Tuesday 15 May 2018

بے رخی تو نے بھی کی عذر زمانہ کر کے

بے رخی تُو نے بھی کی عذرِ زمانہ کر کے
ہم بھی محفل سے اٹھ آئے ہیں بہانہ کر کے
کتنی باتیں تھیں کہ نہ کہنا تھیں وہ کہہ بھیجی ہیں
اب پشیمان ہیں قاصد کو روانہ کر کے
جانتے ہیں وہ تنک خو ہے، سو اپنا احوال
ہم سنا دیتے ہیں، اوروں کا فسانہ کر کے
کیا کہیں کیا ہے ان آنکھوں میں کہ رکھ دیتی ہیں
ایک اچھے بھلے انساں کو دیوانہ کر کے
کوئی ویرانۂ ہستی کی خبر کیا لاتا
خود بھی ہم بھول گئے دفن خزانہ کر کے
آنکھ مصروفِ نظارہ تھی تو ہم خوش تھے فراز
اس نے کیا ظلم کیا دل میں ٹھکانہ کر کے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment