Friday 4 May 2018

دل جو ناگاہ بے قرار ہوا

دل جو ناگاہ بے قرار ہُوا 
اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا 
شب کا پہنا جو دن تلک ہے مگر 
ہار اس کے گلے کا ہار ہوا 
گرد سر اس کے جو پھِرا میں بہت 
رفتہ رفتہ مجھے دوار ہوا 
بسترِ خواب سے جو اس کے اٹھا 
گلِ تر سوکھ سوکھ خار ہوا 
مجھ سے لینے لگے ہیں عبرت لوگ 
عاشقی میں یہ اعتبار ہوا 
روز و شب روتے کڑھتے گزرے ہے 
اب یہی اپنا روزگار ہوا 
روؤں کیا اپنی سادگی کو میرؔ 
میں نے جانا کہ مجھ سے یار ہوا 

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment