Saturday 17 February 2018

رہی ہیں داد طلب ان کی شوخیاں ہم سے

رہی ہیں داد طلب ان کی شوخیاں ہم سے 
ادا شناس بہت ہیں، مگر کہاں ہم سے
سنا دیئے تھے کبھی کچھ غلط سلط قصے
وہ آج تک ہیں اسی طرح بدگماں ہم سے
یہ کُنج کیوں نہ زیارت کدۂ محبت ہو 
ملے تھے وہ اِنہیں پیڑوں کے درمیاں ہم سے
ہمی کو فرصتِ نظارگی نہیں، ورنہ
اشارے آج بھی کرتی ہیں کھڑکیاں ہم سے
ہر ایک رات نشے میں ترے بدن کا خیال
نہ جانے ٹوٹ گئیں کَے صراحیاں ہم سے
نہ لفظ ہے نہ کنایہ، نہ صورت اک نہ صدا
سکوتِ شب کی نہ پوچھے کوئی زباں ہم سے
ہماری قدر کرو، اے سخن کے متوالو 
غزل کو کل نہ ملیں گے مزاج داں ہم سے

جاں نثار اختر

No comments:

Post a Comment