Friday 22 June 2018

شہر سے ہوتی ہوئی گاؤں تلک جاتی ہے

شہر سے ہوتی ہوئی گاؤں تلک جاتی ہے
سبز پیڑوں کی طرف ایک سڑک جاتی ہے
یک بہ یک یاد کوئی شخص مجھے آتا ہے
یک بہ یک آنکھ مِری یونہی چھلک جاتی ہے
جب تِرے وصل کی امید پکارے مجھ کو
دور تک ہجر کے کنگن کی کھنک جاتی ہے
سوچتی ہوں جو تِرے شہر سے ہحرت کر لوں
سوچتی ہوں تو مِری سانس اٹک جاتی ہے
ٹوٹ جاتا ہے کبھی وعدہ وفا کا سعدی
اور محبت کبھی پنکھے سے لٹک جاتی ہے

سعدیہ صفدر سعدی

No comments:

Post a Comment