Thursday 15 February 2018

جب بھی شکووں پہ بات رکتی ہے

جب بھی شکووں پہ بات رکتی ہے
ہر نشاطِ حیات رکتی ہے
یوں اترتی ہے دل میں یاد ان کی
جیسے کوئی برات رکتی ہے
یوں نہ اِٹھلا کے، مسکرا کے چلو
گردشِ کائنات رکتی ہے
سفر آساں نہیں محبت کا
ہر قدم پر حیات رکتی ہے
موت دیتی ہے زندگی کا ساتھ
ساتھ چلتی ہے، ساتھ رکتی ہے
دم دلاسوں سے کیا کبھی اے چرخؔ
غم کی ماری حیات رکتی ہے

چرخ چنیوٹی

No comments:

Post a Comment