Wednesday 14 February 2018

کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے

کھیل دونوں کا چلے، تین کا دانہ نہ پڑے
سیڑھیاں آتی رہیں، سانپ کا خانہ نہ پڑے
دیکھ معمار! پرندے بھی رہیں، گھر بھی بنے
نقشہ ایسا ہو کوئی پیڑ گرانا نہ پڑے
میرے ہونٹوں پہ کسی لمس کی خواہش ہے شدید
ایسا کچھ کرمجھے سگرٹ کو جلانا نہ پڑے
اس تعلق سے نکلنے کا کوئی راستہ دے
اس پہاڑی پہ بھی بارود لگانا نہ پڑے
نم کی ترسیل سے آنکھوں کی حرارت کم ہو
سرد خانوں میں کوئی خواب پرانا نہ پڑے
ربط کی خیر ہے بس تیری انا بچ جائے
اس طرح جا کہ تجھے لوٹ کے آنا نہ پڑے
ہجر ایسا ہو کہ چہرے پہ نظر آ جائے
زخم ایسا ہو کہ دِکھ جائے، دِکھانا نہ پڑے

عمیر نجمی

No comments:

Post a Comment