Saturday 17 February 2018

قافلے گزرے ہیں زنجیر بہ پا

قافلے گزرے ہیں زنجیر بہ پا
دائم آباد رہے شہر تِرا
دل ہے یا شہرِ خموشاں کوئی
نہ کوئ چاپ، نہ دھڑکن، نہ صدا
آخرِ عشق کی رسوائی ہے
اب ہوا چرچا تو گھر گھر ہو گا
تجھ کو دیکھا ہے تو اب سوچتے ہیں
تجھ سے ملنے کا سبب کیا ہو گا
وہم تھا قافلۂ ہم سفراں
مڑ کے دیکھا تو کوئی ساتھ نہ تھا
شبِ تیرہ ہی غنیمت تھی فرازؔ
چاند نکلا ہے تو دل ڈوب چلا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment