Sunday 13 May 2018

اداس پھولوں کی پتیوں سے بنی ہوئی ہے

اداس پھولوں کی پتیوں سے بنی ہوئی ہے 
ہماری تقدیر کاغذوں سے بنی ہوئی ہے
سکون غارت کیا ہوا ہے تمام گھر کا 
کہ ان ہواؤں کی کھڑکیوں سے بنی ہوئی ہے
چہار سو چلچلاتے عکسوں کا سلسلہ ہے 
یہ آنکھ جانے کن آئینوں سے بنی ہوئی ہے
سفر کے دوران کیسی خوشبو ہے پانیوں میں
یہ کشتی صندل کی لکڑیوں سے بنی ہوئی ہے
ترے بدن کی مہک سے جنگل مہک اٹھے ہیں 
تُو کن گلابوں، چمبیلیوں سے بنی ہوئی ہے
اسے جلاتے ہوئے میرے ہاتھ بجھ چلے ہیں
یہ موم بتی جو پتھروں سے بنی ہوئی ہے
اچھلتی پھرتی ہیں خواہشیں میرے دل کے اندر
تمام صحرا کی ہرنیوں سے بنی ہوئی ہے
وگرنہ تاریکیوں کا ڈر ہم کو مار دیتا 
یہ رات قصے  کہانیوں سے بنی ہوئی ہے

تہذیب حافی

No comments:

Post a Comment