Tuesday 15 May 2018

وہ قرب و ہجر کے سب روز و شب گزارے ہوئے

وہ قرب و ہجر کے سب روز و شب گزارے ہوئے
ہمارے شعر بنے یا سخن تمہارے ہوئے
قمار خانۂ شہرِ وفا میں حوصلہ رکھ
یہاں تو جشن مناتے ہیں لوگ ہارے ہوئے
حرم تو خیر مگر بت کدے ہیں کیوں ویراں
تو کیا خدا کو صنم آشنا بھی پیارے ہوئے
جو اشک جذب ہوئے میری تیری آنکھوں میں
یہاں تو زخم بنے ہیں، وہاں ستارے ہوئے
جو یادِ یار سے اب منہ چھپائے پھرتے ہیں
ہمی تو ہیں وہ غمِ زندگی کے مارے ہوئے
نگاہِ یار کو اب کس لئے تقاضا ہے
کہ ایک عمر ہوئی قرضِ جاں اتارے ہوئے
فراز خلوتِ جاں میں سکوت ہے کہ جو تھا
زمانے ہو گئے جیسے اسے پکارے ہوئے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment