Wednesday 9 May 2018

جمال کم سخن سے ایسا کام کیسے ہو گیا

جمالِ کم سخن سے ایسا کام کیسے ہو گیا
میں خوگرِ کلام، بے کلام کیسے ہو گیا
محبتوں کے سلسلے تمہی پہ کیسے رک گئے
مسافروں کا اس گلی قیام کیسے ہو گیا
جو خوئے احتیاط پر تمہارا اختیار ہے
تو روئے بے نیاز لالہ فام کیسے ہو گیا
تمام راستوں پہ وہ چلا قدم سنبھال کر
بدن کے راستے پہ بے لگام کیسے ہو گیا
سکوت کے سکون کی کمائی کیسے لٹ گئی
سخن کا اضطراب میرے نام کیسے ہو گیا
وہ دیدِ لا وجود کس نظر کی گھاٹ اتر گئی
یہ عمر بھر کا کام تھا، تمام کیسے ہو گیا
نہیں نہیں کوئی نہیں، کوئی نہیں کہیں نہیں
گمان تھا، یقین کا امام کیسے ہو گیا
زمیں کو جانتے ہوئے، فلک کو تانتے ہوئے
میں آپ ہی امام تھا، غلام کیسے ہو گیا
ضرور کچھ غلط لکھا گیا شرف کے باب میں
یہ زر کا انتظام، احترام کیسے ہو گیا
یہ جوۓ درد کس طرح زمینِ جاں پہ بہہ پڑی
فصیلِ ضبطِ غم کا انہدام کیسے ہو گیا

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment