ہو کہ بہار ہو تجھے جاگنے کا پیام ہے
کہیں سو گیا ہو جو باغباں تو چمن کو نیند حرام ہے
یہی بال و پر ہیں کمندِ غم اگر احتیاطِ مکیں نہ ہو
تُو قفس سے چھوٹ گیا تو کیا کہ قریب پھر وہی دام ہے
یہ تھکا تھکا ہوا کارواں نہیں آشنائے سُبک روی
تُو سنبھل سنبھل کے قدم اٹھا کہ زمانہ تیز خرام ہے

بھلا کب دیکھ سکتا ہوں کہ غم ناکام ہو جائے

بھلا کب دیکھ سکتا ہوں کہ غم ناکام ہو جائے
جو آرامِ دل و جاں ہے وہ بے آرام ہو جائے
غمِ دل ہے مگر آخر غمِ دل کیا کہے کوئی
فسانہ مختصر ہو کر جب ان کا نام ہو جائے
محبت ہو چکی، اور ماتمِ انجام باقی ہے
وہ آنکھیں اشک بھر لائیں تو اپنا کام ہو جائے

چاند لطف دیتا ہے چاندنی کے ہالے میں

چاند لطف دیتا ہے چاندنی کے ہالے میں
حسن پھوٹ پڑتا ہے رات کے اجالے میں
اک نظر جہاں ڈالی کیف سے بھر آیا دل
مے فروش فطرت نے مے بھری ہے پیالے میں
شور سن کے آیا ہوں باغ میں پپیہے کا
کیا کشش ہے آفت کی پی کہاں کی نالے میں

مشترک درد کے رشتوں میں وفا ہے بھی کہاں

مشترک درد کے رشتوں میں وفا ہے بھی کہاں
تم جسے ڈھونڈ رہے ہو بخدا ہے بھی کہاں
یا اخی" کہہ کے بھلا کون پکارے گا تمہیں"
دل کی دھڑکن کے سوا کوہِ ندا ہے بھی کہاں
کیسے اب اپنے خد و خال کو پہچانو گے
دل کے آئینہ میں پہلی سی جِلا ہے بھی کہاں

کیا ضروری ہے کوئی بے سبب آزار بھی ہو

کیا ضروری ہے کوئی بے سبب آزار بھی ہو
سنگ اپنے لیے شیشہ کا طلبگار بھی ہو
دلبری، حسن کا شیوہ ہے مگر کیا کیجئے
اب یہ لازم تو نہیں حسن وفادار بھی ہو
زخمِ جاں وقت کے کانٹوں سے بھی سِل سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ریشم کا کوئی تار بھی ہو

یہ کیسے دور کا سقراط بن کے جینا تھا

یہ کیسے دور کا سقراط بن کے جینا تھا
بجائے زہر، مجھے گالیوں کو پینا تھا
وہاں تھی تندئ صہبا، یہاں شکستِ وجود
یہ سنگِ صبح ہے، وہ شب کا آبگینہ تھا
چھپی تھی موج کی بانہوں میں روحِ تشنہ لبی
چمکتی ریت میں ڈوبا ہوا سفینہ تھا

کوئی نگاہ و دل کا خریدار ہی نہ تھا

کوئی نگاہ و دل کا خریدار ہی نہ تھا
ہم نے دکاں سجائی تو بازار ہی نہ تھا
لے دے کے ایک وصل کی خیرات مانگ لی
جیسے کچھ اور شوق کو آزار ہی نہ تھا
نایاب تھے گہر ہی کی مانند خِشت و سنگ
یا اس نگر میں کوئی گنہ گار ہی نہ تھا 

رہنے دے تکلیف توجہ دل کو ہے آرام بہت

رہنے دے تکلیفِ توجہ دل کو ہے آرام بہت
ہجر میں تیری یاد بہت ہے غم میں تیرا نام بہت
بات کہاں ان آنکھوں جیسی، پھول بہت ہیں، جام بہت
اوروں کو سرشار بنائیں، خود ہیں تشنہ کام بہت
کچھ تو بتاؤ فرزانو! دیوانوں پر کیا گزری
زہرِ تمنا کی گلیوں میں برپا ہے کہرام بہت

حسن سے آنکھ لڑی ہو جیسے

حسن سے آنکھ لڑی ہو جیسے 
زندگی چونک پڑی ہو جیسے
ہائے یہ لمحہ تِری یاد کے ساتھ 
کوئی رحمت کی گھڑی ہو جیسے
راہ روکے ہوئے اک مدت سے 
کوئی دوشیزہ کھڑی ہو جیسے

نہ کوئی موج بلا بلا ہوں نہ تیز دھارا ہوں

نہ کوئی موجِ بلا بلا ہوں، نہ تیز دھارا ہوں
میں اپنے آپ میں ڈوبا ہوا کنارا ہوں
اسی محاذ پہ مجھ کو شکست ہوتی ہے
میں جب بھی ہارا ہوں اپنی انا سے ہارا ہوں
لپٹ رہی ہیں یہ بیلیں جو میری شاخوں سے
انہیں یہ کیسے بتاؤں میں بے سہارا ہوں

اگر یوں آئینے کے رو برو ہونا پڑے تجھ کو

اگر یوں آئینے کے رو برو ہونا پڑے تجھ کو
کہ خد و خال اپنے دیکھ کر رونا پڑے تجھ کو
وہ جن کا لمس پا کر آرزوئیں جاگ اٹھتی ہیں
انہیں بیدار لمحوں میں اگر سونا پڑے تجھ کو
تِری ہر بات پر ہنسنے کی عادت چھوٹ جائے گی
اگر اک بار بھی میری طرح رونا پڑے تجھ کو

اتنا تو یاد ہے کہ تہ آب لے گیا

اتنا تو یاد ہے کہ تہِ آب لے گیا
مجھ کو نہ جانے پھر کہاں گرداب لے گیا
پہلے تو میری آنکھ سے اس نے چرائی نیند
پھر حوصلے بڑھے تو مِرے خواب لے گیا
خود تو چلا گیا وہ سحر کی تلاش میں
آنکھوں سے میری منظر شب تاب لے گیا

سزائیں جتنی ملی ہیں اس ایک بھول کی ہیں

سزائیں جتنی ملی ہیں اس ایک بھول کی ہیں
کہ ہم نے زندگی شرطیں تِری قبول کی ہیں
سوال ہم نے کیا جب کبھی محبت کا
تو دوستوں نے بڑی قیمتیں وصول کی ہیں
میں اپنے چہرے کی رنگت کو کب کا بھول چکا
بڑی نوازشیں مجھ پر سفر کی دھول کی ہیں

Monday 28 September 2015

شہر جسے سمجھے تھے کل تک، جنگل ہے انسانوں کا

شہر جسے سمجھے تھے کل تک، جنگل ہے انسانوں کا
گلی گلی میں اب ہوتا ہے ناچ یہاں شیطانوں کا
ہم تو دل کے کعبے میں کرتے ہیں نمازِ عشق ادا
ہم سے نہ پوچھو حال میاں! دنیا کے عبادت خانوں کا
وہ تو اپنے دل کی آگ میں جلتے جلتے راکھ ہوئی
شمع کو اتنا ہوش کہاں، کیا حال ہوا پروانوں کا

زندگی بھر ایک کار بے سبب کرتے رہے

زندگی بھر ایک کارِ بے سبب کرتے رہے
تیری حسرت، تیرا غم، تیری طلب کرتے رہے
جانتے تھے وہ نہ آیا ہے، نہ آئے گا کبھی
جستجو لیکن اسی کی روز و شب کرتے رہے
ہجر کے موسم کو یادوں سے سجائے دور تک
زندگی کا ہم سفر تیرے سبب کرتے رہے

جنوں کریں ہوس ننگ و نام کے نہ رہیں

جنوں کریں ہوسِ ننگ و نام کے نہ رہیں
مگر نہ یوں ہو کہ ہم اپنے کام کے نہ رہیں
زیاں ہے اس کی رفاقت کہ اس کے دوش بدوش
چلیں تو منظرِ حسنِ خرام کے نہ رہیں
کہاں ہے وصل سے بڑھ کر کوئی عطا لیکن
یہ خوب ہے کہ پیام و سلام کے نہ رہیں

تیرا زیاں رہا ہوں میں اپنا زیاں رہوں گا میں

تیرا زیاں رہا ہوں میں، اپنا زیاں رہوں گا میں
تلخ ہے میری زندگی، تلخ زباں رہوں گا میں
تیرے حضور تجھ سے دُور، جلتی رہے گی زندگی
شعلہ بجاں رہا ہوں میں، شعلہ بجاں رہوں گا میں
تجھ کو تباہ کر گئے تیری وفا کے ولولے
یہ مِرا غم ہے میرا غم، اس میں تپاں رہوں گا میں

ہیں عجیب رنگ کی داستاں گئی پل کا تو گئی پل کا میں

ہیں عجیب رنگ کی داستاں، گئی پَل کا تُو، گئی پَل کا میں
سو ہیں اب کہاں، مگر اب کہاں، گئی پل کا تُو، گئی پل کا میں
نہ یقیں ہیں اب نہ گماں ہیں اب، سو کہاں تھے جب سو کہاں ہیں اب
وہ یقیں یقیں، وہ گماں گماں، گئی پل کا تُو، گئی پل کا میں
مِری جان وہ پل جو گئی نکل، کوئی پل تھی وہ کہ ازل، ازل
سو گزشتگی میں ہیں بے کراں، گئی پل کا تُو، گئی پل کا میں

منظر سا تھا کوئی کہ نظر اس میں گم ہوئی

منظر سا تھا کوئی کہ نظر اس میں گم ہوئی
سمجھو کہ خواب تھا کہ سحر اس میں گم ہوئی
سودائے رنگ وہ تھا کہ اترا خود اپنا رنگ
پھر یہ کہ ساری جنسِ ہنر اس میں گم ہوئی
وہ میرا اک گمان کہ منزل تھا جس کا نام
ساری متاعِ شوقِ سفر اس میں گم ہوئی 

کیوں اے غم فراق یہ کیا بات ہو گئی

کیوں اے غمِ فراق یہ کیا بات ہو گئی
ہم انتظارِ صبح میں تھے رات ہو گئی
بہکے ہوئے بھٹکتے ہوئے کارواں کی خیر
رہبر سے راہزن سے ملاقات ہو گئی
دیوانگی کی خیر نہ مانگیں تو کیا کریں
دیوانگی ہی رازِ عنایات ہو گئی

اب تک شریک محفل اغیار کون ہے

اب تک شریکِ محفل اغیار کون ہے
ہم بے وفا ہوئے تو خطاکار کون ہے
یاں سب کو مِل گئے ہیں سہارے بقدرِ شوق
تم سوچتے رہے کہ طلب گار کون ہے
نظروں نے کس کی چاک کیے پردہ ہائے رنگ
سنولا دیا ہے جس نے رُخِ یار کون ہے

یہ کیا ستم ہے کوئی رنگ و بو نہ پہچانے

یہ کیا سِتم ہے کوئی رنگ و بُو نہ پہچانے
بہار میں بھی رہے بند تیرے مے خانے
فنا کے زمزمے رنج و محن کے افسانے
یہی مِلے ہیں نئی زندگی کو نذرانے
تِری نگاہ کی جُنبش میں اب بھی شامل ہیں
مِری حیات کے کچھ مختصر سے افسانے

عمر ساری غم دنیا میں بسر ہوتی ہے

عمر ساری غمِ دنیا میں بسر ہوتی ہے
تب کہیں جا کے تِرے غم کی سحر ہوتی ہے
چاہتے ہم تو تِرا نام بھی لے سکتے تھے
یہ خلش آج بہ اندازِ دِگر ہوتی ہے
جس کو انساں کی محبت کا سہارا مل جائے
وہ زمیں سجدہ گہِ شمس و قمر ہوتی ہے

پردے کو لو دے وہ جھلک اور ہی کچھ ہے

پردے کو لَو دے وہ جھلک اور ہی کچھ ہے
نادیدہ ہے شعلہ تو لپک اور ہی کچھ ہے
ٹکراتے ہوئے جام بھی دیتے ہیں کھنک سی
لڑتی ہیں نگاہیں تو کھنک اور ہی کچھ ہے
ہاں جوشِ جوانی بھی ہے اک خلدِ نظارہ
اک طفل کی معصوم ہمک اور ہی کچھ ہے

جو شب سیاہ سے ڈر گئے کسی شام ہی میں بھٹک گئے

جو شبِ سیاہ سے ڈر گئے کسی شام ہی میں بھٹک گئے
وہی تاجدارِ سحر بنے جو سیاہیوں میں چمک گئے
نہ بنایا منہ کسی جام پر، نہ لگایا دل کسی جام سے
جو لبوں تک آئے وہ پی لیے جو چھلک گئے وہ چھلک گئے
تجھے کچھ خبر بھی ہے محتسب! اسی بزم میں تِرے سامنے
لڑِیں دور ہی سے نگاہیں وہ، کبھی یوں بھی جام کھنک گئے

Sunday 27 September 2015

غم کا صحرا نہ ملا درد کا دریا نہ ملا

غم کا صحرا نہ ملا، درد کا دریا نہ مِلا
ہم نے مرنا بھی جو چاہا تو وسِیلہ نہ مِلا
مدتوں بعد جو آئینے میں جھانکا ہم نے
اتنے چہرے تھے وہاں اپنا ہی چہرہ نہ مِلا
تشنہ لب یوں تو زمانے میں کبھی ہم نہ رہے
پیاس جو دل کی بجھا دیتا وہ دریا نہ مِلا

غم ہمیں دے کہ شادمانی دے

غم ہمیں دے کہ شادمانی دے
کوئی سوغات غیر فانی دے
ہو چکا امتحانِ ضبطِ دل
اب اسے اذنِ خوں فشانی دے
اے خداوندِ آب و آتش و گِل
نقشِ کہنہ کو پھر جوانی دے

یہ اخلاص گراں مایہ بہت ہے

یہ اخلاصِ گراں مایا بہت ہے
تم آئے، دل کو چین آیا بہت ہے
غمِ دل کو بہت راس آئے ہیں ہم
غمِ دل ہم کو راس آیا بہت ہے
فریبِ دشمناں ہم کھائیں گے کیا
فریبِ دوستاں کھایا بہت ہے

مے نوشی کی ترغیبیں بھی ہوش کے جھوٹے حیلے ہیں

مے نوشی کی ترغیبیں بھی ہوش کے جھوٹے حیلے ہیں
جن نینوں میں امرت ہے، وہ نین بڑے شرمیلے ہیں
اے گلچیں! ان کلیوں کو کچھ نشو و نما تو پانے دے
ان کلیوں کے نازک نازک انگ بڑے لچکیلے ہیں
صر صرِ دوراں مے خانے میں رنگ نہ تیرا اڑ جائے
اس گلشن میں کھِلنے والے پھول بڑے چمکیلے ہیں

بیوفا چاند ستاروں نے نہ پوچھا ہم کو

بے وفا چاند ستاروں نے نہ پوچھا ہم کو
اتنے خودسر تھے نگاروں نے نہ پوچھا ہم کو
وقت تکلیف کا اے دوست جب آیا درپیش
غیر تو غیر ہیں یاروں نے نہ پوچھا ہم کو
جانے کیا بات تھی تکتے رہے خاموشی
ڈوبنے وقت کناروں نے نہ پوچھا ہم کو

تمام عمر قفس آشنا رہا ہوں میں

تمام عمر قفس آشنا رہا ہوں میں
مجھے سنو کہ بہت دکھ بھری صدا ہوں میں
جدھر نگاہ اٹھے اس طرف ہے ویرانی
رہِ وفا میں اکیلا ہی رہ گیا ہوں میں
مِرے وجود میں کب دخل تیرگی کو ہے
شبِ فراق کا جلتا ہوا دِیا ہوں میں

چمن چمن خال و خط کی رنگت جھلس گئی ہے

چمن چمن خال و خط کی رنگت جھلس گئی ہے
گھٹا امنڈتے ہوئے سمندروں پہ برس گئی ہے
حصارِ زنداں میں آ گیا ہے ٹھٹھرتا موسم
مِرے بدن کو کچھ اور زنجیر کس گئی ہے
دھوئیں کی چادر میں چھپ گیا ہے ہر ایک منظر
سیاہئ شب مکان میں میرے بس گئی ہے

بدن کے خول میں اپنے سحاب سے لے جا

بدن کے خول میں اپنے سحاب سے لے جا
سمندروں کا بھی پانی حساب سے لے جا
شکستگی کے مناظر تجھے ملیں گے کہاں
نظر نظر مِرے خانہ خراب سے لے جا
تِرے سفر کو ہَوا! لوگ کیسے جانیں گے
لہو ببول سے، خوشبو گلاب سے لے جا

کورے کاغذ پہ مرا نقش اتارے کوئی

کورے کاغذ پہ مِرا نقش اتارے کوئی
ایک مبہم سا میں خاکہ ہوں ابھارے کوئی
ناخدا بھی تو مِرے کام یہاں آ نہ سکا
اور پار اترا ہے لہروں کے سہارے کوئی
ایک مدت سے خموشی ہی خموشی ہے وہاں
چپ کے صحرا میں مِرا نام پکارے کوئی

Saturday 26 September 2015

عشق صادق ہی تو معیار طلب کرتا ہے

عشقِ صادق ہی تو معیار طلب کرتا ہے
یہ سکوں بانٹ کے آزار طلب کرتا ہے
جس کی گرمی سے مہک اٹھتا ہے پندارِ وفا
شعلۂ عشق، وہ دلدار طلب کرتا ہے
اک جہاں، وہ بھی مکمل سا، مِلے ہے کس کو
قلبِ معصوم تو بے کار طلب کرتا ہے

جذبہ چھپا تھا یوں بھی خریدار میں بہت

جذبہ چھپا تھا یوں بھی خریدار میں بہت
چرچا رہا تھا حُسن کا بازار میں بہت
ان سے نظر مِلی تو خِرد دَم بخود ہوئی
یوں تو یگانہ ہم بھی تھے گُفتار میں بہت
قیمت تو کیا، نگاہِ خریدار تک نہیں
ہیں خواب یُوں تو کُوچہ و بازار میں بہت

خیال و خواب کو پابند خوئے یار رکھا

خیال و خواب کو پابندِ خوئے یار رکھا
سو دل کو دل کی جگہ ہم نے بار بار رکھا
اسے بھی میں نے بہت خود پہ اختیار دِیے
اور اس طرح کہ بہت خود پہ اختیار رکھا
دکھوں کا کیا ہے مجھے فکر ہے کہ اس نے کیوں
بچھڑتے وقت بھی لہجے کو خوشگوار رکھا

چراغ راہگزر ہے جلا رہے گا وہ

چراغِ راہ گزر ہے جلا رہے گا وہ
مگر ہوا کے لیے مسئلہ رہے گا وہ
کہاں ہے ہجر میں رہنے کا تجربہ اس کو
تمام عمر دعا مانگتا رہے رہے گا وہ
جگہ بدلنے سے ہیئت کہاں بدلتی ہے
جو آئینہ ہے، سدا آئینہ رہے گا وہ

Friday 25 September 2015

دوستوں کو ذرا اپنا غم میری جاں تم دکھاتے نہیں

دوستوں کو ذرا اپنا غم میری جاں تم دکھاتے نہیں
گیت گاتے نہیں، رقص کرتے نہیں مسکراتے نہیں
صحنِ جاں کو بناتے ہو تم آج شب، اپنی محفلِ طرب
تو کبھی یہ بھی سوچا ستاروں سے آنکھیں چُراتے نہیں
اپنی محفل میں سب کو بُلاتے بھی ہو، پھر اُٹھاتے بھی ہو
یہ بتاؤ، ہمیں کیوں بُلاتے نہیں، پھر اُٹھاتے نہیں

شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا

شام عجیب شام تھی، جس میں کوئی افق نہ تھا
پھول بھی کیسے پھول تھے جن کو سخن کا حق نہ تھا
یارعجیب یار تھا جس کے ہزار نام تھے
شہر عجیب شہر تھا جس میں کوئی طبق نہ تھا
ہاتھ میں سب کے جِلد تھی، جس کے عجیب رنگ تھے
جس پہ عجیب نام تھے، اور کوئی ورق نہ تھا

شیخ کے گھر کے سامنے آب حرام ڈال دوں

شیخ کے گھر کے سامنے آبِ حرام ڈال دوں
جام و سُبو کی آگ میں اپنا کلام ڈال دوں
شہر کے اس ہجوم میں جینے کا حوصلہ رکھوں
اپنے جنوں کی آگ میں شہر کی شام ڈال دوں
صبح سے کچھ عجیب غم دشت میں ہیں ہمارے ساتھ
ان کے سروں پہ میں ذرا چادرِ شام ڈال دوں

فضا میں شعلے تھے ایسے چنگھاڑ ایسی تھی

فضا میں شعلے تھے ایسے چنگھاڑ ایسی تھی
جو رات آئی تھی ہم پر، پہاڑ ایسی تھی
مسافروں کو نظر آ رہی تھی ہجر کی رات
کہ زلزلوں سے زمیں پر دراڑ ایسی تھی
کبھی کھُلا تو کبھی بند ہو گیا اے دوست
کہ اس مکان کی قسمت کِواڑ ایسی تھی

دل وہ کافر کہ سدا عیش کا ساماں مانگے

دل وہ کافر کہ سدا عیش کا ساماں مانگے
زخم پا جائے تو کم بخت نمک داں مانگے
لطف آئے، جو کوئی سوختہ سامانِ بہار
خالق رنگ سے پھر شعلۂ عریاں مانگے
حسرتِ دید، سرِ بام تماشا چاہے
عشقِ بے تاب سرِ طُور چراغاں مانگے

قصور عشق میں ظاہر ہے سب ہمارا تھا

قصور عشق میں ظاہر ہے سب ہمارا تھا
تری نگاہ نے دل کو مگر پکارا تھا
وہ بھی کیا تھے کہ ہر بات میں اشارا تھا
دلوں کا راز نگاہوں سے آشکارا تھا
ہوائے شوق نے رنگِ حیا نکھارا تھا
چمن چمن لب و رخسار کا نظارا تھا

ترے قریب ترے آستاں سے دور رہے

ترے قریب ترے آستاں سے دور رہے
وہیں خیال رہا ہم جہاں سے دور رہے
قریب آئے تو خود جانِ اعتبار بھی تھے
وہی جو مدتوں وہم و گماں سے دور رہے
کسے یہ فکر، کہ انجامِ عشق کیا ہو گا
کسے یہ ہوش کہ راہِ زیاں سے دور رہے

چمن میں کس نے کسی بے نوا کا ساتھ دیا

چمن میں کس نے کسی بے نوا کا ساتھ دیا
وہ بُوئے گُل تھی کہ جس نے صبا کا ساتھ دیا
دیا جو ساتھ تو پھر کس بلا کا ساتھ دیا
شکستِ غم نے ہر اک مُدعا کا ساتھ دیا
فروغِ بادہ نے رنگِ حیا کا ساتھ دیا 
غرض اسی بُتِ کافر ادا کا ساتھ دیا

جو غم حبیب سے دور تھے وہ خود اپنی آگ میں جل گئے

جو غمِ حبیب سے دور تھے وہ خود اپنی آگ میں جل گئے
جو غمِ حبیب کو پا گئے وہ غموں سے ہنس کے نکل گئے
جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے
وہ نظر نظر سے گلے ملی تو بجھے چراغ بھی جل گئے
یہ شکستِ دید کی کروٹیں بھی بڑی لطیف و جمیل تھیں
میں نظر جھکا کے تڑپ گیا وہ نظر بچا کے نکل گئے

عشق بول اٹھتا ہے اظہار وفا سے پہلے

عشق بول اٹھتا ہے اظہارِ وفا سے پہلے
دل دھڑکتا ہے نگاہوں کی صدا سے پہلے
یہ پشیماں سی نظر، یہ عرق آلود جبیں
تم نہ تھے اتنے حسِیں ترکِ وفا سے پہلے
سوچتے ہیں اسے کس نام سے منسوب کریں
رنگ آتا ہے جو اس رخ پہ حیا سے پہلے

سزا یہی ہے کہ ان تک نہ کوئی جام آئے

سزا یہی ہے کہ ان تک نہ کوئی جام آئے
جو مے کدے میں گئے اور تشنہ کام آئے
خیالِ نکہتِ گیسو میں کچھ خبر نہ ہوئی
سنا ہے بادِ صبا کے بہت سلام آئے
فسانہ جب کبھی پامالئ چمن کا چھِڑا
زبانِ گُل پہ خود اہلِ چمن کے نام آئے

سرد ہے عشق کا بازار اب کے

سرد ہے عشق کا بازار اب کے
ہیں تہی دست خریدار اب کے
کٹ کے شاخوں سے گرے برگ و ثمر
فصلِ گُل ہو گئی تلوار اب کے
ہر گھڑی ایک ہی صورت کا جنوں
ہم نہیں دل کے طرفدار اب کے

Thursday 24 September 2015

ماتا ناتا؛ مرنے پر بھی ٹوٹ نہ پائے اس کا ایسا ناتا

ماتا ناتا

مرنے پر بھی ٹُوٹ نہ پائے اس کا ایسا ناتا
دھرتی اوپر سب سے اونچی پرتو اپنی ماتا
ماتا پیار کا ساگر پرتو، ماتا جوت منار
ماتا سُکھ کی پھُلواری ہے، ماتا جِیو سنوار
ماتا سُکھ کی نِیند ہے پرتوؔ، ماتا چَین کی چھاؤں
دَھرتی اوپر اِیشور ہے وہ ماتا جس کا ناؤں

آن مان؛ اپنے کنویں کا پانی پئیں ہم اپنے گھاٹ نہائیں

آن مان

اپنے کنویں کا پانی پئیں ہم اپنے گھاٹ نہائیں
اپنا جُوٹھا دُوجے کو دیں، ناں دُوجے کا کھائیں
دُوجے کے دَھن دولت اوپر رِیجھے اور للچائے
مجھ سے جوگی کا پرتوؔ وہ کیسے مِیت کہائے
وہ دن میں ناں دیکھوں اس دن مجھ کو رام اٹھا لے
میرے گھر کے کتے کو ہمسایہ روٹی ڈالے

کامنا کنڈ؛ سوچوں ہوں یہ اکتا کر جب جگ سے جی گھبرائے

کامنا کُنڈ

سوچوں ہوں یہ اُکتا کر جب جگ سے جی گھبرائے
برگد کے اِک پیڑ تلے جا بیٹھوں دھونی رمائے
بستی بستی نگری نگری گاؤُں سُرِیلے بول
پریم کی بھِکشا مانگوں لے کر مَن کا اک کشکول
کپڑے پھاڑ اُتاروں سارے تَن پہ مَل بھبھُوت
جنگل میں جا بیٹھوں جگ کا تَج کے چھُوت اچھُوت

بھولی ڈگریا؛ کس بستی میں گھر تھا میرا لوگو کیا بتلاؤں

بھولی ڈگریا

کس بستی میں گھر تھا میرا لوگو! کیا بتلاؤں
میں پرتوؔ وہ بھولا بالک بھُولا اپنا ناؤں
کس بستی سے آیا لوگو! کون سے بستی جاؤں
میں پرتوؔ وہ پردیسی بھُولا اپنا گاؤں
تِھل ٹِیلوں میں کب تک گھُوموں جَپتا تیرا ناؤں
کون سا رَستہ او، البیلی! پہونچے تیرے گاؤں

اکلاپے کی زہری ناگن جیون کو یوں چاٹے

اکلاپے کی زہری ناگن

اکلاپے کی زہری ناگن جیون کو یوں چاٹے
جیسے لہر ندی کی دِھیرے دِھیرے کنارا کاٹے
جِیون گھوڑا بھرتا جائے ہر ہر پَل فراٹے
اکلاپے کی دِیمک من کو دِھیرے دِھیرے چاٹے
کس کا ہاتھ پکڑ کر نکلوں، کیسے باہر آؤں
اکلاپے کی دلدل اندر رہ رہ دھنستا جاؤں

یادوں کا پچھیاؤ؛ آج چلا پھر لوگو ایسا یادوں کا پچھیاؤ

یادوں کا پچھیاؤ

آج چلا پھر لوگو! ایسا، یادوں کا پچھیاؤ
جی چاہے ہے آنکھیں موندے ٹھور یہیں مر جاؤ
بِسری یاد کے آنگن میں یوں گھومے تیری پرِیت
رات کو جیسے جنگل میں کوئی گائے رسِیلا گِیت
ایسی یاد آئے ہے سکھیو! بھولی بِسری جوانی
جیسے ہری ہو پُروائی میں کوئی چوٹ پرانی

سمے کی چال؛ کوئی چڑھے کوٹھے کے اوپر کوئی گرے پاتال

سمے کی چال

کوئی چڑھے کوٹھے کے اوپر کوئی گرے پاتال
ہم سے جنم کے پگلے بیٹھے دیکھیں سمے کی چال
میں سوچوں ہوں جب کھلتا ہے تاروں کا یہ کھیت
پگلے تیرے اپنے منہ پر کتنی سمے کی ریت
گونجے سمے کا سناٹا اور گہری ہووے رات
بھولی بسری یادوں کی پھر باجت ہے بارات

میری سمجھ میں مانس کی اے سیانو! بات نہ آئے

مانس

میری سمجھ میں مانس کی اے سیانو! بات نہ آئے
اپنے آپ کو دھوکے دیوے پھر مُورکھ پچھتائے
بوڑھے مارے ناری مو سے، بچوں کا ہتیائے
نام رکھاوے دین محمد، دیکھو تو انیائے
کتا اپنا بھونکنا بھولے بکری شیر ڈرائے
مانس کی ہنکار نہ جائے، مانس مر مر جائے

Wednesday 23 September 2015

بڑی دانائی سے اندازِ عیاری بدلتے ہیں

بڑی دانائی سے اندازِ عیاری بدلتے ہیں
بدلتے موسموں میں جو وفاداری بدلتے ہیں 
گرانی ہو کہ ارزانی انہیں تو مل ہی جاتے ہیں
ضرورت جب بھی ہوتی ہے وہ درباری بدلتے ہیں
ضرورت ایسے اہلِ دل کی ہے اب میرے لوگوں کو
جو ترتیبِ رموزِ زندگی ساری بدلتے ہیں

سچ کہنا بہرطور مگر دھیان میں رکھنا

سچ کہنا بہرطور مگر دھیان میں رکھنا
سر اپنا اسی جرم کے تاوان میں رکھنا
یہ کیا کہ تمنائے سحر اپنے لئے ہو
اور سارے قبیلے ہی کو بحران میں رکھنا
جو لفظ محبت تمہیں ورثے میں ملا ہے
وہ اپنے لہو، اپنے دل و جان میں رکھنا

کھل گئی سارے زمانے پر فسوں کاری تری

کھل گئی سارے زمانے پر فسوں کاری تری
ہو گئے بد ظن جو کرتے تھے طرف داری تری
جن کے کاشانے ہیں روشن، جن کی قسمت ہے سحر
ان گھرانوں پر مسلسل ہے ضیا باری تری
اے سراپا مصلحت! عقدہ کھلا یہ آخرش
کس قدر بے روح تھی ساری اداکاری تری

پرانے مصلحت بینوں میں آخر گھر گیا تو بھی

پرانے مصلحت بِینوں میں آخر گھِر گیا تُو بھی
جو حربے آزمودہ ہیں وہی پھر آزما تُو بھی
یہ میرے ہمسفر تاریخ کو دہرا بھی لیتے ہیں
مری وحشت پہ ہنستا تھا، تماشا بن گیا تُو بھی
تجھے بھی زعم تھا خود پر، انا میری بھی خودسر تھی
پریشاں ہو گیا میں بھی، اکیلا رہ گیا تُو بھی

تشکیک کے جہاں سے گزر جانا چاہئے

تشکیک کے جہاں سے گُزر جانا چاہیے
اس پر یقیں نہ ہو تو مُکر جانا چاہیے
سوچیں تھکی ہوئی ہیں کڑی دھوپ سر پہ ہے
اب کیسے طے کریں کہ کِدھر جانا چاہیے
میری نظر میں ہے یہی معیارِ نقدِ فن
سچا ہو فن تو دل میں اُتر جانا چاہیے

بکھرے ہوئے اس شہر میں چہرے بھی بہت تھے

بکھرے ہوئے اس شہر میں چہرے بھی بہت تھے
اظہار کے انداز پہ پہرے بھی بہت تھے
ہم بے سر و سامان تھے جاتے تو کدھر کو
دریا جو تھے اطراف میں گہرے بھی بہت تھے 
ہم سے بھی رہ و رسم نبھاتا رہا، لیکن
اس چہرۂ شب تاب کے چہرے بھی بہت تھے

رستے میں شام ہو چکی قصہ تمام ہو چکا

رستے میں شام ہو چکی قصہ تمام ہو چکا
جو کچھ بھی تھا اے زندگی وہ تیرے نام ہو چکا
کب کا گزر گئی وہ شب جس میں کسی کا نور تھا
کب کی گلی میں دھوپ ہے، جینا حرام ہو چکا
پھرتے رہیں نگر نگرم کوچہ بہ کوچہ در بہ در
اپنے خیال جل چکے، اپنا سلام ہو چکا

ہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر

ہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر
سو ہم نے رنج اٹھائے حساب سے باہر
اسی امید پہ گزری ہے زندگی ساری
کبھی تو ہم سے ملو گے حجاب سے باہر
تمہاری یاد نکلتی نہیں مِرے دل سے
نشہ چھلکتا نہیں ہے شراب سے باہر

تمہارے بعد جو بکھرے تو کو بہ کو ہوئے ہم

تمہارے بعد جو بکھرے تو کُو بہ کُو ہوئے ہم
پھر اس کے بعد کہیں اپنے رُوبرُو ہوئے ہم
تمام عمر ہَوا کی طرح گزاری ہے
اگر ہوئے بھی کہیں تو کبھُو کبھُو ہوئے ہم
یوں گردِ راہ بنے عشق میں سِمٹ نہ سکے
پھر آسمان ہوئے اور چار سُو ہوئے ہم

خامشی اتنی رہی ہے مجھ میں

خامشی اتنی رہی ہے مجھ میں
گفتگو ڈوب گئی ہے مجھ میں
ایک بس تم ہی نئے آئے ہو
اور سب کچھ تو وہی ہے مجھ میں
دُور تک دنیا نظر آنے لگی
ایسی دیوار گری ہے مجھ میں

چادر تہ کر دی

چادر تہ کر دی

کوئی آگ پیئے کہ زہر پیئے
یا سانپ ڈسے کی موت مرے
اب دھوپ کے جل تھل دریا سے
کوئی اپنے منہ سے ریت بھرے
ہم نے تو پیالہ الٹ دیا

گو اپنے گریبان سدا چاک رہے ہیں

گو اپنے گریبان سدا چاک رہے ہیں
ہم چہرۂ عالم پہ مگر ناک رہے ہیں
سینوں میں لیے بیٹھے ہیں کونین کے اسرار
دیوانے بہت صاحبِ ادراک رہے ہیں
ان کا ہی مقدر یہاں بنتی ہیں صلیبیں
حق گوئی میں جو آدمی بے باک رہے ہیں

اپنے ذہن کا اڑتا پنچھی کس منزل کا راہی ہے

اپنے ذہن کا اڑتا پنچھی کس منزل کا راہی ہے
چاہت، دولت، شہرت یارو سب سامانِ تباہی ہے
دین اور دنیا حد میں رہیں تو اپنی منزل دور نہیں
اور اگر حد سے گزریں تو دونوں میں گمراہی ہے
آنکھیں تو سب دیکھتی ہیں، کس راہ میں کتنے پتھر ہیں
پھر بھی اگر ہم ٹھوکر کھائیں، اپنی خام نگاہی ہے

رہزن ہیں ہر قدم پہ مسافر سنبھل کے چل

رہزن ہیں ہر قدم پہ، مسافر سنبھل کے چل
ہموار ہیں جو آج وہ راہیں بدل کے چل
دنیا کی اس بساط کے مہروں پہ غور کر
چالوں کا تُو بھی اپنے طریقہ بدل کے چل
کتنے ہیں باوفا تِرے احباب دیکھ لے
تُو آج ان کی بزم میں چہرہ بدل کے چل

جیسے مچلتی لہروں کا رخ کوئی کنارا جانے ہے

جیسے مچلتی لہروں کا رخ کوئی کنارا جانے ہے
وہ بھی ہماری آنکھوں کا ہر ایک اشارا جانے ہے
ہم کو سب معلوم ہے اپنی کون جگہ کب جیت ہوئی
یوں تو ہر کوئی دیکھنے والا ہم کو ہارا جانے ہے
چاند کو کیا معلوم ہماری رات کٹی تو کیسے کٹی
لیکن دیر سے چھپنے والا ایک ستارا جانے ہے

درد ایسا دیا احساس نے ہم کو

درد ایسا دیا احساس نے ہم کو
نہ دوا نے ہی شفا دی نہ دعا نے ہم کو
یہ تو صحرا کی ہوائیں ہیں گلہ کیا ان کا
خوب جھلسایا ہے گلشن کی صبا نے ہم کو
سوزِ آفاق کا احساس بھی ہم کو نہ ہوا
اتنا بے ہوش کیا تیری ادا نے ہم کو

صنم کدہ بھی بڑا حسیں ہے حرم حد درجہ دل نشیں ہے

صنم کدہ بھی بڑا حسیں ہے، حرم حد درجہ دل نشیں ہے
مگر جو ملتا ہو ساتھ تیرے، نگار ایسا کہیں نہیں ہے
یہ پھول چننے کا شوق بھی کیا حسین لغزش ہے سادگی کی
ہزار کانٹا حضور دیکھو تو زینتِ جیب و آستیں ہے
لگا کے سینے سے تیری زلفوں کو سو نہ لوں اور چند گھڑیاں
اگرچہ شب پڑ گئی ہے مدھم،، کوئی ستارہ کہیں کہیں ہے

غم حیات ترے نین کیا رسیلے ہیں

غمِ حیات تِرے نین کیا رسِیلے ہیں
حجابِ رنگ میں جلتے ہوئے فتِیلے ہیں
انہیں بھی سینچ ذرا خونِ دل سے اے مالی
یہ خار و خَس بھی اسی باغ کے قبِیلے ہیں
یہیں سے روشنی پڑتی ہے ذاتِ باری پر
یہ مُورتیں تو نہیں تابناک حِیلے ہیں

یار کے شوق ملاقات میں آ بیٹھے ہیں

یار کے شوقِ ملاقات میں آ بیٹھے ہیں
ہم خِرد وَر بھی خرابات میں آ بیٹھے ہیں
ہم سے دیکھی نہ گئی اچھے گھروں کی ذِلّت
قیصر و جَم کے محلات میں آ بیٹھے ہیں
کتنے گُل پوش غزالوں کے رمیدہ جھُرمٹ
میرے صحرائے خیالات میں آ بیٹھے ہیں

بیتے ہوئے دنوں کی کوئی بات چھیڑ دے

بِیتے ہوئے دنوں کی کوئی بات چھیڑ دے
زلفیں بکھیر اور حکایات چھیڑ دے
غم ہائے روزگار کی نِیّت خراب ہے
چُپکے سے اٹھ کے سازِ خرابات چھیڑ دے
ایسی کمند پھینک جو رحمت کو کھینچ لائے
ایسی نگاہ ڈال جو برسات چھیڑ دے

مرا سفینہ مشیت کی بد دعا نکلا

مِرا سفینہ مشیّت کی بد دعا نکلا
کہ ناخدا بھی بُرے وقت میں خدا نکلا
نظر مِلاتے ہوئے ان سے شرم آتی ہے
میں جس کو صِدق سمجھتا تھا مُدعا نکلا
جواب لانا تھا قاصد نے کیا مِرے خط کا
وہ آپ اس کی محبت میں مُبتلا نکلا

جواں ہے وقت کی رو تو بھی نوجواں ہو جا

جواں ہے وقت کی رو تُو بھی نوجواں ہو جا
پیالہ سامنے رکھ اور بے کراں ہو جا
فقیہِ شہر سے ٹکرا نہ جاؤں مستی میں
مِرا خیال ہے ساقی تُو درمیاں ہو جا
کرم کے واسطے تقریب کا بہانہ کِیا
سِتم ظریف کبھی یوں ہی مہرباں ہو جا

Tuesday 22 September 2015

کسی کی چاہ میں ایسا بھی کیا سرشار ہو جانا

کسی کی چاہ میں ایسا بھی کیا سرشار ہو جانا
کہ اپنے راستے کی آپ ہی دیوار ہو جانا
بہانے ترکِ رسم و راہ کے خود ڈھونڈتے رہنا
کسی کو چاہنا اتنا کہ پھر بے زار ہو جانا
سدا خلوت میں اپنے آپ سے باتیں بہت کرنا
اور اس کے سامنے چُپ، صُورتِ دیوار ہو جانا

تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں

تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لیے کریں
تجھ کو نہیں ملال تو ہم کس لیے کریں
دنیا کی بے رُخی تو نہیں ہے کوئی جواز
اس شدتِ خلوص کو کم کس لیے کریں
تا عمر قربتوں کا تو امکان ہی ناں تھا
آنکھیں فراقِ یار کا غم کس لیے کریں

گمانِ بد نہ ہو یوں بدگماں سے کچھ نہ کہا

گمانِ بد نہ ہو یوں بدگماں سے کچھ نہ کہا
گِلے تو لاکھ تھے لیکن زباں سے کچھ نہ کہا
جفائے دوست بھی اک جروِ رازِ الفت ہے
ستم اٹھائے مگر رازداں سے کچھ نہ کہا
وہی بتائے کہ تھی کس کی کارفرمائی
جو گُل نے بلبلِ محوِ فغاں سے کچھ نہ کہا

جی جان کا تھا اس میں زیاں چھوڑ دیا ہے

جی جان کا تھا اس میں زیاں چھوڑ دیا ہے
ہاں چھوڑ دیا، عشقِ بُتاں چھوڑ دیا ہے
ہر چند کہ تھا وِردِ زباں چھوڑ دیا ہے
اب ذکر تیرا دُشمنِ جاں چھوڑ دیا ہے
کیوں میرے نشیمن کا نشاں چھوڑ دیا ہے
کس دن کے لیے برقِ تپاں چھوڑ دیا ہے

انجام محبت اے توبہ آغاز محبت کیا کہیے

انجامِ محبت اے توبہ، آغازِ محبت کیا کہیے
کیوں چھیڑیے دل کے زخموں کو وہ اگلی حکایت کیا کہیے
وہ مہر و مروت کی نظریں، وہ لطف و عنایت کیا کہیے
اظہارِ وفا، اقرارِ وفا، وہ جوشِ رقابت کیا کہیے
چھُوٹے ہوئے ان سے رسمِ وفا گو ایک زمانہ بِیت گیا
خوب روتے ہیں ہم اب بھی اکثر، رنگیئ صحبت کیا کہیے

برہمن و شیخ تو دیر و حرم تک لے گئے

برہمن و شیخ تو دیر و حرم تک لے گئے
ہم دلِ پُرشوق کو بیت الصنم تک لے گئے
اب اسے دیوانہ پن کہیے کہ حُسنِ اعتقاد
بارہا اپنی جبیں نقشِ قدم تک لے گئے
کی تو ہے اتنی جسارت دیکھیں کیا انجام ہو
یعنی حرفِ مُدعا، نوکِ قلم تک لے گئے

کیسے روکیں اس مے الفت کے مستانے کو ہم

کیسے روکیں اس مے الفت کے مستانے کو ہم
ناصحا! سمجھائیں کیونکر دل سے دیوانے کو ہم
ہوش مندی رکھ لیا دیوانگی کا اپنی نام
توبہ توبہ لائیں کیا خاطر میں فرزانے کو ہم
بھول کر وہ حُور وَش دم بھر کو آ جائے اگر
غیرتِ فردوس سمجھیں اپنے غم خانے کو ہم

نہ پوچھ اے ہم نشیں جان حزیں مشکل میں ہوتی ہے

نہ پوچھ اے ہمنشیں! جانِ حزیں مشکل میں ہوتی ہے
بلا ہوتی ہے کوئی یا محبت دل میں ہوتی ہے
تڑپ رکھا گیا ہے نام شاید ربطِ باہم کا
نہ یہ خنجر میں ہوتی ہے، نہ یہ بسمل میں ہوتی ہے
حسینوں سے کہاں تک بے وفائی کا گِلہ کیجے
وفا ناآشنائی ان کے آب و گِل میں ہوتی ہے

Monday 21 September 2015

رائیگانی تو مرے خواب کہاں پھینکتی

رائیگانی تُو مِرے خواب کہاں پھینکتی ہے 
کیا وہیں، خلق جہاں کارِ زیاں پھینکتی ہے 
گھر کا آنگن کوئی مدفن تو بہاروں کا نہیں
خشک پتے یہاں کیوں لا کے خِزاں پھینکتی ہے 
خاک کو خاک بناتی ہے، چلو مان لیا
موت لیکن لب و رخسار کہاں پھینکتی ہے

رہتے ہیں بدن دھوپ سے دوچار ہمارے

رہتے ہیں بدن دھوپ سے دوچار ہمارے
کس رخ پہ بنے ہیں در و دیوار ہمارے
تم کو تو قبیلے کی حفاظت پہ رکھا تھا
اور تم کہ بنے بیٹھے ہو سردار ہمارے
اب ان گلی کوچوں کو تو جانے کے نہیں ہم
دل پیچھے پڑا ہے یونہی بے کار ہمارے

جانے کس دیس گئے یار ہمارے سارے

جانے کس دیس گئے یار ہمارے سارے
محو ہوتے ہی نہیں ذہن سے پیارے سارے
آدمی اپنی لکیروں سے الجھ پڑتا ہے
جب پھسل جاتے ہیں مُٹھی سے ستارے سارے
دل کا دریا کوئی شمشان ہے امیدوں کا
بھر گئے جلتی چِتاؤں سے کنارے سارے

جو خاک منتشر اک ساتھ کھیلی ہے زمیں زادے

جو خاکِ منتشر اک ساتھ کھیلی ہے زمیں زادے
وہ پھر اس دشتِ وحشت میں اکیلی ہے زمیں زادے
ہمیں معلوم ہے دو آتشا غم کس کو کہتے ہیں
کہ ہم نے بارشوں میں دھوپ جھیلی ہے زمیں زادے
مرے جاتے تھے جس کے واسطے ہم اک زمانے میں
وہ خواہش اب فقط مٹی کی ڈھیلی ہے زمیں زادے

مت سمجھنا کہ صرف تو ہے یہاں

مت سمجھنا کہ صرف تُو ہے یہاں
ایک سے ایک خُوبرُو ہے یہاں
پُر ہے بازارِ حُسن چہروں سے
جانے کس کس کی آبرُو ہے یہاں
کیسے آباد ہو یہ ویرانہ
وحشتِ کِذب چار سُو ہے یہاں

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا
گئے ہوۓ کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا
ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا
نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگِ ربط بن جائے
وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا

اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا

اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا
آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا
جس گھڑی آیا پلٹ کر اک مِرا بِچھڑا ہوا
عام سے کپڑوں میں تھا وہ پھر بھی شہزادہ لگا
ہر گھڑی تیار ہے دل جان دینے کے لیے
اس نے پوچھا بھی نہیں یہ پھر بھی آمادہ لگا

سورج نئے برس کا مجھے جیسے ڈس گیا

سورج نئے برس کا مجھے جیسے ڈس گیا
تجھ سے ملے ہوئے مجھے یہ بھی برس گیا
بہتی رہی ندی مِرے گھر کے قریب سے
پانی کو دیکھنے کے لئے میں ترس گیا
ملنے کی خواہشیں سبھی دم توڑتی گئیں
دل میں کچھ ایسے خوف بچھڑنے کا بس گیا

ترا ہے کام کماں میں اسے لگانے تک

تِرا ہے کام کماں میں اسے لگانے تک
یہ تیر خود ہی چلا جائے گا نشانے تک
میں شیشہ کیوں نہ بنا، آدمی ہوا کیونکر
مجھے تو عمر لگی ٹوٹ پھوٹ جانے تک
گئے ہوؤں نے پلٹ کر صدا نہ دی مجھ کو
میں کتنی بار گیا غار کے دھانے تک

اسی کا نام لیا جو غزل کہی میں نے

اسی کا نام لیا جو غزل کہی میں نے
تمام عمر نبھائی ہے دوستی میں نے
چراغ ہوں میں اگر بجھ گیا تو کیا غم ہے
کہ جتنی دیر جلا روشنی تو کی میں نے
میں شیر دیکھ کر پنجرے میں خوش نہیں ہوتا
کہاں گنوا دی ہے بچپن کی سادگی میں نے

یہ مری روح میں گونجتا کون ہے

یہ مِری روح میں گونجتا کون ہے
بند گنبد میں مثلِ صدا کون ہے
کون سبزے کی صورت میں پامال ہے
سرو بن کر چمن میں کھڑا کون ہے
کس سے چھپ چھپ کے ملنے کو جاتی ہے تُو
جنگلوں میں، بتا اے صبا! کون ہے

کل میں انہی رستوں سے گزرا تو بہت رویا

کل میں انہی رستوں سے گزرا تو بہت رویا
سوچی ہوئی باتوں کو سوچا تو بہت رویا
دل میرا ہر اک شے کو آئینہ سمجھتا ہے
ڈھلتے ہوئے سورج کو دیکھا تو بہت رویا
جو شخص نہ رویا تھا تپتی ہو راہوں میں
دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا

وہ دیکھ کر نہ رکا اور گزر گئے ہم بھی

وہ دیکھ کر نہ رکا اور گزر گئے ہم بھی
دعائے شب کی طرح بے اثر گئے ہم بھی
سماعتوں کے جزیرے تلک رسائی نہ تھی
وہ بے خبر ہی رہا، بے ثمر گئے ہم بھی
یہی کہیں گے کہ اک خوف تھا بلندی کا
کسی کے بامِ نظر سے اتر گئے ہم بھی

فضا میں سرد ہوا کا خرام پہلے کا ہے

فضا میں سرد ہوا کا خرام پہلے کا ہے
جدائی آج ہوئی، اہتمام پہلے کا ہے
تمہارے گھر کوئی آیا، یہ بات بعد کی ہے
شجر پہ لکھا ہوا میرا نام پہلے کا ہے
یہ خط بہار کا موسم گزار آیا ہے
تمہارا بھیجا ہوا اک سلام پہلے کا ہے

پھر سے پانی چڑھ گیا موجیں پلوں تک آ گئیں

پھر سے پانی چڑھ گیا، موجیں پلوں تک آ گئیں
اور گہرائی کی چیزیں ساحلوں تک آ گئیں
لوگ کہتے ہیں کنواں پیاسے تلک آتا نہیں
لیکن اس کی رحمتیں ہم سائلوں تک آ گئیں
کیوں وباؤں کی طرح پھیلیں ہماری رنجشیں
جو زبانوں سے چلی تھیں اور دلوں تک آ گئیں

حاصل نہیں فنکار کو توقیر ابھی تک

حاصل نہیں فنکار کو توقیر ابھی تک 
ہر پردے میں عریاں رہی تصویر ابھی تک
یہ کیسے مذاہب ہیں کہ لوگوں کے دلوں کو
نفرت ہی سے کرتے ہیں جو تسخیر ابھی تک
ہم اب بھی لڑے جاتے ہیں اجداد کی جنگیں
اس زہر کا ملتا نہیں اکسیر ابھی تک 

ہم پھر سے فریب کھائیں گے کیا

ہم پھر سے فریب کھائیں گے کیا
بہروپیئے لوٹ آئیں گے کیا
تلوار کی فصل اُگ رہی ہے
گندم کی جگہ پکائیں گے کیا
کاندھا ہی نہیں بدلنے دیتے
ہم گور میں ساتھ جائیں گے کیا

ابر کی دعائیں کیں اور عتاب آ گئے

ابر کی دعائیں کیں اور عتاب آ گئے
شہر کے سبھی مکاں زیرِ آب آ گئے
بے حسی کی گود میں پڑ کے لوگ سو گئے
کہر کے فریب میں آفتاب آ گئے
اہلِ علم بِک گئے جاہلوں کے ہاتھ میں
پوچھنے سے پیشتر سب جواب آ گئے

وہ جو سنتا ہی نہیں اس کو سناتا کیا ہے

وہ جو سنتا ہی نہیں اس کو سناتا کیا ہے
آسمانوں کی طرف ہاتھ اٹھاتا کیا ہے
اشک پینے سے کبھی آگ نہ سینے کی بجھی
روح کی تشنگی پانی سے مٹاتا کیا ہے
راستہ بھول کے سب کھو گئے تاریکی میں
گھر کی دیوار پہ اب دِیپ جلاتا کیا ہے

بچہ اک پہیے کو لے کر بھاگ رہا تھا

بچہ اک پہئیے کو لے کر بھاگ رہا تھا
وقت جھکی دیوار کے اوپر بہا ہوا تھا
ہاتھ باندھ کر میرے سارے عدو کھڑے تھے
لیکن میں اپنی تخریب پہ تُلا ہوا تھا
مَشک بھری ہے میں نے دونوں ہاتھ کٹا کر
سوچوں کے پانی پر پہرہ لگا ہوا تھا

اس کی آنکھوں میں محبت کا گماں تک نہیں آج

اس کی آنکھوں میں محبت کا گماں تک نہیں آج
کون سی آگ تھی کل، جس کا دھواں تک نہیں آج
آہنی راستے اگتے ہیں درختوں کی جگہ
والئ شہر کو احساسِ زیاں تک نہیں آج
ہم ہیں تاریخ کی راہوں کے مسافر، جن کی
یہ نشانی ہے، کہ ایسوں کا نشاں تک نہیں آج

پھر بلا بھیجا ہے پھولوں نے گلستانوں سے

پھر بلا بھیجا ہے پھولوں نے گلستانوں سے
تم بھی آ جاؤ کہ باتیں کریں پیمانوں سے
رُت پلٹ آئے گی اک آپ کے آ جانے سے
کتنے افسانے ہیں، سننے ہیں جو دیوانوں سے
تحفۂ برگ و گل بادِ بہاراں لے کر
قافلے عشق کے نکلے ہیں بیابانوں سے

ایک تھا شخص زمانہ تھا کہ دیوانہ بنا

ایک تھا شخص زمانہ تھا کہ دیوانہ بنا
ایک افسانہ تھا، افسانے سے افسانہ بنا
اک پری چہرہ کہ جس چہرہ سے آئینہ بنا
دل کہ آئینہ در آئینہ پری خانہ بنا
خیمۂ شب میں نکل آتا ہے گاہے گاہے
ایک آہو کبھی اپنا کبھی بے گانہ بنا

دین و دل و جاں عشق میں کیا کیا نہیں جاتا

دین و دل و جاں عشق میں کیا کیا نہیں جاتا
اک درد ہے ظالم نہیں جاتا، نہیں جاتا
خود اپنی اداؤں پہ انہیں آنے لگی شرم
لو، ان سے اب آئینہ بھی دیکھا نہیں جاتا
اس قُرب پہ یہ پردہ ہے، اللہ رے تِری شرم
دل میں ہے مگر آنکھ سے دیکھا نہیں جاتا

مانا کہ نکمے ہیں لیکن ہم سے بھی تم اب پانے کے نہیں

مانا کہ نکمے ہیں لیکن ہم سے بھی تم اب پانے کے نہیں
ملنا ہے تو مل لو ہم وطنو! پھر لوٹ کے ہم آنے کے نہیں
جنت میں مئے کوثر بھی سہی گلشن بھی سہی دلبر بھی سہی
ہر لطف سہی، پھر بھی ساقی! ہمسر تِرے میخانے کے نہیں
ناصح ہمیں سمجھائے گا کیا، کوئی ہمیں بہلائے گا کیا
بہلے تو تمہِیں سے بہلیں گے ہر ایک کے بہلانے کے نہیں

دوران سفر میں ہیں رہرو پایان سفر معلوم نہیں

دورانِ سفر میں ہیں رہرو، پایانِ سفر معلوم نہیں
رہبر کو رخ منزل تو کُجا، خود رہگزر معلوم نہیں
یہ چاند کا رنگیں دھوکا ہے، یا سچ مچ نور کا تڑکا ہے
افسوس ابھی اتنا بھی تمہیں مرغانِ سحر معلوم نہیں
طوفان فضا میں چھا تو گیا، موجوں میں تلاطم آ تو گیا
اب دیکھئے ٹکرا جائے کہاں مڑ جائے کدھر معلوم نہیں

عشق میں جب مرے جذبات کا رخ موڑ دیا

عشق میں جب مرے جذبات کا رخ موڑ دیا
میں نے دنیا کی مہمات کا رخ موڑ دیا
ہیں کچھ ایسے بھی ترے بادہ کشوں میں ساقی
پی کے لہرائے تو خطرات کا رخ موڑ دیا
جلوۂ رو سے کبھی پردۂ گیسو سے کبھی
دن کا منہ پھیر دیا، رات کا رخ موڑ دیا

بیتاب ہیں اور عشق کا دعوی نہیں ہم کو

بے تاب ہیں اور عشق کا دعویٰ نہیں ہم کو
آوارہ ہیں اور دشت کا سودا نہیں ہم کو
غیروں کی محبت پہ یقیں آنے لگا ہے
یاروں سے اگرچہ کوئی شکوہ نہیں ہم کو
نیرنگئ دل ہے کہ تغافل کا کرشمہ
کیا بات ہے جو تیری تمنا نہیں ہم کو

ہجوم درد ملا زندگی عذاب ہوئی

ہجومِ درد ملا زندگی عذاب ہوئی
دل و نگاہ کی سازش تھی، کامیاب ہوئی
تمہاری ہِجر نوازی پہ حرف آئے گا
ہماری مونس و ہمدم اگر شراب ہوئی
یہاں تو زخم کے پہرے بٹھائے تھے ہم نے
شمیمِ زلف یہاں کیسے باریاب ہوئی

Sunday 20 September 2015

دیوار و در سے اتر کے پرچھائیاں بولتی ہیں

دیوار و در سے اتر کے پرچھائیاں بولتی ہیں
کوئی نہیں بولتا، جب تنہائیاں بولتی ہیں
پردیس کے راستوں میں رکتے کہاں ہیں مسافر
ہر پیڑ کہتا ہے قصہ، خاموشیاں بولتی ہیں
موسم کہاں مانتا ہے تہذیب کی بندشوں کو
جسموں سے باہر نکل کے انگڑائیاں بولتی ہیں

تیرا سچ ہے ترے عذابوں میں

تیرا سچ ہے ترے عذابوں میں
جھوٹ لکھا ہے سب کتابوں میں
ایک سے مل کے سب سے مل لیجیے
آج ہر شخص ہے نقابوں میں
تیرا ملنا، تیرا نہیں ملنا
ایک رستہ کئی سرابوں میں

اے دل نہ سن افسانہ کسی شوخ حسیں کا

اے دل! نہ سن افسانہ کسی شوخ حسیں کا
ناعاقبت اندیش! رہے گا نہ کہیں کا
دنیا کا رہا ہے دلِ ناکام، نہ دِیں کا
اس عشق بد انجام نے رکھا نہ کہیں کا
ہیں تاک میں اس شوخ کی دزدیدہ نگاہیں
اللہ نگہبان ہے اب جانِ حزیں کا

ہوش دیوانے کو اپنے تن بدن کا خاک تھا

ہوش دیوانے کو اپنے تن بدن کا خاک تھا
آستِیں نکلی ہوئی تھی اور دامن چاک تھا
اک اشارے میں زمانے کو تہ و بالا کیا
کس بلا کا سحر تیری آنکھ میں سفاک تھا
اور میری جان لیوا کون تھا ہنگامِ دِید
یا نگاہِ ناز تھی، یا ابروئے سفاک تھا

گداز عشق نہیں کم جو میں جواں نہ رہا​

گدازِ عشق نہیں کم جو میں جواں نہ رہا​
وہی ہے آگ، مگر آگ میں دھواں نہ رہا ​
نہیں کہ دل مِرا وقفِ غمِ نہاں نہ رہا ​
مگر وہ شیوۂ فرمودۂ بیاں نہ رہا ​
زہے وہ شوق جو پابندِ اِیں و آں نہ رہا ​
خوشا وہ سجدہ جو محدودِ آستاں نہ رہا ​

بے کیف دل ہے اور جیے جا رہا ہوں میں

بے کیف دل ہے اور جئے جا رہا ہوں میں
خالی ہے شیشہ اور پئے جا رہا ہوں میں
پیہم جو آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں
دولت ہے غم، زکوٰۃ دیئے جا رہا ہوں میں
مجبورئ کمالِ محبت تو دیکھنا
جینا نہیں قبول، جئے جا رہا ہوں میں

سجدوں کی رسم کہنہ کو ہوش گنوا کے بھول جا

سجدوں کی رسمِ کہنہ کو ہوش گنوا کے بھول جا
سنگِ درِ حبیب پر سر کو جھکا کے بھول جا
عشق کو برقرار رکھ، دل کو لگا کے بھول جا
اس سے بھی مطمئن نہ ہو اس کو بھی پا کے بھول جا
دل سے تڑپ جدا نہ کر، ساز کو بے صدا نہ کر
درد جو ہو فغاں طلب، ہونٹ ہلا کے بھول جا

ضبط کی آب و تاب سے عشق کو جگمگائے جا

ضبط کی آب و تاب سے عشق کو جگمگائے جا
ہاں یوں ہی جھوم جھوم کے چوٹ پہ چوٹ کھائے جا
راہِ وفا سے منہ نہ موڑ، آس نہ توڑ، جی نہ چھوڑ
وہ یوں ہی ظلم ڈھائے جائے، تُو یونہی مسکرائے جا
بادۂ آتشیں نہ چھوڑ، خندۂ دلنشیں نہ چھوڑ
غم کدۂ حیات میں، غم کی ہنسی اڑائے جا

بھول جاؤں جسے دم بھر میں کوئی احساں تو نہیں

بھول جاؤں جسے دم بھر میں کوئی احساں تو نہیں
میرا اقرار ہے ظالم یہ تِری ہاں تو نہیں
تُو مٹائے بھی تو یہ دل سے کوئی مٹتا ہے
داغِ الفت ہے تِری وصل کا ارماں تو نہیں
ڈر نہیں حضرتِ واعظ مجھے کچھ دوزخ کا
یہ بتا دو کہ بلائے شبِ ہجراں تو نہیں

بنایا حضرت زاہد کو یار مشکل سے

بنایا حضرت زاہد کو یار مشکل سے
پلائے ساغرِ مے تین چار مشکل سے
تھما ہے آج دلِ بے قرار مشکل سے
ملا ہے جبر پہ کچھ اختیار مشکل سے
ہوا ہے وصل کا قول و قرار مشکل سے
کیا ہے وعدۂ ناپائیدار مشکل سے

اس بازار میں ایک شام

اس بازار میں ایک شام

چند چاندی کے سرد سِکوں میں
گرمئ حسن بک رہی ہے یہاں
اے غمِ عشق! دیکھ بھول نہیں

نغمۂ نور و کائنات سرور
کاسۂ زر میں ڈھالتی ہے شام
اور کیا اس میں دلکشی ہے، نہ پوچھ

محبت میں تیری ہے جینا ہی پینا

محبت میں تیری ہے جینا ہی پِینا
نہ کچھ فکرِ ساغر نہ کچھ ذکرِ مِینا
خزاں ہو گئی ہے بہارِ تمنا
عجب گل کھلائے بہار آفرینا
نگاہیں زمانے کی اس پر جمی ہیں
کِسے دیکھ بیٹھی میری چشمِ بِینا

Saturday 19 September 2015

کبھی آپ ہنسے کبھی نین ہنسیں کبھی نین کے بیچ ہنسے کجرا

چنچل

"کبھی آپ ہنسے، کبھی نین ہنسیں، کبھی نین کے بیچ ہنسے کجرا"
کبھی سارا سندر انگ ہنسے، کبھی انگ رکے، ہنس دے گجرا
یہ سندرتا ہے یا کوِتا، میٹھی میٹھی مستی لائے
اس روپ کے ہنستے ساگر میں ڈگ مگ ڈولے من کا بجرا
یہ موہن مدھ متوالی ہے، یہ مے خانے کی چنچل ہے
یہ رُوپ لٹاتی ہے سب میں، پر آدھے منہ پر آنچل ہے

ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا، بیٹھ اکیلے رونا ہو گا

ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا، بیٹھ اکیلے رونا ہو گا
چپکے چپکے بہا کر آنسو، دل کے دکھ کو دھونا ہو گا
بیرن ریت بڑی دنیا کی، آنکھ سے ٹپکا جو بھی موتی
پلکوں ہی سے اٹھانا ہو گا، پلکوں ہی سے پرونا ہو گا
پیاروں سے مل جائیں پیارے، انہونی کب ہونی ہو گی
کانٹے پھول بنیں گے کیسے، کب سکھ سیج بچھونا ہو گا

اندھی دنیا آدھی سادھو اندھی دنیا آدھی

گیت

اندھی دنیا آدھی، سادھو، اندھی دنیا آدھی
سوچ سمجھ کر جان لے مورکھ! بیٹھ لگا کے سمادھی
ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھے کسی کا چھایا گھور اندھیرا
گپت بھون میں بیٹھے روئیں مل کر سب اپرادھی
پوری بات سنی نہ کسی نے، دل کی دل سے دوری
گیان گیت کی تان منوہر کیا پوری کیا آدھی

من مورکھ مٹی کا مادھو ہر سانچے میں ڈھل جاتا ہے

من مورکھ مٹی کا مادھو، ہر سانچے میں ڈھل جاتا ہے
اس کو تم کیا دھوکا دو گے بات کی بات بہل جاتا ہے
جی کی جی میں رہ جاتی ہے آیا وقت ہی ٹل جاتا ہے
یہ تو بتاؤ کس نے کہا تھا، کانٹا دل سے نکل جاتا ہے
جھوٹ موٹ بھی ہونٹ کھلے تو دل نے جانا، امرت پایا
ایک اک میٹھے بول پہ مورکھ دو دو ہاتھ اچھل جاتا ہے

لذت شام شب ہجر خدا داد نہیں

لذتِ شام، شبِ ہجر خدا داد نہیں
اس سے بڑھ کر ہمیں رازِ غمِ دل یاد نہیں
کیفیت خانہ بدوشانِ چمن کی مت پوچھ
یہ وہ گلہائے شگفتہ ہیں جو برباد نہیں
یک ہمہ حسنِ طلب، یک ہمہ جانِ نغمہ
تم جو بے داد نہیں ہم بھی تو فریاد نہیں

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا

نگری نگری پھِرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا، کیا ہے میرا، اپنا پرایا بھول گیا
کیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو، بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی، بھولا بھالا بھول گیا
کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے، پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

جیون جیوتی جاگ رہی ہے چھوڑ بہانے چھوڑ بہانے

جیون جیوتی جاگ رہی ہے چھوڑ بہانے، چھوڑ بہانے
تن من دھن کی بھینٹ چڑھا دے کیوں سپنوں کے تانے بانے
آئے کون تجھے بہلانے، پہنچے کون تجھے سمجھانے
پھر پایا ہے پریم سدھا نے، الجھایا ہے پریم کتھا نے
اک گھمسان کا رن ہے دنیا، جاگ سپاہی
اٹھ کر اک دو ہاتھ دکھا دے، دشمن بھی جوہر پہچانے

مجھے چاہے نہ چاہے دل تیرا تو مجھ کو چاہ بڑھانے دے

مجھے چاہے نہ چاہے دل تیرا، تو مجھ کو چاہ بڑھانے دے
اک پاگل پریمی کو اپنی چاہت کے نغمے گانے دے
تو رانی پریم کہانی کی چپ چاپ کہانی سُنتی جا
یہ پریم کی باتیں سنتی جا، پریمی کو گیت سنانے دے
یہ چاہت میرا جذبہ ہے، میرے دل کا میٹھا نغمہ
ان باتوں سے کیا کام تجھے ان باتوں کو کہہ جانے دے

مانا تیری نظر میں تیرا پیار ہم نہیں

فلمی گیت

مانا تیری نظر میں تیرا پیار ہم نہیں
کیسے  کہیں کہ تیرے طلبگار ہم نہیں
مانا تیری نظر میں ۔۔۔۔

تن کو جلا کے راکھ بنایا، مِٹا دیا
لو اب تمہاری راہ میں دیوار ہم نہیں
مانا تیری نظر میں ۔۔۔۔

یہ ملاقات اک بہانہ ہے

فلمی گیت

یہ ملاقات اک بہانہ ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے

دھڑکنیں دھڑکنوں میں کھو جائیں
دل کو دل کے قریب لانا ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
یہ ملاقات اک بہانہ ہے

نہ جانے کیا ہوا جو تو نے چھو لیا

فلمی گیت

نہ جانے کیا ہوا جو تو نے چھو لیا کھلا گلاب کی طرح مِرا بدن
نکھر نکھر گئی سنور سنور گئی بنا کے آئینہ تجھے اے جانِ من

بکھرا ہے کاجل فِضا میں بھیگی بھیگی ہیں شامیں
بوندوں کی رِم جھِم سے جاگی آگ ٹھنڈی ہوا میں
آ جا صنم! یہ حسیں آگ ہم لیں دل میں بسا
نہ جانے کیا ہوا جو تو نے چھو لیا کھلا گلاب کی طرح مرا بدن

زندگی میں سدا مسکراتے رہو

فلمی گیت

زندگی میں سدا مسکراتے رہو
فاصلے کم کرو دل ملاتے رہو

درد کیسا بھی ہو آنکھ نم نہ کرو
رات کالی سہی کوئی غم نہ کرو
اک ستارہ بنو، جگمگاتے رہو
زندگی میں سدا مسکراتے رہو

Friday 18 September 2015

درد کی راہیں نہیں آساں ذرا آہستہ چل

درد کی راہیں نہیں آساں، ذرا آہستہ چل
اے سبک رو، اے حریف جاں! ذرا آہستہ چل
منزلوں پر قُرب کا نشہ ہَوا ہو جائے گا
ہمسفر وہ ہے تو اے ناداں! ذرا آہستہ چل
نامرادی کی تھکن سے جسم پتھر ہو گیا
اب سکت کیسی دلِ ویراں! ذرا آہستہ چل

سویا تھا یا جاگ رہا تھا ہجر کی رات

سویا تھا، یا جاگ رہا تھا ہجر کی رات
آنکھوں پر محسوس کیے ہیں اس کے ہاتھ
اس کو دیکھنا، دیکھتے رہنا کافی تھا
لوٹ آیا ہوں دل میں لے کر، دل کی بات
کیسے اب میں اوروں کو بے درد کہوں
میں بھی تھوڑی دور گیا تھا اس کے ساتھ

کچھ ایسے ہم نے خرابے بسائے شہروں میں

کچھ ایسے ہم نے خرابے بسائے شہروں میں
جو دشت والے تھے وہ بھی اٹھ آئے شہروں میں
ہماری سادہ دلی دیکھیے کہ ڈھونڈتے ہیں
ہم اپنے دیس کی باتیں پرائے شہروں میں
کچھ اس طرح سے ہر اک بام و در کو دیکھتے ہیں
زمانے بعد کوئی جیسے آئے شہروں میں

جو کچھ کہیں تو دریدہ دہن کہا جائے

جو کچھ کہیں تو دریدہ دہن کہا جائے 
یہ شہر کیا ہے، یہاں کیا سخن کہا جائے
بضد ہے تیشۂ خونیں لیے ہوئے کوئ شخص 
کہ گورکن کو بھی اب کوہکن کہا جائے
اگر ہجوم صداؤں کو دیکھنا چاہو
تو شرط ہے پہلا سخن کہا جائے

مکین خوش تھے کہ جب بند تھے مکانوں میں

مکین خوش تھے کہ جب بند تھے مکانوں میں
کھُلے کواڑ تو تالے پڑے زبانوں میں
درخت ماؤں کی مانند انتظار میں ہیں
طیور لوٹ کے آئے نہ آشیانوں میں
ہوا کی زد پے بھی دو اک چراغ روشن ہیں
بلا کے حوصلے دیکھے ہیں سخت جانوں میں

کب تک فگار دل کو تو آنکھوں کو نم کریں

کب تک فگار دل کو تو آنکھوں کو نم کریں
آؤ، حدیثِ قاتل و بِسمل رقم کریں
رِندو اٹھاؤ جام کہ بس ہو چکی بہت
تا چند پاسِ بیعتِ شیخِ حرم کریں
آنکھوں کے طاقچوں میں جلا کر چراغِ درد
خونِ جگر کو پھر سے سپردِ قلم کریں

ہجر جاناں کی گھڑی اچھی لگی

ہجرِ جاناں کی گھڑی اچھی لگی
اب کے تنہائی بڑی اچھی لگی
قریۂ جاں پر اداسی کی طرح
دُھند کی چادر پڑی اچھی لگی
ایک تنہا فاختہ اڑتی ہوئی
اک ہرن کی چوکڑی اچھی لگی

تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری

تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری
لوگ مر جائیں بلا سے تیری
کوئی نسبت کبھی اے جانِ سخن
کسی محرومِ نوا سے تیری
اے میرے ابرِ گریزاں کب تک
راہ تکتے رہیں پیاسے تیری

Thursday 17 September 2015

پیراہن سیہ نہ عزا خانہ شرط ہے

پیراہنِ سِیہ نہ عزا خانہ شرط ہے
غم کے لیے فقط ترا یاد آنا شرط ہے
محفل وہیں جمے گی جہاں بیٹھ جائیں یار
کب ہاؤ ہُو کے واسطے میخانہ شرط ہے
آپ اور میں تو لازم و ملزوم ہیں، جناب 
اثباتِ حُسن کے لیے دیوانہ شرط ہے

بیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں

بیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں
ہم بے گھروں کا کوئی ٹھکانہ تو ہے نہیں
تم بھی ہو بیتے وقت کی مانند ہو بہو
تم نے بھی یاد آنا ہے، آنا تو ہے نہیں
عہدِ وفا سے کس لیے خائف ہو میری جان
کر لو، کہ تم نے عہد نبھانا تو ہے نہیں

صدائیں دیتے ہوئے اور خاک اڑاتے ہوئے

صدائیں دیتے ہوئے اور خاک اڑاتے ہوئے
میں اپنے آپ سے گزرا ہوں تجھ تک آتے ہوئے
پهر اس کے بعد زمانے نے مجھ کو روند دیا
میں گر پڑا تھا میں کسی اور کو اٹھاتے ہوئے
کہانی ختم ہوئی، اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

عشق کچھ ایسی گدائی ہے کہ سبحان اللہ

عشق کچھ ایسی گدائی ہے کہ سبحان اللہ
ہم نے خیرات وہ پائی ہے کہ سبحان اللہ
پاؤں پڑتا ہوں تو وہ ہنس کے لگاتا ہے گلے
بندگی میں وہ خدائی ہے کہ سبحان اللہ
شام ہوتے ہی کسی بھولے ہوئے غم کی مہک
صحن میں یوں اتر آئی ہے کہ سبحان اللہ

Tuesday 15 September 2015

جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا

جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا
یہی درد سر خریدا، یہی روگ ہم نے پالا
تیرے ہاتھ سے ملی ہے مجھے آنسوؤں کی مالا
تِری زلف ہو دوگونہ، تِرا حسن ہو دوبالا
میں ہرے بھرے چمن میں وہ شکستہ شاخِ گُل ہوں
نہ خزاں نے جس کو تھاما، نہ بہار نے سنبھالا

ہر چوٹ پہ پوچھے ہے بتا یاد رہے گی

“ہر چوٹ پہ پوچھے ہے ”بتا یاد رہے گی
ہم کو یہ زمانے کی ادا یاد رہے گی
دن رات کے آنسو، سحر و شام کی آہیں
اس باغ کی یہ آب و ہوا یاد رہے گی
کس دھوم سے بڑھتی ہوئی پہونچی ہے کہاں تک
دنیا کو تِری زلفِ رسا یاد رہے گی

وہ ستم نہ ڈھائے تو کیا کرے اسے کیا خبر کہ وفا ہے کیا

وہ سِتم نہ ڈھائے تو کیا کرے اسے کیا خبر کہ وفا ہے کیا
تُو اسی کو پیار کرے ہے کیوں، یہ کلیمؔ تجھ کو ہُوا ہے کیا
تجھے سنگدل یہ پتہ ہے کیا کہ دُکھے دلوں کی صدا ہے کیا
کبھی چوٹ تُو نے بھی کھائی ہے، کبھی تیرا دل بھی دُکھا ہے کیا
تُو رئیسِ شہرِ سِتم گراں، میں گدائے کُوچۂ عاشقاں
تُو امیر ہے، تو بتا مجھے میں غریب ہوں تو بُرا ہے کیا

چمن اپنا لٹا کر بلبل ناشاد نکلی ہے

چمن اپنا لٹا کر بلبلِ ناشاد نکلی ہے
مبارکباد، تیری آرزو صیاد نکلی ہے
خدا رکھے سلامت تیری چشمِ بے مروت کو
بڑی بے درد نکلی ہے، بڑی جلاد نکلی ہے
نکل کر دل سے آہوں نے کہیں رُتبہ نہیں پایا
چمن سے جب بھی نکلی بُوئے گُل، برباد نکلی ہے

امتحان شوق میں ثابت قدم ہوتا نہیں

امتحانِ شوق میں ثابت قدم ہوتا نہیں
عشق جب تک واقفِ آدابِ غم ہوتا نہیں
ان کی خاطر سے کبھی ہم مسکرا اٹھے تو کیا
مسکرا لینے سے دل کا درد کم ہوتا نہیں
تم جہاں ہو بزم بھی ہے شمع بھی پروانہ بھی
ہم جہاں ہوتے ہیں یہ ساماں بہم ہوتا نہیں

Monday 14 September 2015

بدل گیا ہے سبھی کچھ اس ایک ساعت میں

بدل گیا ہے سبھی کچھ اس ایک ساعت میں
ذرا سی دیر ہمیں ہو گئی تھی عجلت میں
محبت اپنے لیے جن کو منتخب کر لے
وہ لوگ مر کے بھی مرتے نہیں محبت میں
میں جانتا ہوں کہ موسم خراب ہے پھر بھی
کوئی تو ساتھ ہے اس دکھ بھری مسافت میں

ذرا سی دیر کو منظر سہانے لگتے ہیں

ذرا سی دیر کو منظر سہانے لگتے ہیں
پھر اس کے بعد یہی قید خانے لگتے ہیں
میں سوچتا ہوں کہ تُو دربدر نہ ہو، ورنہ
تجھے بھلانے میں کوئی زمانے لگتے ہیں
کبھی جو حد سے بڑھے دل میں تیری یاد کا حبس
کھلی "فضا" میں تجھے "گنگنانے" لگتے ہیں

ستم کی رات کو جب دن بنانا پڑتا ہے

ستم کی رات کو جب دن بنانا پڑتا ہے
چراغِ جاں، سرِ مقتل جلانا پڑتا ہے
اٹھانا پڑتا ہے پلکوں سے رتجگوں کا خمار
پھر اس خمار سے خود کو بچانا پڑتا ہے
کسی کی نیند کسی سے بدلنی پڑتی ہے
کسی کا خواب کسی کو دکھانا پڑتا ہے

قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں

قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں
کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں
کون سی آنکھوں میں میرے خواب روشن ہیں ابھی
کس کی نیندیں، جو میرے رتجگوں میں قید ہیں
شہر آبادی سے خالی ہو گئے، خوشبو سے پھول
اور کتنی خواہشیں ہیں جو دلوں میں قید ہیں

اپنے آپ سے پھرتے ہیں بے گانے کیوں

اپنے آپ سے پھرتے ہیں بیگانے کیوں
شہر میں آ کر لوگ ہوئے دیوانے کیوں
ہم نے کب مانی تھی بات زمانے کی
آج ہماری بات زمانہ مانے کیوں
وہ جنگل کے پھولوں پر کیوں مرتا ہے
اس کو اچھے لگتے ہیں ویرانے کیوں

ابر برسا نہ ہوا تیز چلی ہے اب کے

ابر برسا نہ ہوا تیز چلی ہے اب کے
کتنی ویران تیری یادوں کی گلی ہے اب کے
صبح کی دھوپ اتر آئی مِرے بالوں میں
شب ڈھلی ہے کہ مِری عمر ڈھلی ہے اب کے
کیا کہوں کتنے بہانوں سے بھلایا ہے اسے
یہ قیامت بڑی مشکل سے ٹلی ہے اب کے

یاروں کی خامشی کا بھرم کھولنا پڑا

یاروں کی خامشی کا بھرم کھولنا پڑا
اتنا سکوت تھا کہ مجھے بولنا پڑا
صرف ایک تلخ بات سنانے سے پیشتر
کانوں میں پھول پھول کا رس گھولنا پڑا
اپنے خطوں کے لفظ، جلانے پڑے مجھے
شفّاف موتیوں کو کہاں رولنا پڑا

پل بھر کو مل کے اجر شناسائی دے گیا

پل بھر کو مِل کے اجرِ شناسائی دے گیا
اک شخص، ایک عمر کی تنہائی دے گیا
آیا تھا شوقِ چارہ گری میں کوئی، مگر
کچھ اور دل کے زخم کو گہرائی دے گیا
بچھڑا، تو دوستی کے اثاثے بھی بٹ گئے
شہرت وہ لے گیا، مجھے رسوائی دے گیا

خود وقت میرے ساتھ چلا وہ بھی تھک گیا

خود وقت میرے ساتھ چلا وہ بھی تھک گیا
میں تیری جستجو میں بہت دور تک گیا
کچھ اور ابر چاند کے ماتھے پہ جھک گئے
کچھ اور تیرگی کا مقدر چمک گیا
کل جس کے قرب سے تھی گریزاں مِری حیات
آج اس کے نام پر بھی مِرا دل دھڑک گیا

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تُو نے یہ بھی سوچا ہے
اَدھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے
یہ ختم وصل کا لمحہ ہے، رائیگاں نہ سمجھ
کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھڑنا اداسیوں کے شجر
کسے خبر تِرے سائے میں کون بیٹھا ہے

ناکام حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا

ناکام حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا
دنیا میں اب دکھوں کے سوا کچھ نہیں رہا
اک عمر ہو گئی ہے دل کی کتاب میں
کچھ خشک پتیوں کے سوا کچھ نہیں رہا
یادیں کچھ اس طرح سے سماعت پہ چھا گئیں
پچھلی رفاقتوں کے سوا کچھ نہیں رہا

