Thursday 15 February 2018

اس کی جرات کو عجب معجزہ کرتے دیکھا

اس کی جرأت کو عجب معجزہ کرتے دیکھا
دو بجے رات کے، سورج کو ابھرتے دیکھا
تختۂ دار پہ اقرار کے اک لمحے نے
اپنی دہلیز پہ صدیوں کو ٹھہرتے دیکھا
آج جو ہو گیا سُولی کے بھنور میں روپوش
چشمِ فردا نے اسے پار اترتے دیکھا
اپنے مرنے کا لیا موت سے پہلے بدلہ
یوں بھی ہم نے کسی سفاک کو مرتے دیکھا
کر گئیں گِر کے اسے اپنی فصیلیں عریاں
شہر کا شہر ہواؤں میں بکھرتے دیکھا
جبر کی چھاؤنی میں قہر کا سناٹا تھا
دیوار سے سے آواز کو ڈرتے دیکھا
دور کی ڈوریوں سے خود بھی وہ پابستہ تھا
ہم نے پُتلی کا تماشا جسے کرتے دیکھا
رات کی خاک سے پھوٹا گلِ منظر ایسا
سو بہ سو ایک مشفق زار نکھرتے دیکھا

آفتاب اقبال شمیم

No comments:

Post a Comment