Friday 16 February 2018

اسیر ساعت یہ پوچھتا ہے

اسیرِ ساعت

اسیرِ ساعت یہ پوچھتا ہے
کہ وقت کی قید کب تلک ہے؟
زماں کو یہ اختیار کیوں ہو
کوئی بھی لمحہ
کسی کی بے وقت زندگی کو
گھڑی کی رسی سے باندھ ڈالے
اور اک سرا دست وقت میں دے کے
دوسرا بخت کو تھما دے
دمِ اسیری، سبیل کیا ہو؟
کہ اب مکاں بھی زماں کی پھیلی گرِفت میں ہے
کبھی تو یہ بھی گماں ہوا ہے
کہ وقت ساکن ہے اور ہم سب گزر رہے ہیں
اگر یہ سچ ہے؟
تو آؤ! ہم تم بھی ساعتوں کی گِرہ کو کھولیں
حصارِِ لمحہ کو توڑ ڈالیں
کھلی فضا کی اڑان بھر لیں

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment