Thursday 15 February 2018

خدائے برگ مجھے خاک سے اٹھا کے دکھا

خدائے برگ! مجھے خاک سے اٹھا کے دکھا
اٹھایا جاؤں تو پھر شاخ پر لگا کے دکھا
میں سنگِ شام سے سر پھوڑنے چلا ہوں ذرا
کنول سے خواب مجھے میری ابتدا کے دکھا
میں نیل نیل ترا حلفیہ بیاں تو پڑھوں
فگار پشت سے کُرتا ذرا اٹھا کے دکھا
تجھے میں ہدیۂ تائید دوں مگر پہلے
مرے وجود سے حرفِ نفی مٹا کے دکھا
تو پربتوں کو زمیں پر پچھاڑ دے تو کیا
ہوس کو جسم کے گھمسان میں ہرا کے دکھا
اسی کے نام کی ہر سُو اذاں سنائی دے
نقیبِ شہر! ہمیں معجزے صدا کے دکھا
نظر فروز ہو جو کل کی سرخیوں کی طرح
وہ لفظ آج سرِ طاقِ لب جلا کے دکھا

آفتاب اقبال شمیم

No comments:

Post a Comment