اگرچہ خوف کے عالم میں خواب ختم ہوا

اگرچہ خوف کے عالم میں خواب ختم ہوا
لگا کہ روح پہ طاری عذاب ختم ہوا
یہ ملنا اور بچھڑنا ہے پانیوں کی طرح
کہ ایک لہر اٹھی، نقشِ آب ختم ہوا
کسی کو پڑھ لیا ایک ہی نشست میں ہم نے
کوئی ضخیم تھا، اور باب باب ختم ہوا

نارسائی ہے کہ تو ہے کیا ہے

نارسائی ہے کہ تُو ہے، کیا ہے
یاد کر کے جسے جی ڈوبا ہے
اے غمِ جاں! تِرے غمخواروں کا
صبر، اب حد سے سوا پہنچا ہے
آئینہ تھا، کہ مِرا پیکر تھا
تیری باتوں سے ابھی بکھرا ہے

جو ترے جام سے سرشار نہیں ہے ساقی

جو تِرے جام سے سرشار نہیں ہے ساقی
وہ بشر کون سی بستی کا مکیں ہے ساقی
ابھی باقی ہے الم ہائے فراواں کا خمار
ابھی ہلکی سی کسک دل کے قریں ہے ساقی
نظر اٹھتی ہی نہیں ہے تِرے میخانے سے
ورنہ دنیا کی ہر اِک چیز حسِیں ہے ساقی

محبت سے جب آشنا ہو گئے ہم

محبت سے جب آشنا ہو گئے ہم
نِگہ کی کسی نے، فنا ہو گئے ہم
ہے مرنا یہی، موت کہتے ہیں اس کو
کہ دنیا میں تجھ سے جدا ہو گئے ہم
یہی انتہا ہے افرازیوں کی
کہ مر کر تِری خاکِ پا ہو گئے ہم

مجھے بھی خاک تجھے بھی ہوا ہونا تھا

مجھے بھی خاک، تجھے بھی ہوا ہونا تھا
کہ رنگ و بُو کو کہیں پر جُدا تو ہونا تھا
پرستشیں جو بڑھیں فاصلے تو بڑھنے تھے
کہ بندگی میں کسی کو خُدا تو ہونا تھا
پرستشیں جو بڑھیں فاصلے تو بڑھنے تھے
میرے صنم کو کسی دن خُدا تو ہونا تھا

دنوں کی بات تو پھر کوئی بات بھی نہ ہوئی

دنوں کی بات تو پھر کوئی بات بھی نہ ہوئی
ہم ایسی شام میں بچھڑے کہ رات بھی نہ ہوئی
ذرا سا زخم تھا، ایسا بھی لاعلاج نہ تھا
تمہارے بعد مگر احتیاط بھی نہ ہوئی
میں لٹ لٹا کے بھی اپنا بھرم گنوا نہ سکا
تمہیں تو جیت ہوئی، مجھ کو مات بھی نہ ہوئی

Friday 11 September 2015

بارش میں تنہا بھیگو یا بھیگو یار کے ساتھ

بارش میں تنہا بھیگو، یا بھیگو یار کے ساتھ
کتنے زخم مہک اٹھتے ہیں پہلی پھوار کے ساتھ
لہروں میں بھی گِرہ پڑتی ہے، جیسے دل میں
دریا کے سب بھید نہیں کھُلتے پتوار کے ساتھ
کچھ تو بول مسیحا! آخر کیسا روگ لگا ہے
کوئی بھلا بیمار ہوا ہے یوں بیمار کے ساتھ

اس کے بعد اور ابھی سخت مقام آئے گا

اس کے بعد اور ابھی سخت مقام آئے گا
حوصلہ یوں نہ گنوا، یہ تِرے کام آئے گا
اتنا مایوس نہ ہو گردشِ افلاک سے تُو
صبح نکلا جو ستارہ، سرِ شام آئے گا
میں تِری یاد کے زنداں میں ابھی تک ہوں اسیر
کب تُو آزاد کرانے یہ غلام آئے گا

دکھائی کچھ نہیں دیتا نگاہ ہوتے ہوئے

دکھائی کچھ نہیں دیتا نگاہ ہوتے ہوئے
بچا ہوا ہے وہ قاتل، گواہ ہوتے ہوئے
اب اس سے بڑھ کے محبت کا قحط کیا ہو گا
سب اجنبی ہیں یہاں رسم راہ ہوتے ہوئے
مجھے اجالے کا لالچ دیا گیا اور پھر
میں دیکھتا رہا دن کو سیاہ ہوتے ہوئے

بہت دنوں میں کہیں ہجرِ ماہ و سال کے بعد

بہت دنوں میں کہیں ہجرِ ماہ و سال کے بعد
رُکا ہوا ہے زمانہ تِرے وصال کے بعد
کسی نے پھر ہمیں تسخیر کر لیا آخر
کوئی مثال تو آئی تِری مثال کے بعد
عجیب حبس کے عالم میں چل رہی تھی ہوا
تِرے جواب سے پہلے، مِرے سوال کے بعد

اگرچہ پیکر حسن وفا تھا وہ بھی گیا

اگرچہ پیکرِ حسنِ وفا تھا، وہ بھی گیا
میرا شریکِ غزل اک دِیا تھا، وہ بھی گیا
امیدِ وصل تو بے چین مہماں تھی، گئی
مکینِ دل میرا حوصلہ تھا، وہ بھی گیا
چمکتے شہر میں آئے تھے قُمقُموں کے لیے
اور اک چراغ کہ ماں نے دیا تھا، وہ بھی گیا

خیال خام تھا یا نقش معتبر نہ کھلا

خیالِ خام تھا یا نقشِ معتبر، نہ کھُلا
دلوں پہ اس کا تبسم کھُلا، مگر نہ کھلا
محیط چشمِ تمنا بھی تھا وہی، جس پر
کسی طرح بھی مِرا نقطۂ نظر نہ کھلا
عجیب وضع سے بے اعتباریاں پھیلیں
غریبِ شہر کی دستک پہ کوئی در نہ کھلا

میں‌ جب اپنے گاؤں سے باہر نکلا تھا

میں‌ جب اپنے گاؤں سے باہر نکلا تھا
ہر رستے نے میرا "رستا" روکا تھا
مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی
اوپر سے "بادل" کا "ٹکڑا" گزرا تھا
شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لی
بس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا

بھیگے شعر اگلتے جیون بیت گیا

بھیگے شعر اگلتے جیون بیت گیا
ٹھنڈی آگ میں جلتے جیون بیت گیا
یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی
لیکن چلتے چلتے جیون بیت گیا
شام ڈھلےاس کو ندیا پر آنا تھا
سورج ڈھلتے ڈھلتے جیون بیت گیا

جب بھی ہنسی کی گرد میں چہرہ چھپا لیا

جب بھی ہنسی کی گرد میں چہرہ چھپا لیا
بے لوث دوستی کا بڑا ہی مزہ لیا
اک لمحۂ سکوں تو ملا تھا نصیب سے
لیکن  کسی شریر صدی نے چرا لیا
کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بُوئے گُل
یاروں نے بُوئے گل سے بھی کانٹا بنا لیا

دھوم ہے شش جہات پھولوں کی

دھوم ہے شش جہات پھولوں کی
دیکھیے! کائنات پھولوں کی
دَور ہو جب چمن میں کانٹوں کا
کون کرتا ہے بات پھولوں کی
اپنے سائے میں خار پالتے ہیں
کتنی اونچی ہے ذات پھولوں کی

سر میخانہ کوئی پارسا اب تک نہیں آیا

سرِ مے خانہ کوئی پارسا اب تک نہیں آیا
ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا
کِیا وعدہ، مگر وہ بے وفا اب تک نہیں آیا
خدا معلوم کب تک آئے گا، اب تک نہیں آیا
فلک گرسشیں حیراں ہیں اس کی بے مثالی پر
کوئی ایسا ستم گر دوسرا اب تک نہیں آیا

ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا

ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا
کہ بزمِ مے میں کوئی پارسا اب تک نہیں آیا
ستم بھی لطف ہو جاتا ہے بھولے پن کی باتوں میں
تجھے اے جان! اندازِ جفا اب تک نہیں آیا
گیا تھا کہہ کے یہ قاصد کہ الٹے پاؤں آتا ہوں
کہاں کم بخت جا کر مر رہا، اب تک نہیں آیا

جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیر مغاں رکھ دی

جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیرِ مغاں رکھ دی
پرانی دوستی بھی طاق پر اے مہرباں! رکھ دی
خدا کے ہاتھ ہے بِکنا نہ بِکنا مئے کا، اے ساقی
برابر مسجدِ جامع کے ہم نے اب دکاں رکھ دی
چمن کا لطف آتا ہے مجھے صیاد کے صدقے
قفس میں لا کے اس نے آج شاخِ آشیاں رکھ دی

مئے رہے مینا رہے گردش میں‌ پیمانہ رہے

مے رہے، مِینا رہے، گردش میں‌ پیمانہ رہے
میرے ساقی تُو رہے، آباد مے خانہ رہے
حشر بھی تو ہو چکا، رُخ سے نہیں‌ ہٹتی نقاب
حد بھی آخر کچھ ہے کب تک کوئی دیوانہ رہے
رات کو جا بیٹھتے ہیں‌ روز ہم مجنوں‌ کے پاس
پہلے اَن بن رہ چکی ہے، اب تو یارانہ رہے

کوئی منہ چوم لے گا اس نہیں پر

کوئی منہ چوم لے گا اس "نہیں" پر
شکن رہ جائے گی یوں ہی جبیں پر
اڑائے پھرتی ہے ان کو جوانی
قدم پڑتا نہیں ان کا زمیں پر
دھری رہ جائیگی یوں ہی شبِ وصل
نہیں لب پر، شکن ان کی جبیں پر

Thursday 10 September 2015

تم اک گورکھ دھندہ ہو

تم اک گورکھ دھندہ ہو

کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے، پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو

مدت کے بعد ان کا جو پیغام آ گیا

مدت کے بعد ان کا جو پیغام آ گیا
اک تشنہ لب کے ہاتھ میں پھر جام آ گیا
اس وقت کی ندامتِ پنہاں نہ پوچھو تو
جب بے خودی میں لب پہ ترا نام آ گیا
کیسے بتاؤں اب جو ہوا کرب روح کو
اکثر تِرے بغیر جب آرام آ گیا

اے دل الجھ گیا ہے مذاق نظر کہاں

اے دل الجھ گیا ہے مذاقِ نظر کہاں
منزل کہاں یہ حسنِ سرِ رہگزر کہاں
اک بار اگر قفس کی ہوا راس آ گئی
اے خود فریب پھر ہوسِ بال و پر کہاں
گم ہو چکی ہے کاہکشاں گردِ راہ میں
اب دیکھیے ہو ختم ہمارا سفر کہاں

وہاں کل رات جنت کا نظارا تھا جہاں میں تھا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

وہاں کل رات جنت کا نظارا تھا، جہاں میں تھا
عجب اک کیفِ پیہم آشکارا تھا، جہاں میں تھا
زمیں سے عرش تک تھا ایک کیفِ بے خودی طاری
کہ اک نامِ مقدّسﷺ جلوہ آراء تھا، جہاں میں تھا
یہ تھی وہ سرمدی محفل کہ اس محفل کا ہر لمحہ
عقیدت نے محبت سے سنوارا تھا، جہاں میں تھا

پلا دے معرفت کی جس قدر بھی ہے مے باقی

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

پلا دے معرفت کی جس قدر بھی ہے مئے باقی
کہ میرے لب پہ ذکرِ فخرِ موجوداتؐ ہے ساقی
جہانِ شاعری میں آج رہ جائے بھرم میرا
سخن سنجوں کی صف میں ہو نہ شرمندہ قلم میرا
مجھے اک محسنِ انسانیتﷺ کا ذکر کرنا ہے
مجھے رنگِ عقیدت فکر کے سانچے میں بھرنا ہے

Wednesday 9 September 2015

بڑھ گئی مے پینے سے دل کی تمنا اور بھی

بڑھ گئی مے پینے سے دل کی تمنا اور بھی
صدقہ اپنا ساقیا! یک جامِ صہبا، اور بھی
ایک تو میں آپ ناصح ہُوں پریشاں، خستہ جاں
دل دُکھا دیتی ہے تیری پندِ بے جا اور بھی
داستانِ شوقِ دل، ایسی نہیں تھی مختصر
جی لگا کر تم اگر سنتے، میں کہتا اور بھی

شوق نظارہ نے گھر غیر کو کرنے نہ دیا

شوقِ نظارہ نے گھر غیر کو کرنے نہ دیا
آ گیا اشک جو آنکھوں میں، ٹھہرنے نہ دیا
ہم قدم سد رہ منزل مقصد نکلے
راستہ مجھ کو مِری گردِ سفر نے نہ دیا
رُو سِیہ سے نہ رکھ امید برومندی کی
ایک بھی پھل کبھی گل ہائے سپر نے نہ دیا

کی تھی دم کن یار سے آغوش ذرا گرم

کی تھی دم کن یار سے آغوش ذرا گرم
اب تک مِرے سینے سے نکلتی ہے ہوا گرم
اک روز تو آ کر مِری آغوش میں بیٹھو
ٹھنڈا دل پرسوز ہو، پہلو ہو ذرا گرم
پانی کو بنا دیتی ہے الفت کی ہوا آگ
آنسو مِری آنکھوں سے نکلتے ہیں بلا گرم

وصل جاناں کی دل زار کو حسرت ہی رہی

وصلِ جاناں کی دلِ زار کو حسرت ہی رہی ۔۔۔ پر میسر نہ ہوا
عمر بھر جان پر فرقت کی مصیبت ہی رہی ۔۔۔ تھا یہ قسمت کا لکھا
تم نے جو بات کہی میں نے دل و جان سے وہ کی ۔۔۔ نہ کیا عذر کبھی
تم کو اس پر بھی مگر مجھ سے شکایت ہی رہی ۔۔۔ پھل یہ خدمت کا ملا
چشمۂ چشم سے اشکوں کی بھی موجیں نکلیں ۔۔۔ ٹھنڈی سانسیں بھی بھریں
آتشِ غم کی مگر دل میں حرارت ہی رہی ۔۔۔ نہ ہوا فرق ذرا

کروں کیا غم کہ دنیا سے ملا کیا

کروں کیا غم کہ دنیا سے مِلا کیا
کسی کو کیا مِلا دنیا میں تھا کیا
یہ دونوں مسئلے ہیں سخت مشکل
نہ پوچھو تم کہ میں کیا اور خدا کیا
رہا مرنے کی تیاری میں مصروف
مِرا کام اس دنیا میں اور تھا کیا

غم نہیں اس کا جو شہرت ہو گئی

غم نہیں اس کا جو شہرت ہو گئی
ہو گئی اب تو محبت ہو گئی
اب کہاں اگلے سے وہ راز و نیاز
مل گئے صاحب سلامت ہو گئی
ہائے کیا دلکش ہے اس کی چشمِ مست
آنکھ ملتے ہی محبت ہو گئی

عالم ہے بے خودی کا مے کی دکان پر ہیں

عالم ہے بیخودی کا مے کی دکان پر ہیں
ساقی پر ہیں نگاہیں، ہوش آسمان پر ہیں
دل اپنی ضد پر قائم، وہ اپنی آن پر ہیں
جتنی مصیبتیں ہیں سب میری جان پر ہیں
دنیا بدل گئی ہے وہ ہیں ہمیں کہ اب تک
اپنے مقام پر ہیں، اپنے مکان پر ہیں

Tuesday 8 September 2015

ہے کون ایسا شہر میں فتنوں کو جو دبا سکے

 ہے کون ایسا شہر میں فتنوں کو جو دبا سکے

انسانیت کو ظلم سے اس دور میں بچا سکے

اب شہرِ شعلہ پوش میں، ہے آبجو کی جستجو

بھڑکی ہے جو قلوب میں، اس آگ کو بجھا سکے

گو کہ فلک شگاف تھے، ہم بے کسوں کے قہقہے

چہرہ تھا دل کا آئینہ، غم کو نہ ہم چھپا سکے

اپنے خاموش سمندر میں بھنور پیدا کر

اپنے خاموش سمندر میں بھنور پیدا کر

سِیپیاں خالی نہ رہ جائیں، گُہر پیدا کر

التجائیں تِری جا کر کہاں رک جاتی ہیں

اب کے گردُوں میں کوئی راہگزر پیدا کر

خواب لگتی ہیں دعاؤں میں اثر کی باتیں

ہو سکے تجھ سے تو شکوؤں میں اثر پیدا کر

لفظ کی دنیا میں شائستہ ہنر میرا بھی ہے

 لفظ کی دنیا میں شائستہ ہنر میرا بھی ہے

اس خرابے میں تماشا سربسر میرا بھی ہے

میں بھی لٹ جاؤں گا شاید، آپ جیسے لٹ گئے

راہ میں اک راہبر شوریدہ سر میرا بھی ہے

مجھ کو معیارِ وفا کی اس لیے ہے جستجو

قافلہ شہر وفا سے دربدر میرا بھی ہے

ہر شب یہ فکر چاند کے ہالے کہاں گئے

ہر شب یہ فکر چاند کے ہالے کہاں گئے

ہر صبح یہ خیال اجالے کہاں گئے

یا ہے شراب پر یا دواؤں پہ انحصار

جو نیند بخش دیں وہ نوالے کہاں گئے

وہ التجائیں میری تہجد کی کیا ہوئیں

تھی عرش تک رسائی وہ نالے کہاں گئے

Monday 7 September 2015

کب کہاں کیا مرے دلدار اٹھا لائیں گے

کب کہاں کیا مرے دلدار اٹھا لائیں گے
وصل میں بھی دل بیزار اٹھا لائیں گے
چاہئے کیا تمہیں تحفے میں، بتا دو، ورنہ
ہم تو بازار کا بازار اٹھا لائیں گے
یوں محبت سے نہ ہم خانہ بدوشوں کو بُلا
اتنے سادہ ہیں کہ گھر بار اٹھا لائیں گے

کہیں جمال پزیری کی حد نہیں رکھتا

کہیں جمال پزیری کی حد نہیں رکھتا
میں بڑھ رہا ہوں تسلسل سے قد نہیں رکھتا
یہ قبل و بعد کے اس پار کی حکایت ہے
مِرا دوام، ازل اور ابد نہیں رکھتا
وہ ایک ہو کے بھی ہم سے گِنا نہیں جاتا
وہ ایک ہو کے بھی آگے عدد نہیں رکھتا

تراب تم بھی عجیب مشکل سے آدمی ہو

تراب تم بھی عجیب مُشکل سے آدمی ہو
کہ، کوئی کتنا ہی خوبصورت ہو
کوئی کتنا ہی دلربا ہو
کہ، کوئی چاہے ہزار جانیں
تمہارے دل پر کرے نِچھاور
پر ایک مدت سے بڑھ کے تم نے

نمو پزیر ہوں ہر دم کہ مجھ میں دم ہے ابھی

نمو پزیر ہوں ہر دم کہ مجھ میں دم ہے ابھی
مرا مقام ہے جو بھی وہ مجھ سے کم ہے ابھی
تراش اور بھی اپنے تصوّرِ رب کو
ترے خدا سے تو بہتر مرا صنم ہے ابھی
نہیں ہے غیر کی تسبیح کا کوئی امکاں
مرے لبوں پہ تو ذکرِ منم منم ہے ابھی

تنہائیوں کے دشت میں بھاگے جو رات بھر

تنہائیوں کے دشت میں بھاگے جو رات بھر
وہ دن کو خاک جاگے گا، جاگے جو رات بھر
فکرِ معاش نے انہیں قِصہ بنا دیا 
سجتی تھیں اپنی محفلیں آگے جو رات بھر
وہ دن کی روشنی میں پریشان ہو گیا 
سلجھا رہا تھا بخت کے دھاگے جو رات بھر

پارساؤں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا

پارساؤں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا
ہم سے پی اور ہمیں رسوا سرِ بازار کیا
درد کی دھوپ میں صحرا کی طرح ساتھ رہے
شام آئی تو لِپٹ کر ہمیں دیوار کیا
رات پھولوں کی نمائش وہ خوش جسم سے لوگ
آپ تو خواب ہوئے، اور ہمیں بیدار کیا

میں زخم زخم رہوں روح کے خرابوں سے

میں زخم زخم رہوں روح کے خرابوں سے
تُو جسم جسم دہکتا رہے گلابوں سے
کسی کی چال نے نشے کا رس کشِید کیا
کسی کا جسم تراشا گیا شرابوں سے
صبا کا ہاتھ ہے اور ہے تِرے گداز کا لمس
میں جاگتا ہی رہوں گرم گرم خوابوں میں

Saturday 5 September 2015

عقل کہتی ہے کوئی ڈھونڈ مفر کی صورت

عقل کہتی ہے کوئی ڈھونڈ مفر کی صورت 
دل یہ کہتا ہے بدل جائے گی گھر کی صورت 
کون رستے میں انہیں چھوڑ کے جا سکتا ہے
خواہشیں ہوتی ہیں سامانِ سفر کی صورت
آدمی، تاش کے پتے ہیں ترے ہاتھوں میں
اے خدا! تُو بھی تو ہے شعبدہ گر کی صورت

خلوص ہو تو دعا میں اثر بھی آتا ہے

خلوص ہو تو دعا میں اثر بھی آتا ہے 
شجر ہرا ہو تو اس میں ثمر بھی آتا ہے 
میری سماعت و بینائی چھیننے والے 
میں سن بھی سکتا مجھ کو نظر بھی آتا ہے
تمہیں چراغ بجھانے کا زعم ہے، لیکن
ہمیں طلوعِ سحر کا ہنر بھی آتا ہے

Friday 4 September 2015

نہ سننے میں نہ کہیں دیکھنے میں آیا ہے

نہ سننے میں نہ کہیں دیکھنے میں آیا ہے
جو ہجر و وصل میرے تجربے میں آیا ہے
نئے سرے سے جل اٹھی ہے پھر پرانی آگ
عجیب لطف تجھے بھولنے میں آیا ہے
نہ ہاتھ مِرے نہ آنکھیں مِری نہ چہرہ مِرا
یہ کس کا عکس مِرے آئینے میں آیا ہے

بکھر گیا ہے جو موتی پرونے والا تھا​

بکھر گیا ہے جو موتی پرونے والا تھا​
وہ ہو رہا ہے یہاں جو نہ ہونے والا تھا​
اور اب یہ چاہتا ہوں کوئی غم بٹائے میرا​
میں اپنی مٹی کبھی آپ ڈھونے والا تھا​
تِرے نہ آنے سے دل بھی نہیں دُکھا شاید​
وگرنہ کیا میں سرِ شام سونے والا تھا​

تیری یاد اور تیرے دھیان میں گزری ہے

تیری یاد اور تیرے دھیان میں گزری ہے
ساری زندگی ایک مکان میں گزری ہے
اس تاریک فضا میں میری ساری عمر
دیا جلانے کے امکان میں گزری ہے
اپنے لیے جو شام بچا کر رکھی تھی
وہ تجھ سے عہد و پیمان میں گزری ہے

قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا​

قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا​
وہ آیا بھی تو کسی اور کام سے آیا​
کسی نے پوچھا نہیں لوٹتے ہوئے مجھ سے​
میں آج کیسے بھلا گھر میں شام سے آیا​
ہم ایسے بے ہنروں میں ہے جو سلیقۂ زیست​
تیرے دیار میں پل بھر قیام سے آیا​

Thursday 3 September 2015

یہ جو وحشت میں غزالوں کو سکوں ہے یوں ہے

یہ جو وحشت میں غزالوں کو سکوں ہے، یوں ہے
دشت سے بڑھ کے مِرا حال زبوں ہے، یوں ہے
دیکھتے ہی اسے ہم دل سے گئے، جاں سے گئے
عشق آغاز میں انجامِ جنوں ہے، یوں ہے
تیری تصویر بنانے سے کہاں بنتی ہے
یہ کوئی ”معجزۂ کُن فیکُوں“ ہے، یوں ہے

بات دل کو مرے لگی نہیں ہے

بات دل کو مِرے لگی نہیں ہے 
میرے بھائی یہ شاعری نہیں ہے 
جانتی ہے مِرے چراغ کی لو 
کون سے گھر میں روشنی نہیں ہے
وہ تعلق بھی مستقل نہیں تھا 
یہ محبت بھی دائمی نہیں ہے 

یوں بھی بھوک مٹا سکتا ہے

یوں بھی بھوک مٹا سکتا ہے
بندہ، مٹی کھا سکتا ہے
اک لقمے کی اجرت کیا ہے
اک مزدور بتا سکتا ہے
جنگل نوحہ پڑھ سکتے ہیں
دریا گیت سنا سکتا ہے

Wednesday 2 September 2015

ہے اسی میں پیار کی آبرو

 فلمی گیت


ہے اسی میں پیار کی آبرو وہ جفا کریں میں وفا کروں

جو وفا بھی کام نہ آ سکے تو وہی کہیں کہ میں کیا کروں


مجھے غم بھی ان کا عزیز ہے کہ انہی کی دی ہوئی چیز ہے

یہی غم ہے اب میری زندگی اسے کیسے دل سے جدا کروں

ہے اسی میں پیار کی آبرو

لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو

فلمی گیت


لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو

شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو

لگ جا گلے


ہم کو ملی ہیں آج یہ گھڑیاں نصیب سے

جی بھر کے دیکھ لیجیے ہم کو قریب سے

اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو

 فلمی گیت


اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو

ان آنکھوں کا ہر اک آنسو مجھے میری قسم دے دو

اگر مجھ سے محبت ہے


تمہارے غم کو اپنا غم بنا لوں تو قرار آئے

تمہارا درد سینے میں چھپا لوں تو قرار آئے

تمہارا دین مشکل ہے میرا آسان رہنے دو

تمہارا دین مشکل ہے، میرا آسان رہنے دو
خدارا، شیخ! مجھ کو تم فقط انسان رہنے دو
کہانی قصہ گو! مجھ کو جہنم کی سناؤ مت
خدا کی رحمتوں پر تم میرا ایقان رہنے دو
بے چارہ مضمحل دیکھو تہِ جزدان ہوتا ہے
گواہی دو جو دینی ہے، ارے قرآن رہنے دو

موت کے بعد بھی اب لوگوں نے کچھ دن مرنا ہوتا ہے

موت کے بعد بھی اب لوگوں نے کچھ دن مرنا ہوتا ہے
سوئم، دسواں اور چہلم کا خرچہ کرنا ہوتا ہے
بھوکے ننگے لوگ یہاں پر کفن بھی چوری کرتے ہیں
اس ڈر سے اب قبروں کو بھی پکا کرنا ہوتا ہے
کہتے ہیں محبوبہ اپنے یار کی قبر پہ آتی ہے
اوڑھ گلاب کی چادر ہم نے روز سنورنا ہوتا ہے

بدبودار غلیظ اور بھوکے ننگے رہنے والے لوگ

بدبودار، غلیظ اور بھوکے ننگے رہنے والے لوگ
ہم نہ مانیں ہم جیسے ہیں، یہ نیلے اور کالے لوگ
وہ لکھتا ہے پتھر اندر کیڑوں کو میں پالتا ہوں
اس کو لکھو مٹی اوپر رینگتے آ کے پالے لوگ
وہ سجدے کے اندر بس اک سوکھی روٹی مانگتے ہیں
ان کو کافر کہتے ہیں یہ جنت بیچنے والے لوگ

دن سے ہو سکتا ہے کچھ رات سے ہو سکتا ہے

دن سے ہو سکتا ہے کچھ رات سے ہو سکتا ہے
مجھ کو شکوہ بھی تو حالات سے ہو سکتا ہے
آؤ ہم جھانکیں ذرا اپنے گریبان کے بیچ
معاملہ ٹھیک اسی بات سے ہو سکتا ہے
بیٹھ، چائے کی پیالی پہ ذرا بات کریں
فاصلہ کم یہ مساوات سے ہو سکتا ہے