Saturday 17 February 2018

اداس چاند کھلے پانیوں میں چھوڑ گیا

اداس چاند کھلے پانیوں میں چھوڑ گیا
وہ اپنا چہرہ مِرے آنسوؤں میں چھوڑ گیا
ہوا کے جھونکے سے لرزی تھی ایک شاخِ گل
کسی کا دھیان مجھے خوشبوؤں میں چھوڑ گیا
گلے ملے تھے محبت کی تیز دھوپ میں ہم
یہ کون اڑتے ہوئے بادلوں میں چھوڑ گیا
سفر کے پہلے پڑاؤ میں مرنے والا شخص
عجیب خوف ہمارے دلوں میں چھوڑ گیا
یہ کس نے ہم کو بنایا شکستہ مٹی سے
پھر اس کے بعد گھنی بارشوں میں چھوڑ گیا
اس اہتمام سے بکھرے ہوئے ہیں پھول حسنؔ
نشانی جیسے کوئی راستوں میں چھوڑ گیا

حسن عباسی

No comments:

Post a Comment