Thursday 17 May 2018

ہمیں خالی تماشوں میں مگن رکھا گیا ہے

ہمیں خالی تماشوں میں مگن رکھا گیا ہے
پسِ پردہ یہاں کچھ اور ہی ہوتا رہا ہے
تُلا بیٹھا ہے وہ سورج بجھانے پر تو سمجھو
چراغوں کے تصادم کا سمے سر پر کھڑا ہے
زمانوں سے روایت ہے یہی شہرِ وفا کی
کہ یہ ہر موسمِ گل میں کوئی سر مانگتا ہے
کٹے ہاتھوں رقم ہوتی ہوئی تاریخ دیکھو
ہمارا حوصلہ دشمن کے سپنوں سے بڑا ہے
سب ایسے مل کے اس پر سنگباری کر رہے ہیں
کہ اک اس کے سوا ہر شخص جیسے پارسا ہے
حقیقت کھل رہے گی مصلحت کے فیصلوں کی
زمانہ سب عیاں کر دے گا جو کھوٹا کھرا ہے
جہاں بھر کی بلاؤں سے کہاں ممکن تھا عالی
زمیں زادہ خود اپنے ساتھ جو کچھ کر چکا ہے

جلیل عالی

No comments:

Post a Comment