Saturday 17 February 2018

کب ہے ایسا کسی زنجیر نے جانے نہ دیا

کب ہے ایسا کسی زنجیر نے جانے نہ دیا
گھر سے باہر تِری تصویر نے جانے نہ دیا
دشت میں تیری صدا پر میں پہنچ سکتا تھا
پشت سے پھینکے گئے تیر نے جانے نہ دیا
روز اک خواب نے پاؤں سے سفر باندھا مگر
روز اک خواب کی تعبیر نے جانے نہ دیا
جھیل کی تہہ میں کوئی چاند بلاتا تھا مجھے
پر کسی آنکھ کی تاثیر نے جانے نہ دیا
اب تِرے ساتھ کسی اور جہاں میں ہوتا
ہائے افسوس کہ تقدیر نے جانے نہ دیا
پوری ہو سکتی تھی یہ آدھی ملاقات حسنؔ
خط میں لکھی ہوئی تحریر نے جانے نہ دیا

حسن عباسی

No comments:

Post a Comment